مصنوعی ذہانت ترقی پذیر معیشتوں کے لیے خطرہ

دنیا بھر میں مصنوعی ذہانت (AI) کی تیز رفتار ترقی نے محنت کش طبقے کے لیے ایک خاموش طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ خصوصاً پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک، جہاں معیشت کا دارومدار کم ہنر مند مزدوروں پر ہے، اس تبدیلی کے سب سے بڑے شکار بننے والے ہیں۔ گزشتہ صدی میں مشینوں نے صنعت اور کاشتکاری کے روایتی شعبوں کو بدل ڈالا تھا، مگر اب AI کی لہر نہ صرف زیادہ تیزی سے آ رہی ہے بلکہ یہ دماغی کام کرنے والے پیشوں کو بھی نگلنے پر تلی ہوئی ہے۔ عالمی بینک (2019) کے مطابق، ترقی پذیر ممالک میں 50% سے زائد ملازمتوں کو آٹومیشن کے ذریعے ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ پاکستان جیسے ملک کے لیے، جہاں خواندگی اور ٹیکنالوجی تک رسائی محدود ہے، یہ خطرہ دوگنا ہو جاتا ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک کا نوجوان طبقہ—خصوصاً وہ جو روایتی تعلیم کے بعد بے روزگار ہیں—معاشی زوال کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔

مصنوعی ذہانت کی یلغار نے پوری دنیا میں ہلچل مچا دی ہے، مگر ترقی پذیر ممالک کے لیے یہ ایک "دو دھاری تلوار" ثابت ہو رہی ہے۔ ایک طرف تو یہ کارکردگی اور پیداواریت بڑھانے کا ذریعہ ہے، دوسری طرف یہ ان ممالک کے لیے معاشی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے جو کم اجرت اور کم ہنر پر انحصار کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، پاکستان، بنگلہ دیش، اور ویت نام جیسے ممالک میں ٹیکسٹائل، مینوفیکچرنگ، اور کسٹمر سروس جیسے شعبے AI کے ذریعے آٹومیشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ ایکیمیوگلو اور ریسٹریپو (2019) کی تحقیق کے مطابق، ایسے شعبوں میں جہاں مزدوری کا تناسب زیادہ ہوتا ہے، وہاں مشینوں کی آمد سے روزگار کے مواقع 20-30% تک کم ہو سکتے ہیں۔ عالمی اقتصادی فورم (2020) کی رپورٹ بتاتی ہے کہ امیر ممالک AI کو اپنانے میں تیز ہیں، جبکہ غریب ممالک ٹیکنالوجی اور سرمائے کی کمی کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس طرح، معاشی خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔

پاکستان کی 22 کروڑ آبادی کا 60% سے زیادہ حصہ غیر رسمی شعبوں جیسے کہ چھوٹی دکانیں، رکشہ چلانا، یا دستکاری میں مصروف ہے (پاکستان بیورو آف شماریات، 2023)۔ یہ وہ شعبے ہیں جو آٹومیشن کی زد میں سب سے پہلے آئیں گے۔ مثال کے طور پر، کراچی کی فیکٹریوں میں اب روبوٹک بازو کپڑے سی رہے ہیں، جبکہ لاہور کے کال سینٹرز میں AI چاٹ بوٹس گاہکوں کو جواب دے رہے ہیں۔ نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح 8.5% ہے، لیکن یہ تعداد ڈگری یافتہ نوجوانوں میں 31% تک پہنچ جاتی ہے (ILO، 2022)۔ عالمی بینک (2021) کے اندازوں کے مطابق، پاکستان میں 2030 تک 10 ملین سے زائد ملازمتیں مشینوں کے ہاتھوں ختم ہو سکتی ہیں۔ مسئلہ صرف روزگار کا نہیں، بلکہ معاشرتی عدم مساوات کا بھی ہے: جو لوگ AI کو اپنا سکتے ہیں وہ امیر ہوتے جائیں گے، اور جو نہیں اپنا سکتے وہ غربت کی دلدل میں دھنس جائیں گے۔

پاکستان کی معیشت میں ٹیکسٹائل کا شعبہ 60% برآمدات اور 40% ملازمتوں کا ذمہ دار ہے۔ مگر اب یہی شعبہ سب سے بڑے بحران کی زد میں ہے۔ فیصل آباد اور کراچی کی فیکٹریاں اب خودکار لوoms (کپڑا بنانے والی مشینیں) اور AI سے چلنے والے کوالٹی کنٹرول سسٹمز استعمال کر رہی ہیں۔ ایشین ٹیکسٹائل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (APTMA، 2022) کے مطابق، 2030 تک 5 لاکھ سے زائد مزدور اپنی نوکریاں کھو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس، بنگلہ دیش اور ویت نام جیسے ممالک نے ٹیکنالوجی اپنانے میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے، جس کی وجہ سے وہ کم لاگت کی پیداوار کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کر پا رہے ہیں۔ بین الاقوامی محنت ادارہ (ILO، 2021) نے خبردار کیا ہے کہ جنوبی ایشیا "آٹومیشن کے ایک نازک موڑ" پر کھڑا ہے: یا تو مزدوروں کو نئے ہنر سکھائے جائیں، یا پھر سماجی بغاوتوں کا خطرہ ہے۔

پاکستان کی تعلیمی نظام کی ناکامی اس بحران کو اور گہرا کر رہی ہے۔ یونیسکو (2020) کے اعداد و شمار کے مطابق، ملک کی صرف 15% یونیورسٹیاں AI، ڈیٹا سائنس، یا روبوٹکس جیسے جدید شعبوں میں پروگرام پیش کرتی ہیں۔ بیشتر ادارے اب بھی ایسے نصاب پڑھا رہے ہیں جو 20ویں صدی کی صنعتی ضروریات کے مطابق بنائے گئے تھے۔ مکینزی (2022) کی ایک رپورٹ کے مطابق، 35% پاکستانی گریجویٹس کو بنیادی ڈیجیٹل مہارتیں جیسے کہ Excel استعمال کرنا یا کوڈنگ کی بنیادی سمجھ بوجھ تک نہیں ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی (2017) میں STEM پر زور دیا گیا تھا، مگر فنڈز کی کمی اور انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ کہ ہمارے نوجوان نہ تو روایتی شعبوں میں روزگار پا رہے ہیں، نہ ہی جدید ٹیکنالوجی کے لیے تیار ہیں۔

آنے والے سالوں میں AI کا سب سے شدید اثر ڈگری یافتہ نوجوانوں پر پڑے گا۔ چاٹ جی پی ٹی جیسے ٹولز نے پہلے ہی بنیادی کوڈنگ اور ڈیٹا انٹری جیسے کاموں کی ضرورت کو کم کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد کی آئی ٹی کمپنیاں اب سافٹ ویئر ٹیسٹنگ جیسے کاموں کے لیے AI پلیٹ فارمز استعمال کر رہی ہیں، جس کی وجہ سے انٹری لیول کی نوکریاں 40% تک کم ہو گئی ہیں (ورلڈ بینک، 2023)۔ دوسری طرف، ڈیٹا سائنس، سائبر سیکورٹی، اور مشین لرننگ جیسے شعبوں میں ہنر مند افراد کی عالمی مانگ بڑھ رہی ہے، مگر پاکستان میں ان شعبوں میں تربیت دینے والے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس طرح، ہمارے نوجوان یا تو بے روزگار رہ جاتے ہیں یا پھر کم اجرت والے غیر مستحکم کاموں میں پھنس جاتے ہیں۔

اس بحران سے نمٹنے کے لیے ہمیں تین سطحوں پر فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ پہلا، حکومتی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلی: 2018 میں بنائی گئی "قومی ڈیجیٹل ذہانت اور ہنر کی حکمت عملی" کو فنڈز اور عملدرآمد کی فوری ضرورت ہے۔ دوسرا، عوامی-نجی شراکت داریوں کو فروغ دینا: مثال کے طور پر، لاہور کے نیشنل انکیوبیشن سینٹر (NIC) نے گزشتہ دو سالوں میں 10,000 نوجوانوں کو AI اور بلاک چین جیسے شعبوں میں تربیت دی ہے۔ تیسرا، تعلیمی اداروں کا جدید کاری: یونیورسٹیوں کو چاہیے کہ وہ جرمنی یا ملائیشیا کے "ڈوئل ایجوکیشن سسٹم" کی طرز پر نصاب بنائیں، جہاں طلباء تھیوری کے ساتھ ساتھ صنعت میں عملی تربیت بھی حاصل کریں (ورلڈ بینک، 2022)۔

پاکستان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ AI کے طوفان کو اپنے لیے ایک موقع میں بدل دے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت، صنعتکار، اور تعلیمی ادارے مل کر کام کریں۔ نوجوانوں کو ڈیجیٹل خواندگی، AI ٹولز، اور تخلیقی سوچ کی تربیت دی جائے۔ دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی رسائی کو یقینی بنایا جائے تاکہ دور دراز کے علاقوں کے باشندے بھی جدید تعلیم اور روزگار کے مواقع سے جُڑ سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ "قومی ڈیجیٹل ذہانت اور ہنر کی حکمت عملی" کو نہ صرف فعال کرے بلکہ اس کے لیے سالانہ بجٹ کا کم از کم 5% مختص کرے، جیسا کہ ملائیشیا اور سنگاپور جیسے ممالک نے کیا ہے۔ صنعتکاروں کو چاہیے کہ وہ اپنی فیکٹریوں میں AI کے ساتھ ساتھ انسانی مزدوروں کو بھی جدید ہنر سکھانے پر سرمایہ کاری کریں، تاکہ مشین اور انسان کا اشتراک پیداواریت کو نئی بلندیوں تک لے جائے۔

لیکن اگر ہم نے وقت ضائع کر دیا تو صورتحال انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ برائے ترقی (UNDP، 2023) نے خبردار کیا ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں ٹیکنالوجی اور تعلیم کے درمیان بڑھتا ہوا فرق غربت، سماجی بے چینی، اور نسلی تفاوت کو ہوا دے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں، جہاں آبادی کا 64% حصہ 30 سال سے کم عمر ہے، اگر نوجوانوں کو ہنر اور روزگار نہ ملا تو یہ "کھوئی ہوئی نسل" نہ صرف معاشی بوجھ بنے گی بلکہ انتہا پسندی اور جرائم میں اضافے کا باعث بھی ہو گی۔ لاہور اور کراچی کی گلیاں احتجاجوں سے بھر سکتی ہیں، اور ہماری برآمدات کا انجن ٹیکسٹائل انڈسٹری مکمل طور پر بیرونی ممالک کے روبوٹک نظاموں کے رحم و کرم پر ہو گی۔

اس بحران کا حل صرف اور صرف تعلیم، جدت، اور انصاف پر مبنی معیشت میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں اپنے اسکولوں میں کوڈنگ کو لازمی مضمون بنانا ہو گا، یونیورسٹیوں میں AI ریسرچ سنٹرز قائم کرنے ہوں گے، اور دیہات میں ڈیجیٹل لیبز کھولنی ہوں گی۔ ساتھ ہی، خواتین کو ٹیکنالوجی تک یکساں رسائی دینا ہو گی، کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق، صنفی مساوات کے بغیر کوئی بھی معیشت AI دور میں کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنی ثقافت کی مضبوطی کو اپنی طاقت بنانا ہو گا: مشینوں سے مقابلہ کرنے کے لیے تخلیقی صلاحیتیں، ہنر مندی، اور لچک ہی ہمارا ہتھیار ہیں۔

آخری بات: تاریخ گواہ ہے کہ جن قوموں نے تبدیلی کو گلے لگایا، وہی ترقی کی منازل طے کرتی ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ AI کو ایک "خطرہ" نہ سمجھے بلکہ اپنی نوجوان آبادی کے ساتھ مل کر اسے "موقع" میں بدل دے۔ ورنہ، آنے والی دہائیوں میں ہم نہ صرف معاشی طور پر پیچھے رہ جائیں گے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو تاریکی کی گہرائیوں میں دھکیل دیں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ آج ہی قدم اٹھایا جائے، وگرنہ کل بہت دیر ہو چکی ہو گی۔
 

Faisal Raza
About the Author: Faisal Raza Read More Articles by Faisal Raza: 7 Articles with 1083 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.