زندگی کی راہوں میں مسافر اکثر غروبِ آفتاب کے وقت رک کر
سوچنے لگتے ہیں۔ شاید اس لیے کہ شام کا سایہ، دھوپ اور اندھیرے کے درمیان
کی سرحد ہے، جہاں روشنی تھک کر معدوم ہونے لگتی ہے اور رات کے سائے دھیرے
دھیرے زمین پر اپنی گرفت مضبوط کرنے لگتے ہیں۔ یہ لمحہ ایک ایسی داستان کا
عکس ہے—ایک ایسا وجود جو گرد میں لپٹا، وقت کے افق پر کھڑا کسی گہرے راز
میں گم ہے۔
یہ منظر انسانی زندگی کی ایک عظیم سچائی کو مجسم کرتا ہے—ہم سب مسافر ہیں،
جن کے پیروں تلے مٹی اڑتی ہے، اور پشت پر غروب ہوتا سورج ہمارے خوابوں کے
فنا ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سفر محض مٹی میں گم
ہونے کے لیے ہے؟ کیا ہمارا سایہ، جو ہمارے ساتھ ساتھ چلتا ہے، درحقیقت
ہمارا سچا عکس ہے یا محض ایک دھوکہ؟
سایہ ایک دلچسپ حقیقت ہے—یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے، مگر جب روشنی غائب
ہوتی ہے تو یہ بھی معدوم ہو جاتا ہے۔ فلسفہ کہتا ہے کہ شاید یہی ہماری
حقیقت بھی ہے—ہم بھی کسی روشنی کے محتاج ہیں، کسی مقصد، کسی منزل کے
طلبگار، ورنہ ہمارا وجود بھی محض دھندلا سا ایک خاکی نشان بن کر رہ جائے
گا۔
انسان اکثر اپنے سائے کو حقیقت سمجھ بیٹھتا ہے، یعنی وہ ان چیزوں کے پیچھے
بھاگتا ہے جو وقتی ہیں، جو اصل میں محض دھوکہ ہیں۔ دولت، شہرت، طاقت—یہ سب
سائے کی مانند ہیں، جو کبھی لمبے ہو جاتے ہیں اور کبھی بالکل معدوم۔ لیکن
جو چیز باقی رہتی ہے، وہ ہمارا اصل جوہر ہے، ہماری ذات کی سچائی۔
یہ لمحہ دھول میں لپٹے اس احساس کو بھی نمایاں کرتا ہے کہ وقت کسی کا
انتظار نہیں کرتا۔ انسان سوچتا ہے کہ وہ ہمیشہ باقی رہے گا، مگر حقیقت یہ
ہے کہ لمحے گرد کی طرح اڑتے ہیں، خوابوں کی مانند بکھرتے ہیں، اور پھر صرف
یادیں رہ جاتی ہیں۔
ہر گزرنے والا پل، ہر بکھرتی ہوئی یاد، ہر گم ہوتا خواب—یہ سب لمحاتی
حقیقتیں ہیں جو کسی نہ کسی نقطے پر ختم ہو جاتی ہیں۔ وقت کی گرد میں لپٹے
یہ نشان شاید کبھی واضح تھے، مگر اب دھیرے دھیرے معدوم ہو رہے ہیں۔ یہی
انسان کی تقدیر ہے—ایک دن ہم سب بھی اسی گرد میں تحلیل ہو جائیں گے۔
اس منظر کا ایک اور پہلو آزادی ہے—ایک وسیع و عریض فضا، ایک بے کنار راستہ،
جس کے اطراف کوئی دیوار نہیں، کوئی زنجیر نہیں۔ مگر کیا واقعی یہ آزادی ہے؟
انسان بھی آزاد ہونے کے باوجود ایک عجیب قید میں جکڑا ہوتا ہے—اپنی
خواہشات، اپنی یادوں، اپنے گزرے وقت کی زنجیروں میں۔ وہ خود کو کائنات کا
مرکز سمجھتا ہے، مگر درحقیقت وہ وقت کے تھپیڑوں میں ایک تنہا ذرے کے سوا
کچھ نہیں۔
حقیقی آزادی وہ ہے جو انسان کو خود سے روشناس کرائے۔ جیسے ہی وہ جان لیتا
ہے کہ دنیا کی سب چیزیں فانی ہیں، وہ ان سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ تب جا کر
وہ گرد میں گم ہونے کے خوف سے آزاد ہوتا ہے اور روشنی کے حقیقی سرچشمے کو
تلاش کرتا ہے۔
یہ لمحہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہمارا سایہ کیا ہے؟ ہم اپنی زندگی میں
کن چیزوں کو حقیقت سمجھتے ہیں، اور کیا وہ حقیقت میں ہمارے ساتھ رہنے والی
ہیں؟
گرد کی طرح وقت ہمیں بہا لے جائے گا، مگر سوال یہ ہے کہ ہم اس سفر میں اپنے
اندر کون سا چراغ جلاتے ہیں؟ کیا ہم روشنی کے محتاج رہیں گے، یا خود وہ
شعلہ بنیں گے جو اندھیروں کو مٹا دے؟
یہی وہ سوال ہے جو ہر مسافر کو اپنے وجود کے آئینے میں دیکھنا ہوگا—کیا ہم
مٹی میں دفن ہو کر فنا ہو جائیں گے، یا اپنی ذات کی سچائی کو پا کر امر ہو
جائیں گے؟
|