امریکہ نے پاکستان پر حملے کی دھمکی دی جس
پر وزیرآعظم نے تمام سیاسی پار ٹیوں کو مشاورت کے لئے طلب کیا جس کا مقصد
پاکستان کے جوابی رد عمل اور امریکہ کو اس کا جواب دینے سے پہلے تمام سیاسی
قائدین کے موقف کو سن کر اس پر اپنا موقف کو رکارڈ کرانا تھا ۔ لیکن امریکی
دھمکی پر ہمارے سیاسی قائدین کا رد عمل تو کہیں نظر نہیں بلکہ دیگر تمام
موضوعات پر گفتگو ہوئی یہاں تک کہ امریکہ سے ڈرون حملے بند کرنے کی بھی
کوئی بات نہیں کی او ر امریکہ کے زبردستی کے اتحاد سے علیحدگی کی کوئی بات
نہیں کی اپنی طرف سے امریکیوں کو مدد فراہم نہ کرنے کی بات نہیں کی گئی اس
اے پی سی سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستانی اداروں اور امریکہ سے کوئی گلہ
نہیں ہے ، نو گھنٹے کی اس میٹنگ میں امریکہ سے تعلقات کے لئے نظر ثانی تک
کی بات نہیں کی لیکن کیا کوئی ملک حملے کی دھمکی دے اور ہمارا ردعمل اس طرح
کا ہے جبکہ امریکی کاروائیوں پر ردعمل کتنا ہو سکتا تھا یہ اس اے پی سی کی
کارکردگی ہے اور یہ اس ملک کے سیاست دانوں کا ویژن ہے۔ فوج سے تعاون کی بات
کی اور اسے تنہا نہ چھوڑنے کی بات کی، اس بات کو کہنے کی کیا ضرورت ہے اور
فوج ریاست کا ایک ستون ہے جوصدر پاکستان کے احکامات کی تابع ہے اسکا کام ہی
ملک کی سلامتی اور سرحدات کا مکمل تحفظ کرنا ہے ۔امریکی وزیر خارجہ نے اس
اے پی سی کے موقف پر تمام پارٹیوں کی تعریف کی اور سراہا ہے، جو ظاہر ہے ان
کی توقع کے مطابق ہے ۔
اکثر سیاست دان امریکی حملے کی دھمکی پر ردعمل دینا بھی بھول گئے عوامی
جلسوں میں بڑی بڑی باتیں کرنے والے امریکہ کے خلاف ایک لفظ بھی کہنے کو
شاید تیار نہیں ۔ مبادہ کہیں امریکی نظروں سے گر نہ جائیں اور اقتدار کی
ہما کسی اور کے سر پر بٹھا دی جائے۔ جب اس طرح کی سوچ ہمارے لوگوں میں
سرائیت کر چکی ہو تو بہتری کی امید دم توڑ جاتی ہے اور قوم اسی لئے مایو سی
کا شکار نظر آتی ہے۔ کہاں خود مختاری کہاں ریاست کی بقا کا تحفظ۔ اس قوم
میں کارگل کے قضیے میں ایک نہایت مضبوط ایٹمی طاقت سے لیں ملک کے منتخب
وزیراعظم کا کردار دیکھا ہے کہ کس بھگدڑمیں عام جہاز سے راتوں رات کلنٹن کے
پیر چھو کر اپنی فوج کو مورد الزام قرار دے کر اپنی لاعلمی کا اظہار فرما
رہے تھے۔ ۱۱/۹ کے ڈرامے کے دوران اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک
کمانڈو جرنیل نے امریکی دھمکی کے جواب میں پورا ملک گرویں رکھ دیا۔ اس
ڈکٹیٹر سے کہا گیا تھا کہ طالبا ن کا ساتھ دیتے ہو یا ہمارا اور اگر طالبان
کا ساتھ دو گے تو تمہارے ساتھ بھی دشمنوں جیسا سلوک ہو گا ۔ اور ہمارے
کمانڈو جرنیل نے سر تسلیم خم کر کے اطاعت کا مکمل اظہار فرما دیا۔
آج پھر بالکل وہی صورت حال ہے ملک میں منتخب مایہ ناز جمہوری حکومت ہے اس
وقت بالکل وہی سوال کیا جا رہا ہے کہ ہمارا ساتھ دوگے یا طالبان کا ، اسی
سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ پاکستان کے دورے پر پہنچ کر اس بات کا اعادہ
کر رہی ہیں اور پاکستانی حکومت کا جواب لے کر اپنی حکومت کو پہنچانا چاہتی
ہیں۔ یہاں ان جمہوریت کے چیمپئینوں کا کردار سامنے آنے کو ہے جو بڑی بڑی
باتیں کر کے لوگوں کو ورغلاتے رہے ہیں ۔ قوم کی آواز ہے امریکہ اس خطے سے
نکل جائے کیونکہ اس اتحاد سے ہماری خودمختاری مجروح ہو رہی ہے ہم بہ تحاشہ
جانی مالی اور نظریاتی سرحدوں کا نقصان اٹھا رہے ہیں اور ملکی سالمئیت کے
مسائل سے دوچار کر دئے گئے ہیں اس اتحاد سے علیحدگی ہی میں ہماری بقا ہے ۔
پرویز مشرف پر کیچڑ اچھالنے والے امریکہ کی بات سے اصولی طور پر انکاری
ہونے چاہئیں کیونکہ وہ صرف گو مشرف گو کی گردان تو کر سکتے ہیں گو امریکہ
گو کی جرت نہیں رکھتے ہیں ۔ ان دو دنوں کے دوران ہی سارا کچا چھٹا کھل کر
سامنے آ جائے گا کہ قومی خود مختاری کے دعوے کرنے والے ممبران اسمبلی اور
حکومتی اہلکار امریکہ کے اتحاد سے علیحدگی اختیار کرنے کی جرات کرتے ہیں یا
مشرف اور نواز شریف کی طرح ہتھیار رکھتے ہوئے بھی قوم کا سر جھکاتے ہیں ۔
ان کا یہ اقدام حکمرانوں کے خلاف ایک چارج شیٹ کی حیثئیت اختیار کر سکتا ہے
۔ جو ملک میں انتشار کا باعث بھی ہو سکتا ہے ، لیکن کیا ان عالمی طاقتوں سے
تعاون اس وقت ملک کی خودمختاری کے لئے موزوں ہے۔ |