یہ ذہنی مریض ڈکٹیٹر کے دورحکومت
کی بات ہے جب دخترِپاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اغوا نماگرفتاری ہوئی
اوربعدازاں انہیں امریکی آقاﺅں کے حوالے کردیاگیا۔کئی ماہ تک محترمہ ڈاکٹر
عافیہ عافیہ صاحبہ کے بارے کسی کوعلم نہ ہوسکاکہ قوم کی بیٹی کس حال میں
اورکہاں ہے۔اس کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذرائع نے اس را ز سے پردہ
اٹھایاکہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکی فوج کی قید میں ہے
اورافغانستان کے ایک امریکی ٹارچر سیل میں قید ہے۔اس وقت سے لے کر آج تک
ڈاکٹر عافیہ کے لئے ہمارے ملک میں وقتاً فوقتاً مظاہرے، جلوس اوراحتجاجی
پروگرام ہوتے ہیں مگرہمارے حکمرانوں کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی ۔کبھی
کبھار کسی شدید دباﺅ کے تحت کسی سرکاری اہلکار کابیان پڑھنے کوملتاہے کہ ہم
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لئے کوشاں ہیں،اوربس!عوام یہ سمجھتی ہے کہ اس نے
احتجاجی جلوس یامظاہرے میںشرکت کرکے اپنافرض اداکردیا،مختلف مذہبی ،سیاسی
اورسماجی تنظیموں کے کرتادھرتایہ خیال کرتے ہیں کہ وہ ہفتہ دس دن بعد ایک
عدد مذمتی بیان جاری کرکے یاکسی احتجاجی پروگرام میں تقریر کرکے اپنے فرض
سے سبکدوش ہوگئے ہیں،جبکہ حکومتی اہلکار،چاہے وزراءکرام ہوں یاعام سیاسی
لیڈرز،دفترخارجہ کے افسران ہوں یاامریکہ میں ہمارے سفارت خانے کے اہلکار،
وہ ہم سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے دوچار ماہ بعد اس حوالے سے ایک
عدد بیان جاری کرکے اپنے فرض کی ادائیگی کرلیتے ہیں۔مگر ڈاکٹر عافیہ کی
ناجائز اورغیر قانونی اسیری ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی ۔پہلے پہل
توامریکی حکام نے ہمارے مطالبہ پرکان ہی نہ دھرے اورجب ہماری عوام کاموڈ
ذرازیادہ خراب ہونے لگااورحکومت پر زبردست دباﺅ ڈالاجانے لگاکہ وہ ڈاکٹر
عافیہ کے سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرے توامریکیوں نے ہماری حکومت کی مدد کرنے
کی غرض سے اپنی ایک عدالت سے ڈاکٹر عافیہ کوسزاسنوادی ۔حیرانگی کی بات ہے
کہ جس کیس میں ڈاکٹر عافیہ صاحبہ کوسزاسنائی گئی ہے اس کیس کانہ کوئی ثبوت
ہے اورنہ ہی کوئی گواہ، مگرپھر بھی عدالت نے ملزمہ کو سزا سنادی ۔اورسزابھی
ایسی کہ جس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہم کبھی بھی ڈاکٹر صاحبہ کورہانہیں کریں
گے۔یعنی ڈاکٹرعافیہ صاحبہ کو اسی سال سے زیادہ قیدکی سزاسنائی گئی ہے۔اب
سوال یہ ہے کہ ایک ایسی ملزمہ جس پر کیس ثابت نہیں ہوسکا،کوئی گواہ بھی
نہیں اورنہ ہی کوئی ایسے ٹھوس شواہد ہیں کہ جن کی بنیاد پر سزاسنائی
جاسکے۔مگر پھر بھی ”تہذیب یافتہ “معاشرے کے ایک جج صاحب نے ایک عورت
کوسزاسنادی اوراس ملک کی حکومت سنائی گئی سزا پر پوری طرح عمل درآمد
کروارہی ہے۔ہمارے ملک میں کام کرنے والی این جی اوز کی بگڑی ہوئی خواتین،
جو اسلام کے متعلق پوری قوم کوگمراہ کرنے کے لئے کوئی موقعہ ضائع نہیں
کرتیں ،بالخصوص عورت کی آزادی کے حوالے سے اس حد تک ڈھنڈورا پیٹا جاتاہے کہ
یوں محسوس ہوتاہے کہ یہ خواتین اوران کی این جی اوز اب دنیامیں کسی عورت
پرظلم نہیں ہونے دیں گی ۔مگروہ تمام کی تمام این جی اوز اورخواتین ڈاکٹر
عافیہ کے بارے یوں خاموش ہیں جیسے ڈاکٹر عافیہ نہ توعورت ہے اورنہ ہی انسان
۔
دوسری طرف 2011ءکے شروع میں لاہور میں ایک امریکی دہشت گرد دوافراد کوقتل
کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں گرفتار ہواتوپوری امریکی قوم بشمول امریکی انتظامیہ
کے اس دہشت گرد جس کانام ریمنڈ ڈیوس بتایاگیاتھاکی رہائی کیلئے یک زبان
ہوگئی ۔اگرحقیقت کی نظر سے دیکھاجائے توریمنڈ ڈیوس چار افراد کے قتل میں
ملوث تھا۔دوافراد کواس نے اپنے ہاتھ سے ناجائز اورممنوعہ اسلحہ استعمال
کرتے ہوئے قتل کیا، ایک اس کے ساتھیوں کی گاڑی تلے کچل کرجاں بحق ہوا،
اورایک مقتول کی بیوہ نے انصاف نہ ملنے کے دکھ میں خود کشی کرلی۔اس طرح
ریمنڈ ڈیوس بیک وقت چار افراد کے قتل میں ملوث تھا۔مگرامریکیوں نے باہمی
اتحاد کی بدولت اپنادہشت گرد رہاکروالیا۔اورہماری حکومت ریمنڈ ڈیوس کے عوض
ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کامطالبہ بھی نہ کرسکی۔اس وقت بھی ملک میں بیرونی
امداد پر چلنے والی ان این جی اوز کاموقف امریکی موقف سے میل
کھارہاتھا۔کیونکہ امریکی بھی دہشت گرد ریمنڈڈیوس کوسفارت کارقراردے رہے تھے
اورہمارے بعض مفکرین اوراین جی اوز کے سرکردہ بھی اسے سفارت کارکے طور پر
حاصل استثنیٰ کاحوالہ دے کر ریمنڈ ڈیوس کی رہائی کے امریکی مطالبے کی حمایت
کررہے تھے۔کسی ایک نے بھی ا س وقت بھی ڈاکٹر عافیہ کے بدلے ریمنڈڈیوس کی
رہائی کی بات نہ کی ۔حالانکہ ایساکیاجانابہت سہل تھا۔اس کے برعکس ہمارے
حکمرانوںنے اسلامی قانون دیت کاسہارالے کر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے دہشت
گرد کورہاکردیا۔اوروہ تمام لوگ جوہر معاملہ پر مذہب سے بیزاری کااعلان
کرنااپنافرض سمجھتے ہیں وہ بھی اسلامی قانون دیت کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے
تھے۔یوں ہماری حکومت ایک امریکی کوسزانہ دے سکی جوکہ چار بے گناہ افراد کے
قتل میں ملوث تھا۔اس کے برعکس ایک بے گناہ پاکستانی عورت جس کے خلاف نہ
توکئی ثبوت ہے اورنہ ہی گواہ ،صرف مسلمان ہونے کے ناطے امریکی قید کاٹنے
پرمجبورہے۔ہماری حکومت ،نام نہاد مفکرین اوراین جی اوز کی بگڑی ہوئی خواتین
اس معاملہ پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔بلکہ یوں کہناچاہئے کہ ڈاکٹر
عافیہ کے معاملہ پر ہماری پوری کی پوری سیاسی قیادت قول وفعل کے تضادکاشکار
ہے۔کیاحکومت اورکیااپوزیشن ،کیااتحادی اورکیادوسرے تیسرے قائدین،سب کے سب
دوغلی پالیسی پرچل رہے ہیں ۔کوئی جماعت یالیڈر اس معاملہ پر کھل کر نہ
توبات کرتاہے اورنہ ہی مسئلہ حل کرنے کی تجویز پیش کرتاہے۔حالانکہ یہ کوئی
مشکل کام نہیں ۔بس صرف نیت صاف ہوناشرط ہے ۔مثال کے طور پر پچھلے پانچ سال
سے ملک میں بجلی کابحران چلاآرہاہے۔مگراب ایک ہفتہ سے اس معاملے پر ہمارے
ملک کے چند ایک سیاسی قائدین نے تھوڑی بہت سرگرمی دکھائی ہے اورنتیجہ کے
طور پر پچھلے چار پانچ دن سے لوڈ شیڈنگ میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے
بلکہ بعض علاقوں میںلوڈ شیڈنگ مکمل طور پر ختم ہوگئی ہے۔اس سے ثابت یہ
ہواکہ اگرہماری سیاسی قیادت کسی مسئلہ کوحل کرواناچاہے تویہ ممکن ہے ۔میرے
خیال میں اگرہماری سیاسی ومذہبی قیادت ڈاکٹر عافیہ صاحبہ کے مسئلہ پر بھی
اسی طرح اتفاق واتحاد کے ساتھ کام کریں جیساکہ مارچ 2009میں عدالت عظمیٰ کی
بحالی کے ایک نکاتی ایجنڈاکے اوپرکام کیاگیا،اورجیسے آج بجلی کابحران حل
کروانے کے لئے خلوص نیت سے کام کیاگیاہے ویسے ہی ہمارے سیاسی ومذہبی قائدین
مکمل اتحاد واتفاق سے کام کریں تویقینی طور پر ڈاکٹرعافیہ صدیقی صاحبہ کی
رہائی کے امکانات پیداہوسکتے ہیں۔ |