سندھ میں تبدیلی کے آثار

سندھ کی سیاست میں اس وقت انتہائی ہل چل دکھائی دے رہی ہے جس کی وجہ سے کئی خدشات اور تبدیلیوں کے آثار پیداہو تے نظر آہے ہیں۔اس کے بنیادی اسباب اتحادی جماعتوں کے مابین عدم اعتماد کی کیفیت،من پسندوزارتوں کے حصول کی دوڑ،سیاسی سطح پر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش اورسب سے اہم سندھ کا متنازع بلدیاتی نظام ہے اب تو ایسا لگتا ہے کہ سندھ کی سیاست کا انحصار ہی بلدیاتی نظام پر ہے۔

2001ءکے بلدیاتی نظام پر اگرچہ پیپلز پارٹی کے تحفظات اور اعتراضات روز اول سے ہی تھے لیکن 2008ءمیں پیپلز پارٹی کی صوبے اور مرکز میں حکومتوں کے قیام اور 2009ءمیں بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہونے سے چند ماہ قبل اتحادی جماعتوں کے مابین بلدیاتی نظام ایک نزع کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک طرف متحدہ قومی موومنٹ ہے جو 2001ءکے بلدیاتی نظام کو ہی من وعن قائم رکھنا چاہتی ہے دوسری طرف پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتیں ہیں جو اس کو تسلیم نہیں کرتیں۔ تین سالوں میں اس حوالے سے متعدد اجلاس بھی ہوئے، کمیٹیاں بنیں، اتحادیوں کی علیحدگیاں ہوئیں لیکن مسئلہ جوں کا توں رہا اب یہ مسئلہ انتہائی شدت اختیار کرگیا ہے۔6 اگست 2011ءکو آرڈیننس کے ذریعے صوبے میں دو بلدیاتی نظام اور بعد ازاں ایک ہی بلدیاتی نظام 2001ءکو برقرار رکھنے کے فیصلے اور سابق وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی حکومتی عہدوں سے علیحدگی و اعتراضات اور متحدہ پر شدید الزام تراشیوں نے صورتحال کو انتہائی پیچیدہ بنادیا ہے۔جس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں بلدیاتی نظام میں تبدیلی ہو یا نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے کئی اور تبدیلیاں ضرور رونما ہوں گی۔

پیپلز پارٹی کی حکومت اور متحدہ کی شدید خواہش ہے کہ 6 نومبر 2011ءسے قبل بلدیاتی نظام کے بل کو صوبائی اسمبلی سے منظور کرایا جائے یا اسمبلی میں پیش کرکے جاری کردہ آرڈیننس کی حیثیت کو برقرار رکھا جائے، لیکن ذوالفقار مرزا کی حالیہ سرگرمیوں کے بعد پیپلز پارٹی میں ایک مضبوط دھڑا بن چکا ہے جو 2001ءکے بلدیاتی نظام کو قبول کرنے کےلئے تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے مجموعی طور پر 3 درجن کے قریب صوبائی وزراءوارکان صوبائی اسمبلی ذوالفقار مرزا کے موقف کے حامی ہیں جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کو پارٹی کے 92 میں سے50 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب فنکشنل لیگ اور عوامی نیشنل پارٹی نے بھی کمشنری نظام کی بحالی کا مطالبہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ان کا جھکاﺅ بھی ڈاکٹر ذوالفقار مرزا کی طرف ہے۔ نیشنل پیپلز پارٹی نے اگرچہ بلدیاتی نظام 2001ءکی حمایت کی ہے لیکن وہ پورے صوبے کےلئے ایک نظام کی حامی ہیے تاہم کراچی کی پانچ اضلاع میں تقسیم کرنے کامطالبہ ضرور کررہی ہے ۔ ایم کیو ایم کے بعض رہنماﺅں نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ بلدیاتی نظام کے بل کو اسمبلی سے منظور کراکر قانونی شکل دیں گے جس کے بعد ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور قوم پرستوں نے بھی اس نظام کے خلاف آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کی ہدایت پر وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ مصالحت کےلئے سرگرم ہیں۔ پیپلز پارٹی کے اس وقت وہ واحد سرگرم رہنما ہیں جو ایک طرف ایم کیو ایم کی قیادت، دوسری طرف پیپلز پارٹی کے مرزا حامی اور مخالف گروپوں سے بھی مسلسل رابطے میںہیں۔

پیپلز پارٹی کی 14 ستمبر کو ہونے والی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں مرزا حامی ارکان نے واضح طور پر کہا ہے کہ وہ اپنی ذاتی دوستی کی وجہ سے مرزا کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن سیاسی معاملات پر وہ پارٹی موقف کی حمایت کے پابند ہیں تاہم جب باریک بینی سے دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کے ارکان کی ایک بڑی تعداد بلدیاتی نظام 2001ءکی حامی دکھائی نہیں دیتی ہے اور ان کی یہ خاموشی یا اندر پکنے والا لاوابعید نہیں کہ اسمبلی اجلاس کے دوران پھٹ جائے۔

ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور قوم پرستوں کی سرگرمیوں کے بعد دیہی سندھ میں اور بھی شدت آئی ہے، اور دیہی سندھ سے تعلق رکھنے والے ارکان بلدیاتی نظام 2001ءکو من وعن تسلیم کرنے کے بظاہر حامی دکھائی نہیں دے رہے ۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی اعلیٰ قیادت کو بھی شاید عوامی سطح پر پیدا ہونے والے ان خدشات اور تحفظات کا ادراک ہے جس کی وجہ سے دونوںجماعتوںبالخصوص متحدہ نے یہ کہہ کر اپنے موقف میں کسی حد تک یہ لچک پیدا کرلی ہے کہ 2001ءاور 2011ءکے بلدیاتی نظام کو ملا کر ایک مناسب اور اچھا نظام لایا جائے گا۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حال ہی میں ایک تجویز بھی پیش کی جس میں صوبے میں 3طرح کے بلدیاتی نظام تجویز کئے ہیں۔ اگرچہ مبصرین اس تجویز کو ناقابل عمل سمجھتے ہیں لیکن تجویز کی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ اس کا باقاعدہ اعلان پریس کانفرنس کے ذریعے پیپلز پارٹی کے حامی اور وزیراعلیٰ سندھ کے سابق مشیر اقتصادی امور ڈاکٹر قیصر بنگالی نے کیا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی سنجیدہ قیادت اس بات پر تیار ہوچکی ہے کہ کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر تنازع کو حل کر لیا جائے۔ حکومتی اتحاد کے پاس اس تنازع کو حل کرنے کےلئے 6 نومبر2011ءتک کاوقت ہے کیونکہ گورنر سندھ کے جاری کردہ آرڈیننس کی مدت 6 نومبر کو ختم ہورہی ہے اور اس سے پہلے اگر اسمبلی میں بل کی شکل میں پیش یا منظور نہیں کرایا گیا تو کمشنری نظام ازخود بحال اور 2001ءکا آرڈیننس ختم ہوجائےگا اور اس طرح صوبے میں کمشنری نظام کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد کی پرانی حیثیت بھی بحال ہوجائے گی۔حکومتی ذرائع نے 20 اکتوبر 2011ءکو سندھ اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا عندیہ دیا لیکن ڈاکٹر ذوالفقار مرزا اور قوم پرستوں کی سرگرمیوں کے بعد گورنر سندھ اور وزیراعلیٰ سندھ دونوں اس بات کا اظہار کررہے ہیں کہ سندھ اسمبلی کا اس حوالے سے اجلاس بلانے کا فی الحال کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے جس سے یہ اندازہ ہورہا ہے کہ دونوں بڑوں کو اسمبلی میں اس بل کے حوالے سے سخت مزاحمت اور مخالفت کا اندیشہ ہے۔ وہ کسی بھی تنازع سے بچنے کےلئے فی الحال کسی اور تجویز پر غور کررہے ہیں۔ حکومتی اتحاد کےلئے یہ بھی بڑی مشکل ہے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد اب صدر یا گورنر کسی بھی آرڈیننس کی دوبارہ توسیع نہیں کرسکتے۔ 90 دن کے اندر آرڈیننس کو اسمبلی میں بل کی صورت میں پیش کرنا ضروری ہے۔ اس پریشانی کے حل کےلئے صدر آصف علی زرداری، متحدہ کی اعلیٰ قیادت، گورنر سندھ، وزیراعلیٰ سندھ اور دیگر حکام باہمی مشاورت سے کام کررہے ہیں۔ اس ضمن میں بعض ذرائع کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ بعض ترامیم کے ساتھ گورنر سندھ ایک اور بلدیاتی آرڈیننس جاری کرنے والے ہیں تاکہ حکمران اتحاد کو اس تنازع کے حل کےلئے تین ماہ کی مزید مہلت مل سکے۔اور موجودہ صورتحال میں حکومت کے پاس یہ واحد حل دکھائی دیتا ہے کیونکہ اگر 6 نومبر تک بلدیاتی نظام کے آرڈیننس کو اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا تو کمشنری نظام ازخود بحال ہو جائے گا جو متحدہ کےلئے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایسی صورت میں دونوں اتحادی جماعتوں کی راہیں جدا ہوسکتی ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت مارچ 2012ءسے پہلے ایسا نہیں چاہتی ہے۔

کچھ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ذوالفقار مرزا کی سرگرمیوں اور پیپلز پارٹی سندھ میں دھڑا بندی کا ایک بڑا مقصد صوبے میں اعلیٰ سطح پر تبدیلی بھی ہے۔پارٹی کی اعلیٰ قیادت صوبے کے منتظم اعلیٰ کو تبدیل کرکے ایک طرف عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنا چاہتی ہے تو دوسری طرف اتحادیوں سے کچھ دن کی مہلت بھی مانگے گی جبکہ یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کرے گی کہ وہ سپریم کورٹ کے کراچی کے حوالے سے ازخود نوٹس کے فیصلے پر عمل درآمد کررہی ہے جس میں صوبائی حکومت کو سخت سرزنش کی گئی تھی۔ اس حوالے سے کچھ آثار بھی دکھائی دیتے ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹی اور پارٹی کے وزراءاور مشیروں کے اجلاس میں بار بار وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ پر مکمل اعتماد کا اظہار شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔ موجودہ صورتحال میں اب تک کسی نے بھی وزیراعلیٰ سندھ پر عدم اعتماد کا اظہار نہیں کیا۔ جب کسی نے عدم اعتماد کا اظہارہی نہیں کیا تو پھر بار بار اعتماد کے اظہار شکوک وشبہات کو نہ صرف جنم بلکہ حقیقت کا روپ دھارتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے وفاقی وزیر مذہبی امور سید خورشید شاہ کی سرگرمیوں اور ان کی بھاگ دوڑ کا بھی باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ اگرچہ وزارت علیا کے امیدواروں کی تعداد نصف درجن کے قریب ہے جن میں آغا سراج درانی، سید مراد علی شاہ، پیر مظہر الحق، سید علی نواز شاہ اور دیگر شامل ہیں لیکن سید خورشید شاہ کو اہم قرار دیا جارہا ہے۔

مجموعی طور پر یہ بات اب واضح ہوگئی ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام اب صوبے میں بہت کچھ تبدیل کرے گا اور اس حوالے سے ڈاکٹر ذوالفقار مرزا پیپلز پارٹی کےلئے یقینا پریشانی کا سبب بن رہے ہیں۔ ان کے پیچھے کون ہے یا ان کی سرگرمیوں کا مقصد کیا ہے اس کا بہتر جواب توڈاکٹر ذوالفقار مرزا خود ہی دے سکتے ہیں۔ وہ ایم کیو ایم کی دشمنی میں مسلم لیگ( ن) کے قائد میاں محمد نواز شریف کو بدین لا کر سر پر بٹھانے کی باتیں کررہے ہیں۔ آیا ان کی یہ سرگرمیاں ان کے بہت ہی قریبی دوست اور محسن صدر زرداری کو پسند ہیں یا نہیں یہ ذوالفقار مرزا ہی بتا سکتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ کے عوام اور یہاں پر بسنے والے ہر فرد کے مفاد میں یہی بہتر ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو کر سندھ کے مسائل کا کوئی ایسا حل تلاش کریں جو مزید تنازعات، تعصبات کانہیں بلکہ مسائل کے حل کا سبب بنے اس حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ داری پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ اور دیگر اتحادی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔

سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کا مسئلہ بھی تنازع کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ مسلم لیگ(ف) اور متحدہ کی حکومت میں شمولیت کے بعد صوبے میں اب 167 کے ایوان میں صرف 4 ارکان اپوزیشن میں رہ گئے ہیں جن کا تعلق مسلم لیگ(ق) ہم خیال گروپ سے ہے۔ چند روز قبل اس گروپ کے رکن ارباب ذوالفقار نے چار ارکان کے دستخطوں سے ایک درخواست اسپیکر سندھ اسمبلی کے پاس جمع کرائی جس میں سابق وزیراعلیٰ سندھ اور مسلم لیگ( ق) ہم خیال گروپ کے صوبائی صدر ارباب غلام رحیم کو قائد حزب اختلاف نامزد کرنے کی درخواست کی ہے جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ( ق)شجاعت گروپ نے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم خیال گروپ کے ارکان ق لیگ کا حصہ ہیں اورق لیگ حکومت میں شامل ہے اس لئے انہیں اپوزیشن کی نشستیں الاٹ کرکے ان کی الگ حیثیت تسلیم کرنے سے دونوں جماعتوں کے مابین اتحاد متاثر ہوسکتا ہے۔ غالباًیہی وجہ ہے کہ اسپیکر سندھ اسمبلی نے بھی ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو قائد حزب اختلاف تسلیم کرنے پر تحفظات کا اظہار کیاہے اگر پی پی ایسا کرتی ہے تویہ اس کا دہرا معیار ہوگا کیونکہ بلوچستان میں ق لیگ کے ایک کے سوا تمام ارکان حکومت میں شامل ہیں اور ق لیگ کے حکومت مخالف رکن سردار یار محمد رندکو قائد حزب اختلاف بنایا گیا ہے، اگر پیپلز پارٹی بلوچستان اور سندھ میں الگ الگ رویے اختیار کرے تو یہ یقینا اس کےلئے مستقبل میں مشکلات کا سبب بنے گا۔ اس لئے حکومت سندھ بالخصوص اسپیکر سندھ اسمبلی نثار احمد کھوڑو کو چاہئے کہ وہ قانونی اور اخلاقی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کریںاور کسی کی ذاتی خواہش کےلئے اصول اور ضابطے کو نہ توڑیں۔
Abdul Jabbar Nasir
About the Author: Abdul Jabbar Nasir Read More Articles by Abdul Jabbar Nasir: 136 Articles with 106843 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.