ہمارا معاشرہ اسلامی ہے۔ اس کی ایک خوبصورت
اوربہترین روایت یہ ہے کہ ہم اپنے نونہال بچوں کوسب سے پہلے سلام کرناہی
سکھاتے ہیں۔ ہم بڑوں کوسلام کریں نہ کریں بچوں کوسلام ضرورکرتے ہیں۔ سلام
سب کوکرناچاہیے۔اس بارے مزید لکھنے سے پہلے سلام کے بارے میں اسلامی
تعلیمات کیاہیں۔ اس بارے جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
کتاب انوارالحدیث کے صفحہ 355 پرلکھا ہے کہ
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا کہ کیامیں تم کوکہ جب تم اس پرعمل کروتوتمہارے بات محبت بڑھے اوروہ
یہ ہے کہ آپس میں سلام کورواج دو۔
حضرت جابررضی اﷲ عنہ نے کہا کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ کلام
سے پہلے سلام کرناچاہیے۔
حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا
کہ سلام میں پہل کرنے والاغروراورتکبرسے پاک ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے
فرمایا کہ جب کوئی تم میں سے کسی مجلس میں پہنچے توسلام کرے پھراگربیٹھنے
کی ضرورت ہوتو بیٹھ جائے اورجب چلنے لگے تودوبارہ سلام کرے۔
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
اے بیٹے جب تم گھرمیں داخل ہوتوگھروالوں کوسلام کرکیونکہ تیراسلام تیرے اور
گھر والوں کے لیے برکت کاسبب ہوگا۔
حضرت عمروبن شعیب رضی اﷲ تعالیٰ عنہما اپنے باپ سے اوروہ اپنے داداسے روایت
کرتے ہیں۔کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جوشخص سلام کرنے سے
پہلے غیروں کی مشابہت اختیارکرے وہ ہم سے نہیں ہے یہودونصاریٰ کی مشابہت نہ
کرویہودیوں کاسلام انگلیوں کے اشارے سے ہے اورنصاریٰ کاسلام ہتھیلیوں کے
اشارہ سے ہے ۔
حضرت جابررضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ
اگر تمہاری ملاقات بدمذہبوں سے ہوانہیں سلام نہ کرو۔
کتاب قانون شریعت کے حصہ دوم کے صفحہ 323 سے لکھا ہے کہ
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن کے دوسرے مومن پرچھ
حق ہیں۔جب وہ بیمارہوتوعیادت کرے اورجب وہ مرجائے تواس کے جنازے میں
حاضرہواورجب وہ بلائے تواجابت کرے یعنی حاضرہواورجب اس سے ملے توسلام کرے
اورجب چھینکے توجواب دے اورحاضروغائب اس کی خیرخواہی کرے (نسائی) اور
فرمایا جوشخص پہلے سلام کرے وہ رحمت الٰہی کازیادہ مستحق ہے (امام
احمدوترمذی) اورفرمایا جب کوئی شخص اپنے بھائی سے ملے تواسے سلام کرے پھران
دونوں کے درمیان درخت یا دیوار یاپتھرحائل ہوجائے اورپھرملاقات ہوتوپھرسلام
کرے (ابوداؤد)اورفرمایا کہ سوارپیدل کوسلام کرے اورچلنے والابیٹھے ہوئے
کوسلام کرے اورتھوڑے آدمی زیادہ آدمیوں کوسلام کریں یعنی ایک طرف زیادہ لوگ
ہوں اوردوسری طرف کم توسلام وہ لوگ کریں جوکم ہیں۔اورایک روایت میں ہے کہ
چھوٹا بڑے کوسلام کرے اورگزرنے بیٹھے ہوئے کواور تھوڑے زیادہ کو(بخاری
ومسلم ) حضرت انس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
بچوں کے سامنے سے گزرے توبچوں کوسلام کیا۔(بخاری ومسلم )
اورفرمایا کہ راستوں میں بیٹھنے سے بچولوگوں نے عرض کی یارسول اﷲ ہمیں
راستہ میں بیٹھنے سے چارہ نہیں ہم وہاں آپس میں بات چیت کرتے ہیں فرمایا جب
تم نہیں مانتے اوربیٹھناہی چاہتے ہوتو راستہ کاحق اداکرو۔لوگوں نے عرض کی
کہ راستہ کاحق کیا ہے۔ فرمایا کہ نظرنیچی رکھنا اوراذیت کودورکرنا اورسلام
کاجواب دینا اوراچھی بات کاحکم کرنا اوربری باتوں سے منع کرنااورایک روایت
میں ہے کہ راستہ بنانا۔ایک اورروایت ہے فریادکرنے والے کی فریادسننا
اوربھولے ہوئے کوہدایت کرنا (بخاری ومسلم ) اورفرمایا جوشخص ہمارے غیرکے
ساتھ تشبہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہودونصاریٰ کے ساتھ تشبہ نہ کرو یہودیوں
کاسلام انگلیوں کے اشارہ سے ہے اورنصاریٰ کاسلام ہتھیلیوں کے اشارہ سے ہے ۔
سلام کرنے میں یہ نیت ہوکہ اس کی عزت وآبرواورمال سب کچھ اس کی حفاظت میں
ہے ان چیزوں سے تعرض کرناحرام ہے (ردالمختار) صرف اسی کوسلام نہ کرے جس
کوپہچانتاہو بلکہ ہرمسلمان کوسلام کرے چاہے پہچانتا ہویانہ پہچانتاہو۔بلکہ
بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین اسی ارادہ سے کہ کثرت سے لوگ ملیں گے
اورزیادہ سلام کرنے کاموقع ملے گا۔ سلام کاجواب فوراً دیناواجب ہے۔
بلاعذرتاخیرکی توگناہ گارہوگا اوریہ گناہ جواب دینے سے رفع نہ ہوگا بلکہ
توبہ کرنی ہوگی ۔(ردالمختار) ایک جماعت دوسری جماعت کے پاس آئی اورکسی نے
سلام نہ کیاتوسب نے سنت کوترک کیاسب پرالزام ہے اوراگران میں سے کسی نے
سلام کرلیا توسب بری ہوگئے ۔اورافضل یہ ہے کہ سب ہی سلام کریں اگران میں سے
کسی نے جواب نہ دیاتوسب گناہ گارہوئے اوراگرایک نے جواب دے دیاتوسب بری
ہوگئے اورافضل یہ ہے کہ سب جواب دیں (عالمگیری) سائل نے دروازہ پرسلام کیا
اس کاجواب دیناواجب نہیں کچہری میں قاضی اجلاس کررہاہواس کوسلام کیاگیا
قاضی پرجواب دیناواجب نہیں۔ایک شخص شہرسے آرہاہے دوسرا دیہات سے دونوں میں
کون سلام کرے بعض نے کہا شہری دیہاتی کوسلام کرے اوربعض علماء فرماتے ہیں
کہ دیہاتی شہری کوسلام کرے ۔ایک شخص بیٹھا ہواہے دوسرایہاں سے گزرا تویہ
گزرنے والابیٹھے ہوئے کوسلام کرے اورچھوٹا بڑے کوسلام کرے اورسوال پیدل
کوسلام کرے اورتھوڑے زیادہ سلام کریں۔ایک شخص پیچھے سے آیا یہ آگے والے
کوسلام کرے اورعورت اجنبیہ نے مردکوسلام کیااوروہ بوڑھی ہوتواس طرح جواب دے
کہ وہ بھی سنے اوروہ جوان ہوتواس طرح جواب دے کہ وہ نہ سنے۔جب اپنے گھرمیں
جائے تو گھروالوں کوسلام کرے بچوں کے سامنے سے گزرے توان بچوں کوسلام
کرے۔کفارکوسلام نہ کرے اوروہ سلام کریں توجواب دے سکتا ہے مگرجواب میں صرف
علیکم کہے ۔ اگر ایسی جگہ گزرنا ہوجہاں مسلمان اورکافردونوں ہوں توالسلام
علیکم کہے اورمسلمانوں پرسلام کاارادہ کرے۔ کافرکواگرحاجت کی وجہ سے سلام
کیا(مثلاً سلام نہ کرنے میں اس سے اندیشہ ہے توہرج نہیں اوربمقصد تعظیم
کافرکوہرگزہرگزسلام نہ کرے کہ کافرکی تعظیم کفرہے۔ سلام اس لیے ہے کہ
ملاقات کرنے جوشخص آئے وہ سلام کرے کہ زائراورملاقات کرنے والے کی یہ تحیت
ہے۔لہذا جوشخص مسجدمیں آیا اورحاضرین مسجد تلاوت قرآن وتسبیح ودرودمیں
مشغول ہیں انتظارنمازمیں بیٹھے ہیں توسلام نہ کرے کہ سلام کاوقت نہیں اسی
واسطے فقہافرماتے ہیں کہ ان کواختیارہے کہ جواب دیں یانہ دیں۔ہاں اگرکوئی
شخص مسجدمیں اس لیے بیٹھا ہے کہ لوگ اس سے ملاقات کوآئیں توآنے والے سلام
کریں۔کوئی شخص تلاوت میں مشغول ہے یادرس وتدریس یاعلمی گفتگویاسبق کی
تکرارمیں ہے تواس کوسلام نہ کرے۔ اسی طرح اذان واقامت وخطبہ جمعہ وعیدین کے
وقت سلام نہ کرے سب لوگ علمی گفتگوکررہے ہوں یاایک شخص بول رہاہے باقی سن
رہے ہیں دونوں صورتوں میں سلام نہ کرے۔مثلاً عالم وعظ کررہا ہے یادینی
مسئلہ پرتقریرکررہاہے اورحاضرین سن رہے ہیں توآنے والاشخص چپکے سے آکربیٹھ
جائے سلام نہ کرے لوگ کھاناکھارہے ہوں اس وقت کوئی آیاتوسلام نہ کرے ہاں
اگریہ بھوکاہے اورجانتا ہے کہ اسے وہ لوگ کھانے میں شریک کرلیں گے توسلام
کرے۔ اس وقت ہے کہ کھانے والے کے منہ میں لقمہ ہے اوروہ چبارہاہے کہ اس وقت
جواب دینے سے عاجزہے اوراگرابھی کھانے کے لیے بیٹھاہی ہے یاکھاچکاہے توسلام
کرسکتا ہے کہ اب وہ عاجزنہیں۔جوشخص ذکرمیں مشغول ہواس کے پاس کوئی شخص آیا
توسلام نہ کرے اورکیاتوذاکرپرجواب واجب نہیں۔ جوشخص اعلانیہ فسق کرتا ہواسے
سلام نہ کرے کسی کے پڑوس میں فساق رہتے ہیں ان سے اگریہ سختی برتتا ہے تووہ
اس کوزیادہ پریشان کریں گے اوراگرنرمی کرتا ہے ان سے سلام کلام جاری رکھتا
ہے تووہ ایذا پہچانے سے بازرہتے ہیں توان کے ساتھ ظاہری طورپرمیل جول رکھنے
میں معذورہے جولوگ شطرنج کھیل رہے ہوں ان کوسلام کیاجائے یانہ کیاجائے
جوعلماء سلام کرنے کو جائز فرماتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ سلام اس مقصد سے
کرے کہ اتنی دیرتک وہ جواب دیں گے کھیل سے بازرہیں گے یہ سلام ان کومعصیت
سے بچانے کے لیے ہے اگرچہ اتنی دیر تک ہی سہی ۔اورجوفرماتے ہیں سلام
کرناناجائزہے ان کامقصد زجروتوبیخ ہے کہ اس میں ان کی تذلیل ہے۔
قارئین کویادہوتواس تحریرکے آغازمیں اس خوبصورت روایت کاتذکرہ کیا گیا کہ
ہمارے اسلامی معاشرے میں ہم اپنے بچوں کوسب سے پہلے سلام کرناسکھاتے ہیں ۔
ہم اپنے بچوں کوسلام کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔ اس کاایک مقصد تویہ ہوتا ہے
کہ بچہ یہ سمجھ اورجان لے کہ اس نے ایک مسلمان کے گھرمیں جنم لیا ہے۔ اس
کویہ یقین بھی ہوجائے کہ وہ مکمل اورامن وسلامتی میں ہے۔ اوراس روایت میں
سب سے اہم اورقابل توجہ بات یہ ہے کہ جومسلمان اپنے بچوں کوسب سے پہلے سلام
کرنے کی تربیت دیتے ہوں وہ انتہاپسند اوردہشت گردکیسے ہوسکتے ہیں۔ یہ اس
بات کابھی ثبوت ہے کہ اسلام ایک امن وسلامتی پسند مذہب ہے۔ یہ اپنے بچوں
کوسب سے پہلے سبق ہی سلامتی کادیتے ہیں۔ ہم مسلمان جب ایک دوسرے سے ملتے
ہیں توسلام کرتے ہیں۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ ہم سلام کرتے ہیں دوسری طرف سے
جواب نہیں ملتا توہم اس کااظہارچاہے نہ کریں مگریہ سوچ ضروررہے ہوتے ہیں کہ
اس نے ہمارے سلام کاجواب نہیں دیا ،کہیں وہ ہم سے ناراض تونہیں ۔کہیں یہ
بات تونہیں کہیں وہ بات تونہیں ۔اصل بات یہ ہے کہ ہمیں یہ علم یاشعورہی
نہیں ہوتا کہ ہمیں اس وقت اوراس صورت حال میں سلام کرنابھی چاہیے تھا
یانہیں۔ اورجب کوئی ہمارے پاس آتا ہے اوروہ سلام نہیں کرتا توہم اس
پرتنقیدکرناشروع کردیتے ہیں کہ اس نے سلام کیوں نہیں کیا ہم اسے سمجھانے
سلام کرنے کی اہمیت بتانے لگ جاتے ہیں۔ اصل بات ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم جس
حال میں بیٹھے ہیں یاجوکچھ ہم کررہے ہیں اس صورت حال میں اسے سلام کرنابھی
چاہیے تھا یانہیں۔ دونوں صورتوں میں غلط ہم خود ہی ہوتے ہیں اورسمجھ کسی
اورکوہورہے ہوتے ہیں۔ اسی لیے یہ تحریرلکھ دی ہے تاکہ قارئین اسے پڑھ
کراپنی اصلاح کرلیں۔ علمائے کرام اس تحریرمیں کوئی غلطی پائیں تواصلاح
کرسکتے ہیں۔
|