کھیل کا میدان جہاں جذبے کی لہریں امڈتی ہیں، حوصلے بلند
ہوتے ہیں، اور جیت کی خوشی یا ہار کا دکھ سب ایک خاندان کی مانند بانٹا
جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب کھلاڑی میدان میں اترتے ہیں
تو ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی ہوتے ہیں؟ یہ منظر ہر بار دیکھنے
والوں کے دل کو چھو لیتا ہے۔ یہ بچے کون ہیں؟ یہ رسم کہاں سے شروع ہوئی؟
اور کیا یہ محض ایک رسم ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہرا تاریخی اور جذباتی
پیغام چھپا ہے؟ آئیے، آج ہم کھیلوں کی تاریخ کے انہی دلچسپ اوراق کو پلٹیں
گے جب قومی ترانے کی گونج میں بچے کھلاڑیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے میدان
میں داخل ہوتے ہیں۔
کھیلوں کی تاریخ میں بچوں کا کھلاڑیوں کے ساتھ میدان میں اترنے کی روایت کا
سفر قدیم یونان کے اولمپک کھیلوں تک جاتا ہے، جہاں نوجوانوں کو کھیلوں کے
دیوتا زیوس کی پوجا کے لیے منتخب کیا جاتا تھا۔ ان تقریبات میں نوجوانوں کی
شرکت کو مقدس سمجھا جاتا تھا، کیونکہ یہ نہ صرف کھیلوں کی روح کو زندہ
رکھنے کا ذریعہ تھا بلکہ امن اور یکجہتی کا پیغام بھی دیتا تھا۔ تاہم، جدید
دور میں اس رسم کی باقاعدہ شروعات 20ویں صدی کے وسط میں ہوئی۔ 1950ء کی
دہائی میں یورپی فٹ بال میچز میں پہلی بار بچوں کو کھلاڑیوں کے ساتھ میدان
میں اتارا گیا۔ اس کا بنیادی مقصد کھیلوں کو نئی نسل سے جوڑنا اور جنگ کے
بعد کے ماحول میں امن کی علامت قائم کرنا تھا۔ 1970ء میں میکسیکو میں
منعقدہ فیفا ورلڈ کپ نے اس روایت کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ اس موقع پر
سفید لباس میں ملبوس بچوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر میدان
میں داخل ہونے کی رسم ادا کی۔ سفید رنگ امن کی علامت تھا، اور یہ تصویر
اتنی مقبول ہوئی کہ آج تک ہر فیفا ورلڈ کپ میں بچوں کی شمولیت لازمی جزو بن
چکی ہے۔
پاکستان کی کرکٹ تاریخ میں بچوں کا میدان میں داخل ہونے کا سب سے یادگار
واقعہ 1992ء کے کرکٹ ورلڈ کپ سے وابستہ ہے۔ جب پاکستان نے یہ عالمی
ٹورنامنٹ جیتا تو فتح کے جشن کے دوران کپتان عمران خان کے ساتھ کئی بچے
میدان میں موجود تھے۔ ان بچوں نے نہ صرف جشن میں حصہ لیا بلکہ انہیں ٹرافی
اٹھانے کا موقع بھی دیا گیا۔ یہ لمحہ پاکستانی عوام کے دلوں میں ہمیشہ کے
لیے محفوظ ہو گیا۔ بعد ازاں، 2009ء میں ٹی20 ورلڈ کپ جیتنے پر بھی بچوں نے
کھلاڑیوں کے ساتھ قومی ترانہ گاتے ہوئے جذبات کو چار چاند لگا دیے۔ ان
واقعات نے نہ صرف کھیلوں کے میدان میں بچوں کی اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ یہ
پیغام دیا کہ یہ معصوم چہرے ہی قوم کے مستقبل کی امید ہیں۔
کھیلوں کی دنیا میں بچوں کی شمولیت سے متعلق کئی دلچسپ حقائق ہیں جو عام
طور پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر، 2002ء کے فیفا ورلڈ کپ
میں جنوبی کوریا اور جاپان نے مشترکہ طور پر میزبانی کی تھی۔ اس موقع پر ہر
میچ سے پہلے بچوں نے کھلاڑیوں کے ساتھ "میچ بال" لے کر میدان میں داخل ہونے
کی رسم شروع کی، جو آج تک جاری ہے۔ ماہرین کے مطابق بچوں کو شامل کرنے کا
مقصد کھیلوں کو تشدد اور تناؤ سے پاک بنانا ہے۔ یہ نہ صرف کھیلوں کی نفاست
کو برقرار رکھتا ہے بلکہ نئی نسل کو کھیلوں سے جوڑنے کا بھی ایک موثر ذریعہ
ہے۔ ایک اور دلچسپ واقعہ 2018ء کے فیفا ورلڈ کپ سے متعلق ہے جب روس کے ایک
میچ میں صرف 5 سالہ بچے نے ارجنٹائن کے کھلاڑی لیونل میسی کا ہاتھ تھاما۔
یہ تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور لاکھوں لوگوں نے اسے "مسی کا چھوٹا
سپورٹر" کا نام دیا۔ اس واقعے نے ثابت کیا کہ بچوں کی معصومیت کھیلوں کی
دوڑ میں جذباتی ربط پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
قومی ترانے کے دوران بچوں اور کھلاڑیوں کا ایک ساتھ کھڑے ہونے کا منظر نہ
صرف جذبے کو ابھارتا ہے بلکہ یہ ایک قوم کی یکجہتی کی علامت بھی ہے۔ 2010ء
میں جنوبی افریقہ میں ہونے والے فیفا ورلڈ کپ کے دوران نیلسن منڈیلا نے جب
میدان میں قدم رکھا تو ان کے ساتھ 12 بچے تھے، جو جنوبی افریقہ کی 12
قومیتوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ یہ لمحہ نسل پرستی کے خلاف جنگ میں ایک
تاریخی سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ اس موقع پر منڈیلا نے کہا تھا، "یہ بچے ہی
ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہماری لڑائی صرف اپنے لیے نہیں بلکہ آنے والی
نسلوں کے لیے ہے۔" پاکستان میں بھی قومی ترانے کی عزت اور جذبات کو ہمیشہ
فوقیت دی جاتی ہے۔ 2014ء میں ہندوستان کے خلاف ہاکی میچ کے دوران پاکستانی
بچوں نے سبز ہریں پرچم لہراتے ہوئے قومی ترانہ گایا۔ یہ منظر دیکھ کر نہ
صرف کھلاڑیوں بلکہ تماشائیوں کی آنکھیں بھی نم ہو گئیں۔ اس واقعے نے ثابت
کیا کہ کھیل کا میدان محض کھلاڑیوں کی جنگ نہیں ہوتا بلکہ یہ قوم کے جذبات
اور عزت نفس کا آئینہ دار ہوتا ہے۔
پاکستان میں بچوں کو کھیلوں کے مواقع دینے کی روایت صرف کرکٹ تک محدود
نہیں۔ ہاکی، اسکواش، اور فٹ بال میں بھی بچوں کو قومی تقریبات میں شامل کیا
جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑی جب بین
الاقوامی میچوں میں حصہ لیتے ہیں تو اکثر ان کے ساتھ نوجوان ہاکی کھلاڑیوں
کو بھی میدان میں اتارا جاتا ہے۔ یہ نہ صرف ان کے حوصلے بڑھاتا ہے بلکہ
انہیں مستقبل کے چیلنجز کے لیے تیار بھی کرتا ہے۔ اسکواش کی دنیا میں بھی
پاکستان نے کئی نوجوان کھلاڑیوں کو عالمی سطح پر متعارف کرایا ہے۔ جناح علی
خان اور دیگر نوجوان اسکواش کھلاڑیوں کی کامیابیوں نے ثابت کیا ہے کہ بچپن
سے ہی کھیلوں کی تربیت دینا کتنا ضروری ہے۔
کھیلوں کے میدان میں بچوں کی شمولیت محض ایک رسم نہیں، بلکہ یہ مستقبل کے
کھلاڑیوں کو پروان چڑھانے کا ایک ذریعہ بھی ہے۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسے
ممالک میں تو باقاعدہ طور پر بچوں کو اسکول لیول پر کھیلوں کے مواقع دیے
جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی حالیہ برسوں میں "زونل اکیڈمیز" اور "اسٹریٹ
کرکٹ پروگرامز" کے ذریعے نوجوانوں کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ان اقدامات کا
مقصد نہ صرف کھیلوں کے میدان میں نئی صلاحیتوں کو تلاش کرنا ہے بلکہ نوجوان
نسل کو منشیات اور منفی سرگرمیوں سے دور رکھنا بھی ہے۔ کراچی، لاہور، اور
اسلام آباد جیسے شہروں میں اسٹریٹ کرکٹ ٹورنامنٹس کا انعقاد اس کی بہترین
مثال ہے، جہاں غریب اور متوسط طبقے کے بچے بھی اپنی صلاحیتیں دکھانے کا
موقع پاتے ہیں۔
آخر میں، کھیل کا میدان جذبوں کی آماجگاہ ہے، اور جب اس میدان میں معصوم
بچے قومی ترانے کی گونج میں کھلاڑیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں تو یہ
منظر صرف ایک رسم نہیں رہتا۔ یہ ایک قوم کی امید، یکجہتی، اور مستقبل کی
عکاسی کرتا ہے۔ اگلی بار جب آپ کسی میچ میں یہ نظارہ دیکھیں، تو ذہن میں
ضرور لائیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے قدم دراصل ہماری آنے والی نسلوں کے خوابوں کی
بنیاد رکھ رہے ہیں۔ یہ بچے ہی ہیں جو کل کے ستارے بنیں گے، اور انہی کے
ہاتھوں میں ہمارے جذبات، ہماری امیدیں، اور ہماری قوم کی عزت محفوظ ہے۔
|