قوم ایک دیانت دار قیادت کی منتظر

محترم ناجی صاحب کا کالم سویرے سویرے بدھ ۱۱/۱۰/۱۹ کو جنگ میں چھپا ہے جس میں محترم نے ایک لڑکی پر درے برسانے کی ایک متنازعہ ویڈیو کا ذکر خیر فرمایا ۔ وہ محترم اگرحالات پر مکمل نظر رکھتے ہیں تو شاید یہ بات انکوگراں گزرے کہ وہ سار ا این جی او کا پلاٹ کیا ہوا ڈرامہ تھا جس کے کرداروں کو ڈرامے کا ایک سین فلمانے کی ایک این جی او سے توسط سے ریہرسل اور فلم بندی کرائی گئی اور انہیں بہت اچھے پیسے بھی دیئے گئے تھے۔ اس ڈرامے کا اختتام اس طرح ہوا کہ ان کرداروں کو بے نقاب کر دیا گیا تھا لیکن اس ویڈیو پر یورپی ممالک، امریکہ اور انڈیا کی حکومتوں نے اہلکاروں نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنا کر گورنمنٹ کو گندہ کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے اس ڈرامے کے ڈراپ سین ہونے کے باوجود اب بھی آؤٹ ڈیٹڈ پاکستانی صحافی وہی راگ الاپنے میں مصروف ہیں۔ بھائی ناجی صاحب آپ کیا خبر دے رہے ہیں کہ امریکی لیبیا کی طرح پاکستان میں بلواسطہ کاروائیاں کر یگا تو جناب کاروائیاں تو اسکو کرتے ہوئے سالوں ہو گئے شاید انہیں خبر نہ ہو کہ ریمنڈ ڈیوس لاہور میں پھجے کے پائے کھانے آیا تھا اور دیگر سی آئی اے کے اہلکار پاکستان میں راگ رنگ کی محفلیں سننے آتے رہے ہیں ۔ لوگوں کو جیسے چاہے مار کر حکومتی حفاظت میں امریکی خواہش پر نکال دیا جاتا ہے ۔ مرکزی اور صوبائی حکمران ایک دوسرے پر الزامات عائد کر کے قوم کو بیوقوف بنانے میں لگے رہے۔ اب تو پچھلے کئی سالوں سے دیکھا گیا ہے کہ امریکی اہلکار پہلے صدر، پھر وزیر اعظم ، جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے براہے راست ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں اور اپوزیشن لیڈر نوا ز شریف سے بھی تنہائیوں میں گفتگو فرماتے ہیں۔ کسی کو ان ملاقاتوں پر کوئی اعتراض کرنے کی جرات نہیں ہوتی حالانکہ حکومتی اہلکاروں کی موجودگی اور اجازت کے بغیر دفاعی اداروں کے سربراہان سے ملاقاتیں کس بات کی غمازی کر تی ہیں اور پھر قوم یہ بھی دیکھتی ہے کہ یہ ہمارے قا ئدین امریکی اہلکاروں کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور حب الوطنی کا زعم بھی ہے۔ ضابطہ اخلاق کی پاسداری کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں وہ سب ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں ۔

جانے کیوں ایک بچپن کا واقعہ جسے کسی رسالے میں پڑھا تھا یہاں لکھنے کو طبیعت بے اختیار مائل ہو رہی ہے آپ بھی پڑھیئے ، ایک مالک نے اپنے تحفظ کے لئے کتے پال رکھے تھے ایک د ن دوپہر میں کتے کھا پی کرآرام کر رہے تھے کوئی کام نہیں تھا ان کتوں میں قدرے بڑی عمر کا ایک کتا تھا اسے اچانک خیال آیا کہ ہم سب آپس میں کیوں لڑتے ہیں جبکہ کام تو سب ایک جیسا ہی کرتے ہیں جسکا مقصد مالک کے جان مال کی حفاظت کرنا ہے غور کرنے پر اسپر انکشاف ہوا کہ دراصل اس لڑائی کی بنیاد کھاناہے جب مالک کھانے کے لئے کوئی چیز ہماری طرف اچھالتا ہے تو لڑائی اس وقت شروع ہو جاتی ہے بڑا ہونے کے ناتے وہ خود کو اس لڑائی کا زمہ دار سمجھ کر پشیمان ہو جاتا ہے کہ وہی سب سے زیا دتی کرتا ہے اور سب سے چھین کر کھانے کی کوشش کرتا ہے اسی احساس کو لے کر وہ چھوٹے کتوں کی طرف جاتا ہے اور ان سے اپنے روئیے کی معافی مانگتا ہے کہ اب وہ ایسا نہیں کرے گا اور سب مل کر کھائیں گے چھوٹے کتے بھی چونکہ لڑتے تھے انہیں بھی شرمندگی ہوتی ہے کہ وہ بھی اس لڑائی میں فریق ہوتے ہیں اس پشیمانی کو دور کرنے سب مل کر عہدکرتے ہیں کہ آئندہ ہم نہیں لڑیں گے بلکہ ایک دوسرے کا احترام کر کے دوسروں کو کھانے کا موقع فراہم کریں گے اس سے لڑائی اور دنگے کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ اس معاہدے کے بعد سب ایک دوسرے سے بغل گیر ہوتے ہیں اور پنجے ملا کر اس عہد پر قائم رہنے کا عز م کرتے ہیں ۔ ابھی وہ اپنی جگہوں پر پہنچ بھی نہ پاتے ہیں کہ مالک کچن کی کھڑکی سے دو ہڈیاں پھینک دیتا ہے جناب کہاں کا معاہدہ کہاں کا احترام وہی چھینا جھپٹی اور وہی مارکٹائی ۔ کچھ صورت حال ایسی ہی ہمارے ملک میں دیکھی جا سکتی ہے۔

معاہدے معانقے ہوتے ہوئے بھی قوم دیکھتی رہی ہے اور عزائم سب دھرے کے دھرے ہیں قوم لوٹ مار کرپشن اور اپنی خود مختاری کی بجائے بیرونی مفادات کے پاسدار اہلکاروں کو دیکھتے رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو یحفظ فراہم کرنے کے اقدامات کر کے قوم کو گمراہ کر رہے ہیں ۔

یہ تو دوستوں سب کو معلوم ہے کہ ان اقتدار کے بھوکوں نے طے کر رکھا ہے کہ مالک( نعوذ بااللہ ) امریکہ ہے ۔ اسی وجہ سے یہ شرک میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور تائد غیبی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں ، اللہ نے اس شرک کے باعث دوسروں کو ہم پر مسلط کردیا ہے ،اسی لئے جب امریکہ کھانے کے لئے ہڈی پھینکتا ہے تو ہمارے اقتدار کے خواہش مند لوگوں کا حال اس سے بھی برا نظر آتا ہے حالات و واقعات اس بات کی گواہی دیتے نظر آ تے ہیں ۔ حالانکہ وہ سب امریکی مفادات کی آبیاری میں جٹے ہوئے ہیں ، انہیں اپنے ملک کی سالمیت اور حفاظت سے بڑھ کر امریکی مفادات عزیز ہیں ۔ اس ملک کے لوگ کب تک ایسی ہی صورت حال کو دیکھتے رہیں گے لوٹ مار، اقربا پروری ، ناجائز زرائع سے دولت کمانے کے حربے ، لوٹ مار کے باعث پورا ملک گرویں رکھ دیا ہے عالمی ادارے قوم کی شہہ رگ پکڑ کے بیٹھے ہیں کہ اب دبائی کہ جب دبائی، میڈیا کے اینکر پرسن پاکستان کے بارے میں مرد بیمار کی مغربی اصطلاح کااستعمال کر رہے ہیں ۔ اس ملک کے محب وطن بد قسمت لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ ایسا کب تلک چلے گا اور یہ قوم ایک محب وطن دیانتدار قیاد ت کو ابھرتا ہوا کب دیکھے گی -
Riffat Mehmood
About the Author: Riffat Mehmood Read More Articles by Riffat Mehmood: 97 Articles with 82122 views Due to keen interest in Islamic History and International Affair, I have completed Master degree in I.R From KU, my profession is relevant to engineer.. View More