چین کے حوالے سے اکثر "اشتراکی ترقی" کا حوالہ دیا جاتا
ہے جس میں دنیا کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے اور تمام شعبہ جات کی مشترکہ اور
تعاون پر مبنی ترقی کلید ہے۔انہی شعبہ جات میں خلائی تحقیق اور تعاون بھی
شامل ہے۔حالیہ برسوں میں دنیا نے دیکھا کہ چین اپنی خلائی صنعت کی ترقی میں
خود انحصاری پر زور دیتے ہوئے ، پاکستان سمیت متعدد ممالک اور بین الاقوامی
تنظیموں کے ساتھ مسلسل تعاون کر رہا ہے، خلائی تحقیق میں کھلے پن کا بھی
مضبوط حامی ہے اور اسے مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ اسی طرح حالیہ عرصے میں چین
ایک مربوط خلائی ڈھانچے کی تعمیر میں نمایاں پیش رفت حاصل کر چکا ہے اور
سیٹلائٹ کمیونیکیشن، سیٹلائٹ ریموٹ سینسنگ، اور سیٹلائٹ نیویگیشن سے منسلک
مربوط قومی خلائی انفراسٹرکچر سسٹم تشکیل دیا گیا ہے۔
پاکستان کے تناظر میں چین اور پاکستان کے درمیان خلائی شعبے میں تعاون کے
حوالے سے کئی نمایاں پہلو سامنے آئے ہیں۔اسی حوالے سے ابھی حال ہی میں
دونوں ممالک نے تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کی روشنی میں ایک
پاکستانی خلاباز بھی چینی مشن میں شمولیت سے چینی خلائی اسٹیشن کے لیے
پرواز کرے گا ۔
اس معاہدے پر چائنا مینڈ اسپیس ایجنسی (سی ایم ایس اے) اور پاکستان اسپیس
اینڈ اپر ایٹموسفیئر ریسرچ کمیشن (سپارکو) نے دستخط کیے۔معاہدے کے تحت چینی
حکومت پاکستانی خلابازوں کے ایک گروپ کا انتخاب اور تربیت کرے گی، ان میں
سے ایک پاکستانی خلا باز چینی خلائی اسٹیشن میں داخل ہونے والا پہلا غیر
ملکی خلاباز بن جائے گا۔انتخاب کا عمل تقریباً ایک سال تک جاری رہے گا اور
پاکستانی خلاباز چین میں ایک جامع اور منظم تربیتی کیمپ میں شرکت کریں گے۔
اس کے بعد وہ اگلے چند سالوں میں خلائی اسٹیشن میں اپنے چینی ہم منصبوں کے
ساتھ مل کر قلیل مدتی فلائٹ مشن انجام دیں گے۔
یہ پیش رفت پاکستان کی خلائی تحقیق کی تاریخ میں ایک نمایاں سنگ میل ہے۔اس
وقت ویسے بھی چین کا انسان بردار خلائی پرواز پروگرام دنیا میں نمایاں مقام
رکھتا ہے اور فریقین کے درمیان تعاون کا یہ معاہدہ پاکستان کے لیے بہت اہم
ہے۔
تاریخی اعتبار سے دونوں ممالک کے درمیان اسپیس تعاون کو تین دہائیوں سے
زائد ہو چکے ہیں۔ 1990 کے اوائل میں چین کے لانگ مارچ 2 بنڈل راکٹ کو پہلی
بار کامیابی کے ساتھ لانچ کیا گیا جس سے پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ (بدر اے)
مدار میں بھیجا گیا ۔ 2011 میں چائنا اکیڈمی آف اسپیس ٹیکنالوجی کی جانب سے
تیار کردہ پاکستان کمیونیکیشن سیٹلائٹ ون آر (پاک سیٹ ون آر) کو لانگ مارچ
3 بی کیریئر راکٹ کے ذریعے کامیابی سے لانچ کیا گیا جس نے پاکستان کو براڈ
بینڈ انٹرنیٹ، ٹیلی کمیونیکیشن اور براڈکاسٹنگ سروسز کی فراہمی میں انتہائی
اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2019 میں چین اور پاکستان نے انسان بردار خلائی
پرواز کے تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے، جو دونوں ممالک کے درمیان اس شعبے
میں تعاون کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ 5 جون2022کو سات پاکستانی
پودوں کے بیج شینزو چودہ خلائی جہاز کے ذریعے چین کے خلائی اسٹیشن پہنچے،
اور چھ ماہ تک خلا میں رہنے کے بعد زمین پر واپس آئے۔یوں ، پاکستانی اجناس
کی خلائی افزائش نسل کے لیے ایک نیا آغاز ہو چکا ہےاور چین پاکستان سائنسی
و تکنیکی تعاون میں ایک سنگ میل بن گیا ہے۔
چین کی جانب سے عالمی اسپیس تعاون کو فروغ دینے کی مزید بات کی جائے تو ملک
کے قومی خلائی ادارے نے ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ ڈیٹا کی مشترکہ تعمیر اور
اشتراک کو مزید فروغ دینے کے لیے باضابطہ طور پر "نیشنل ریموٹ سینسنگ ڈیٹا
اینڈ ایپلیکیشن سروس پلیٹ فارم "بھی تشکیل دیا ہے۔اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے
ہوئےچین کی جانب سے یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ وہ آئندہ 10 سے 15 سالوں
میں اپنے خلائی اسٹیشن پر ایک ہزار سے زائد سائنسی تجربات کا ارادہ رکھتا
ہے۔ اس خاطر چینی خلائی اسٹیشن کو کامیابی کے ساتھ منظم کیا گیا ہے ، جس
میں سائنسی تجربات کے لئے تمام سہولیات نصب ہیں۔ اگلی دہائی تک یہ خلائی
اسٹیشن اطلاق اور ترقی کے مرحلے میں داخل ہوگا اور سائنس دانوں اور
انجینئروں کے لیے خلا کے راز وں کو دریافت کرنے کے لیے ایک تحقیقی پلیٹ
فارم کے طور پر کام کرے گا۔
|