قبائلی علاقوں میں فوجی آپریشن اب ختم ہونے چاہئیں

تحریر : محمد اسلم لودھی

امریکہ میں ہونے والے حالیہ سروے کے مطابق ہر تیسرا امریکی فوجی افغانستان اور عراق کی جنگ کو ڈراﺅنا خواب قرار دے کر اپنی ذہنی اور جسمانی پستی کا برملا اظہار کررہا ہے اس حوالے سے تو خودامریکی دفاعی اداروں کی رپورٹیں شاہد ہیں کہ عراق اور افغانستان میں جنگ لڑنے والے نصف سے زیادہ امریکی نفسیاتی مریض بن چکے ہیں اس کے باوجود کہ امریکی حکومت ار بوں ڈالر ان کے علاج پر خرچ کررہی ہے پھر بھی وہ نار مل زندگی گزارنے سے قاصر ہیں ۔دوسری جانب چار کھرب ڈالر کی عراق اور افغان جنگ نے امریکہ کو معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا کردیا ہے۔ اب جبکہ امریکی وحدت کا شیرازہ بکھرنے کے قریب ہے تو وہ اپنے وجود کو بچانے کے لیے پاکستان پر حملہ کرنے پر اتر آیاہے ۔ کہنے کو امریکہ پاکستان کا دوست ہے لیکن یہ کیسا دوست ہے جو مدد کرنے کی بجائے دوست کو ہی دشمن بنا کر اسے صفحہ ہستی سے مٹانے کی جستجو کرتا ہے شاید اسی لیے کسی نے کہا ہے کہ نہ امریکہ کی دوستی اچھی نہ اس کی دشمنی اچھی ۔اب جبکہ پاکستان کو امریکی جنگ لڑتے ہوئے دس سال ہوچکے ہیں ۔ امریکی دوستی یکدم دشمنی کا روپ دھارتی جارہی ہے امریکی حکومت میں شامل چند احباب مشورہ دے رہے ہیں کہ اگر پاکستان پر حملہ کردیا جائے تو امریکہ افغانستان میں ہونے والی شکست سے کسی حد تک محفوظ رہ سکتاہے لیکن چند دوسرے دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستان پر حملہ تیسری عالمگیر جنگ چھیڑنے کے مترادف ہوگا کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین کبھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان امریکہ اور بھارت کے سامنے مغلوب ہو ۔امریکی دھمکیاں ملتے ہی چین کے نائب وزیر اعظم کی پاکستان آمد اور چینی صدر کی متوقع آمد اس خیال کو مزید تقویت پہنچاتی ہے کہ پاکستان چین کے لیے بہت اہم ہے اوراس کے دفاع کے لیے چین امریکہ کے ساتھ ٹکرانے سے گریز بھی نہیں کرے گا ۔ممکن ہے امریکہ پاکستان پر حقانی نیٹ ورک کا بہانہ بنا کر حملہ کردیتا اور پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو ممکن حد تک نقصان پہنچا نے کی جستجو کرتا لیکن چینی ردعمل کا خوف اس کے قدم روکے ہوئے ہے ۔دوسری جانب پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور دنیا کی بہترین لڑاکا فوج اس کے دفاع کے لیے موجود ہے ۔بے شک بحری اور فضائی برتری امریکہ کو حاصل ہوگی لیکن زمین پر لڑائی میں کامیابی حاصل کرنا( بطور خاص قبائلی علاقوں میں جہاں ایک کروڑ مسلح قبائلی اس کے استقبال کے لیے موجود ہیں )ناممکن ہے ۔اس لیے پاکستان کو عراق ٬افغانستان یا لیبیا تصور نہ کیا جائے بلکہ کسی نہ کسی طرح اپنی عزت بچا کر افغانستان سے نکلنا ہی امریکہ کے لیے کافی ہوگا ۔ پھر امریکہ کو اس وقت بیرونی سے زیادہ اندورنی خطرات لاحق ہیں ۔ معاشی بدحالی ٬ پے درپے سمندری طوفان ٬ بے روزگاری کا بڑھتا ہوا آسیب ٬ بینکنگ نظام کی تباہی ٬بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات دیمک کی طرح امریکی معیشت کو چاٹ رہے ہیں ۔ 2014 تو بہت دور ہے 2012 تک افغانستا ن میں رکنا بھی امریکہ کے محال نظر آتا ہے ۔علاوہ ازیں عیسائیت کا پرچار اور یہودیت کا دفاع کرنے والے امریکہ کی دہلیز پر اب پوری شدت سے اسلام دستک دے رہا ہے۔میںسمجھتاہوں یہی وہ وقت ہے جب پاکستان کو اپنے تمام قبائلی علاقوں میں جاری فوجی آپریشن روک کر وہاں مقامی عمائدین کی سربراہی میں انتظامیہ تشکیل دے فوج کو وہاں سے نکال لینا چاہیئے ۔ امریکی دھمکیوں نے پاکستانی قوم کو یکجان ویک قالب تو کردیا ہے بلکہ آل پارٹی کانفرنس میں قومی خود مختاری کے دفاع کے لیے موثر جوابی کاروائی کا جو فیصلہ کیاگیا اسے صرف زمینی یا فضائی جارحیت تک ہی محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ ڈرون حملے بھی روک دینے چاہیں کیونکہ جتنے بھی ڈرون حملے ہوئے ان میں نہ صرف بے گناہ محب وطن قبائلیوں کی عورتیں بچے اور بزرگ شہید ہوئے ہیں بلکہ کاروبار کے ساتھ ساتھ ان کے مٹی کے بنے ہوئے گھروندے بھی تباہ و بربا د ہوچکے ہیں۔ کسی ایک کو بھی جانی و مالی نقصان کے ازالے کے لیے معاوضہ نہیں دیاگیا جو سراسر زیادتی کے مترداف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات ان قبائلیوں کے حق میں جاتی ہے جو اب بھی امریکی جارحیت کی صورت میں پاک فوج کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے تیار نظر آتے ہیں بلکہ اگر ممکن ہوسکے تو بلوچستان کی طرح محب وطن قبائلیوں کو پاک فوج میں بھرتی کرلیا جائے جس طرح فوج میں پنجاب ٬ سندھ اور بلوچ رجمنٹیں ہیں اسی طرح قبائل کے نام سے ایک رجمنٹ قائم کردی جائے تو قبائلیوں کے دل میں پاکستان کے بارے میں مزید محبت کے جذبات پیدا ہوں گے۔پاکستان نام نہاد امریکی جنگ کی بہت بھاری قیمت ادا کرچکا ہے اب مزید کوئی گنجائش نظر نہیں آتی ۔مارنے اور مرنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیئے اور ہر محب وطن پاکستانی کو مشکوک اور غیر محفوظ بنا دینے والی یہ نام نہاد دہشت گردی کی جنگ نہ صرف ختم ہوجانی چاہیئے بلکہ سفارت کاروں کے روپ میں امریکیوں کی نقل و حرکت اور میل ملاپ پر پابندی عائد کی جائے کیونکہ امریکہ کو اس خطے میں جس ذلت اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ہے وہی سیاہی او رناکامی کے داغ پاکستانی چہرے پر لگانے کی کوشش کرتے ہوئے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی جستجو کرے گا۔قبائلی علاقوں ٬ بلوچستان ٬ اور جنوبی پنجاب میں بڑھتی ہوئی امریکی سفارت کاروں کی سرگرمیاں اس بات کی گواہ ہیں ۔ اس لیے کہاجاسکتا ہے کہ امریکہ کے چہرے پر پڑا دوستی کا پردہ اب واضح طور پر سرک چکا ہے اور وہ بھارت کی طرح دشمن کے روپ میں سامنے آچکا ہے ۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تو وہ چہرہ بخوبی دیکھ چکے ہیں لیکن پاکستانی حکمرانوں سے اب بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں وہ ڈالروں کے لالچ میں پھر نہ امریکی جال میں پھنس جائیں ۔کیونکہ انہی کی وجہ سے آج افغانستان کا کٹھ پتلی صدر کرزئی بھارت کی گودمیں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے اور امریکہ کو دباﺅ بڑھانے کے لیے بار بار کہہ رہا ہے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.