پھر قافلے چلے۔۔ سفر نامہ حج نواں حصہ

جن لوگوں کی فوری روانگی ہے وہ حسرت بھری نظریں لیے روانہ ہورہے ہیں۔دن رات فلائٹ حاجیوں کویہاں سے لے جارہی ہیں مگر رش جوں کا توں ہے! ہاں البتہ ایک ہفتے بعد بقول کسی کے اب کہیں کہیں سڑک نظر آرہی ہے ورنہ پہلے تو سر ہی سر نظر آتے تھے۔ ہم اتنے بڑے اجتماع کو دل بھر کر دیکھ رہے ہیں کہ اب روز حشر ہی دیکھ سکیں گے!!

کچھ ذکر اﷲ کے ان مہمانوں کا جو اس کے گھر کا دیدار کرنے دنیا کے ہرکونے سے پہنچے ہیں! ان میں سب سے بڑی تعداد ترک اور انڈونیشیا کی نظر آتی ہے ۔ ملیشیا اور برصغیر کے افرادبھی کم نہیں !افریقی اقوام بھی نمایاں سے نظر آتے ہیں ۔ یہ تو وہ ہیں جو نمایاں شناخت رکھتے ہیں اس کے علاوہ عربی اور یورپی اقوام جن کو ہم محض ان کے شناختی نشانات سے ہی پہچانتے ہیں ! یہاں تک کہ ایک بوڑھی خاتون نے ہمیں اشاروں میں بتایا کہ ہماری لغت کوئی نہیں جانتا ! اتنے بھانت بھانت کے لوگوں سے بس اشاروں کی زبان یا پھر باڈی لینگوئج کے ذریعے ہی بات ہوسکتی ہے۔ انقرہ (ترکی) کی ایک خاتون ،جو عام ترکوں سے مختلف اور کم و بیش ہمارے ہی حلیے کی( شاید اصلاح معاشرہ کی سوچ رکھنے والوں کا انداز جدا ہی ہوتا ہے! )ہم سے بڑی عقیدت کا مظاہرہ کر رہی تھیں ۔انہوں نے دو کتابچے فارسی اور انگلش میں اپنا نام لکھ کر ہمارے حوالے کیے۔ دوچار جملوں کے بعد ہم دونوں کی لغت ختم ہوگئی جس کا افسوس ہم دونوں کے سا تھ سا تھ رہے گا! اگر ہم عربی سے جڑے ہوتے تو یہ محرومی نہ رہتی!

ایک دن چائے پیتے ہوئے ہمارے قریب کچھ بوڑھے انڈین تھے ۔ گفتگو سے معلوم ہوا کہ ہمارے والدین کے آبائی گاﺅں سے تعلق رکھتے ہیں ۔مارے چاﺅ کے ہم ان چاروں کے لیے چائے لے آئے مگر ہمارا دل اس وقت بہت دکھا جب انہوں نے آدھی آدھی کپ پی۔وجہ صاف ظاہر تھی! بچت! وہ حسرت سے لوگوں کو کھلا خرچ کرتا دیکھ رہے تھے۔ تنگ دستی اور بے کسی ان کے چہرے بشرے سے عیاں تھی۔پتہ نہیں بے چارے یہاں تک کیسے پہنچے؟ ہمیں اپنے ان بزرگوں پر بہت پیار آیا جنہوں نے پاکستان ہجرت کر کے ہمیں بہت سی محرومیوں سے بچایا جو عموماً ہندوستانیو ں کے چہرے پر نظر آئی۔ویسے تو وہ حج کے حوالے سے اپنی حکومت کے انتظامات کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں مگر جب تفصیل پوچھو تو قلعی کھل جاتی ہے! (بے چارے مجبور ہیں انہیں تو پوری ہندوستانی ریاست سے شکوہ ہے ظلم اور ناانصافی پر ! ان کے مقابلے میں ہم پاکستانی دھڑلے سے اپنی حکومت پر تنقید کرتے ہیں ۔ مگر حکومت اور ریا ست دوالگ چیزیں ہیں ! کوئی پاکستان پر انگلی اٹھا کر تو دیکھے! )کتنی عجیب سی بات ہے اردو کوفلموں اور گانوں کے لیے تو استعمال کیاجائے مگر لکھنے اور پڑھنے والا کسی رتبے کا اہل نہیں! ہم ان لوگوں کو افسوس سے دیکھتے رہے جو عام اردو تک نہیںپڑھ سکتے کتنے عظیم الشان لٹریچر سے محروم ہیں بے چارے!)

حج کی روداد پڑھتے ہوئے یہ سارا ذکر کچھ عجیب لگ رہا ہوگا آپ کو! مگر ذرا غور کریں تو حج جیسی عالمگیر عبادت کے اہم ترین مقصد میں سے ایک عالم اسلا م کی ایک دوسرے سے عوامی سطح پر آگاہی ہے! کچھ لوگ حج کو محض روحانی سفر سمجھتے ہیں ۔ کچھ اور جسمانی یا مادی بھی جانتے ہیں جبکہ یہ ہمہ گیر پہلو رکھتی ہے۔ انسانی نفس کے تما م پہلوﺅں کی نشان دہی کرتی ہے جو ان دونوں( روحانی اور جسمانی) کے ساتھ ساتھ ذہنی بھی ہے اور جذباتی بھی، اخلاقی بھی ہے اور معاشرتی بھی! یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ایک دوسرے میں دلچسپی لینے پر مجبور ہیں۔نائیجیریا کے لوگ اپنے شوخ رنگ کے لباس میں بڑے نمایاں نظر آتے ہیں ۔ وہاں کی ایک جامعہ میں ہمارے والد نے کئی سال تک تدریس کی تھی۔ جب وہاں کی نوجوان خواتین سے اس بارے میں گفتگو ہوئی تو وہ بہت خوش ہوئیں اس حوالے سے کیونکہ وہ وہیں زیر تعلیم ہیں مگر یہ گفتگو بہت جلد مسکراہٹوں کے تبادلے تک محدود ہو کر رہ گئی جب ان کی انگلش فیل ہوگئی۔دمشق میں ہمارے بھائی بیس سال سے مقیم ہیں۔جب وہاں کے لوگ دکھائی دیتے اور ہم حوالہ دینے کی کوشش کرتے تو بات مسکراہٹ سے مسکراہٹ پر ختم ہوجاتی بوجہ زبان!!

یہ مسئلہ صرف بین الاقوامی سطح پر نہیں ہے بلکہ ایک ملک میں بھی صوبے کی زبان دوسرے کے لیے اجنبی! مگر یہ بات بابا جی کے لیے نہیں ہے! ہمارے گروپ کے سینئر ترین ممبر بابا جی بے حد خوشگوار شخصیت کے مالک،پنجابی کے علاوہ کوئی اور زبان نہیں بولتے مگر ہر ایک سے دوستی!عمر اسّی سال مگر ہمت جوانوں سے جوان تر ! کبھی ان کو نڈھال نہ دیکھاہمیشہ ہشاش بشاش! ان کی تنقید خواہ نماز کی پابندی پرہو یا پردے کی !کوئی برا نہ مانتا ۔راستہ ڈھوندنے میں اگر کوئی ڈرائیور برہمی کا اظہار کرتا تو ان ہی کو ہمت تھی کہ و ہ اس کو کہہ سکیں کہ تم یہاں گاڑی چلا رہے ہو اور تمہیں راستہ نہیں معلوم! اب اس کو چپ ہوکر مسکرانا ہی پڑتا! ہاں مگر ان کی رگ حمیت ضرور پھڑکتی جب کوئی پاکستان کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتا ! اﷲ ایسے محب وطن اور غیور افراد کا ہم میں اضافہ فرما!!

حرم میںدو جگہوں پر سب سے زیا دہ رش ہے۔ طوا ف سعی اور زمزم! چونکہ لوگوں کی روانگی ہے لہٰذا کین بھرے جارہے ہیں تاکہ اپنے گھروں کو لے جاسکیں ۔شکر ہے ہمیں تو بھرے ہوئے مل گئے۔اب زمزم پینے کا موقع بھی نہیں مل پاتا اتنی لمبی لائن ہوتی ہے! طواف بھی اوپر سے ہی کرنا ممکن ہے!! اسی کشمکش میں مکہ میں ہمارا پانچواں اور آخری جمعہ آپہنچا۔طواف وداع اور جمعہ ادا کرکے آئے تو بلڈنگ میں ہماری مدینہ روانگی کا شیڈول لگا ہوا تھا۔رہائش گاہ کے کارڈز تو پہلے ہی آچکے ہیں ! منٰی کے تجربے کے بعد اب رہائش کا کوئی خوف یا ایکسائٹمنٹ نہیں ہے ۔ بس مدینہ تو مدینہ ہے! نبیﷺکا شہر! جہاں بھی ٹھہرے وہ گنبد تونظر میں ہوگا!

مکہ میں ہماری آخری رات آپہنچی ۔ دل عجیب سا ہو رہا تھا ! اب تو ہمیں اپنا راستہ اچھی طرح ذہن نشین بھی ہوگیا تھا اور قریب بھی لگنے لگا تھا۔ جگہ بنا کر طواف کرنا بھی آگیا تھا اور کہنی مار کر بس میں چڑھنا بھی! اب ہم اچھی طرح ڈرائیور کو اپنا ہوٹل سمجھا سکتے تھے۔ شاہراہ منصور پرمرکز البخا ری ،ساحةالاسلام میں بلڈنگ برج ایمن،! مگر اب تو یہ چھوڑنا ہے!

دوپہر دو بجے دیے گئے وقت کے مطابق بس آپہنچی۔ حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ بس کسی کو چھوڑ کر نہیں جاسکتی مگر پھر بھی ایک بھگدڑ ہے ! بس میں بھر کر معلم کے دفتر لے جایاگیا ۔ وہاں حاجیوں کو جاءنماز اورکپ دیے گئے۔ لنچ باکس بھی ! اب ہم بو جھل ہوچکے تھے۔ دن کی روشنی میں سفر کیا تو اندازہ ہوا کہ النزھة وا قعی پوش ایریا ہے مگر ہمیں اس سے کیا ہماری منزل تو حرم رہتی تھی! تین بجے کے قریب ہم نے مکہ چھوڑ دیا ۔اس وقت ہمارے وہی احساسا ت تھے جو یہاں سے روانہ ہونے والے کے ہوسکتے ہیں ؟ہم نے تو محض ایک ماہ یہاں گزارا تو یہ حال ہے اور محمدﷺ اپنی زندگی کے ترپین سال گزار کر یہاں سے نکلے ہوں گے تو ان کا کیا حال ہوگا ؟ سنا ہے کہ پلٹ پلٹ کر اپنے شہر کو دیکھتے ہوئے گئے تھے ہم نے بھی سُنت میں پیچھے مڑ کردیکھنا چاہا مگر جہاں جارہے ہیں وہاں کا اپنا الگ چارم ہے! دل بلیوں اچھل رہا تھا گو یا ہم متضادجذبات کے ساتھ سوئے مدینہ ہوئے۔

جاری ہے
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 80585 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.