سنگین دور کا خاتمہ یا ڈکٹیٹرشپ کا آغاز

امریکہ اور اسکے گماشتوں نے سامراج مخالف مسلم رہنما لیبیا کے معزول صدر کرنل قذافی کو ہلاک کردیا ہے۔وائس آف امریکہ نے امریکن نواز عبوری کونسل کے سربراہ مصطفی الجلیل کی طرابلس میں ہونیوالی پریس کانفرنس کے حوالے سے معمر قذافی کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔ قذافی ستر کی دہائی میں امت مسلمہ کی یکجہتی کی خاطر اسلامی کانفرنس کی بنیاد رکھنے والے ٹولے میں شامل تھے۔بھٹو شاہ فیصل یاسر عرفات اور قذافی پر چار کے ٹولے کی پھبتی کسی جاتی تھی۔ قذافی چار کے ٹولے کی واحد نشانی تھے جو عبوری کونسل کی چھتری تلے محو استحراحت زر پرست میر جعفروں اور باغیوں کی وحشیانہ جبلت کا نشانہ بنکر عدم راہی ہوئے۔اسی ٹولے نے oic کو مستحکم بنا کر امریکہ سمیت یہود و ہنود کو لرزا کر رکھ دیا ۔دکھ تو یہ ہے کہ چار کے ٹولے کو cia اور یہودیوں نے گاہے بگاہے قتل کروایا۔ قذافی کے لاشے کی بے حرمتی کی گئی۔گلوبل ٹی وی نیٹ ورک نے ایک وڈیو فلم جاری کی جس میں باغی لاش کے ارد گرد بھنگڑا ڈال رہے ہیں۔ الجزیرہ ٹی وی نے اپنے زرائع سے حاصل کی جانے والی وڈیو نشر کی جس میں قاتل قذافی کی لاش کو سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہیں۔وڈیو میں خون میں لت پت قذافی کا چہرہ اور برہنہ جسم صاف دیکھا جاسکتا ہے۔قذافی کی لاش کی تکذیب غیر اسلامی انسانیت سوز اور غیر اخلاقی رد عمل ہے۔ یہ غیر انسانی فعل ہے جسکی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔قذافی کے قریبی ساتھی اور وزیردفاع ابوبکر یونس جار بھی اسی سانحے میں ہلاک ہوئے۔اسی سال تیونس سے عرب دنیا کی جس سیاسی کایا پلٹ کا آغاز ہوا تھا لیبیا اسی فہرست کا تازہ ترین باب ہے۔ قذافی41 برس قبل لیبیا کی فوج میں کرنل تھے ۔ اسی حثیت میں قذافی نے فوجی بغاوت سے بادشاہت کا عہدہ سنبھالا تھا۔ چند ماہ پہلے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ قذافی کے عہد کا سورج اتنی برق رفتاری سے غروب ہوجائے گا۔ قذافی1942 میں سرت شہر کے صحرائی علاقے میں پیدا ہوئے۔جوانی میں قدم رکھتے ہی ایک طرف وہ عرب قوم پرستوں کے شیدائی بن گئے تو دوسری طرف وہ مصری صدر جمال عبدالناصر کو آئیڈیل اور ہیرو سمجھتے تھے۔1956 میں مصر اور اسرائیل کے مابین نہر سوویز کا تنازعہ شروع ہوا تو وہ جوش و خروش سے مغرب اور امریکہ مخالف مظاہروں میں شریک کار بنتے۔وہ بادشاہت کے خلاف تھے۔وہ1969 میں برطانیہ سے فوجی تربیت کے بعد واپس آئے۔فوجی بغاوت کا پلان اسکے دماغ میں کئی سالوں سے ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ قذافی نے بن غازی کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنایا اور کامیاب ملٹری بغاوت کے بعدلیبیا کے مختیار کل بن گئے۔1970 کی دہائی میں وہ عرب قوم پرستی کے پیروکار بنے اور انہوں نے اس وقت کی مصری اردنی اور شامی حکومتوں کے ساتھ نہ صرف قریبی تعلق جوڑا بلکہ انکے ساتھ کئی تجارتی و مالیاتی معاہدات کئے۔1990 میں مرحوم عرب رہنماؤں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے مرحوم معمر نے ساری توجہ افریقہ پر مرکوز کر رکھی تھی۔انہوں نے افریقی ملکوں کو ریاست ہائے متحدہ کا تصور دیا۔وہ اس دور میں افریقی تہذیب و ثقافت کے شاہکار بن گئے تاکہ افریقی اقوام کے دلوں پر حکمرانی کی۔ وہ کئی عسکریت پسند تنظیموں کی سرپرستی کرتے تھے جن میںplo ریپبلکن آرمی اور درجنوں افریقن تنظیمیں شامل ہیں۔ امریکہ مخالف جذبات اقدامات اور نظریات کے رد عمل میں وائٹ ہاؤس نے قذافی کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ امریکہ نے جواز پیدا کرنے کے لئے قذافی کو یورپین شہروں میں ہونے والے بم دھماکوں کا زمہ دار ٹھرایا اور1985 میں تریپولی بن غازی اور طرابلس پر حملہ کردیا جس میں قذافی کی لے پالک بیٹی ہلاک ہوگئی۔1988 میں سکاٹ لینڈ کے شہر لاکر بی میں امریکن مسافر بردار جہاز بم دھماکے میں راکھ ہوا اس حادثے میں270 مسافر ہلاک ہوگئے۔امریکہ نے پین ایم کی تباہی قذافی سے منسلک کردی۔2003 میں اپنی سیاسی تنہائی کے خاتمے کے لئے پین ایم کا مقدمہ سکاٹ لینڈ کی عدالت میں سماعت پر رضامندی ظاہر کی۔ لیبیا نے امریکہ اور برطانیہ کی خواہش پر پین ایم کے متاثرین کو کئی ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کیا۔ لیبیا نے نو دوگیارہ کے بعد اپنا جوہری پلانٹ اور لیبارٹریاں بند کرکے سامان اورکیمیائی ہتھیار امریکہ کے سپرد کر ڈالے۔یوں وہ مغرب کے نور نظر بن گئے۔ قذافی کی عمر68 سال تھی۔bbc کے مطابق قذافی نے اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے کی خاطر پیپلز کمیٹیاں بنائیں مگر دیگر بادشاہوں کی طرح وہی اقتدٓر کا سرچشمہ تھے۔ قذافی نے متبادل قیادت کو کچلنے کی خاطر درجنوں خفیہ ادارے بنائے جو ہر قسم کی بغاوت کا مکو ٹھپنے میں شہرہ افاق تھیں۔ لیبیا تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔قذافی نے اپنی طویل ترین بادشاہت میں مغرب کی آئل کمپنیوں کو باہر نکال کیا۔قذافی نے تیل کی دولت کو نہ صرف لیبیا کی فلاح و بہبود تعلیم و صحت پر خرچ کیا بلکہ وہ کئی افریقن ملکوں کی مالی امداد کرتے رہے۔ لیبیا قذافی کی سرپرستی میں براعظم افریقہ کا امیر ترین ملک بن گیا۔پاکستان کا ایٹمی پروگرام لیبیا کی دی گئی بھاری امداد کے بل بوتے پر تعمیر ہوا۔قذافی کو محسن پاکستان کہنا غلط نہ ہوگا۔ تیونس سے شروع ہونے والے عرب عوامی بیداری کے اس سیلاب میں ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ قذافی کے بغیر لیبیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ قذافی کی ہلاکت امت مسلمہ کے لئے تاریک ساز سانحہ اور امریکی وحشت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ قذافی ڈکٹیٹر تھا یا لیبیائی عوام کا وفادار حکمران اس سے قطع نظر یو این او اور امریکہ کو یہ اختیار کس نے دیا ہے؟ امریکن طوائف کا کردار ادا کرنے والی یو این او کسی ریاست کے خلاف شب خون مارنے کی اجازت کیونکر اور کیسے دے سکتی ہے؟ قذافی کی ہلاکت پر مغرب میں جشن منایا جارہا ہے۔امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے جبکہ امریکی ڈکیٹ تیل والے لیبیائی علاقوں پر پنجے گاڑھ رہے ہیں۔ افغانستان عراق اور لیبیاپر حملوں کے بعد یہ سوال ہر مسلمان کا سکون غارت کرچکا ہے کہ امریکہ اور یہودیوں کا اگلا ٹارگٹ کون ہوگا؟ قذافی کی ہلاکت پر عالمی رہنماوں کے رد عمل تبصروں اور تجزیوں سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سامراج اور عالمی طاقتوں کے قول و فعل میں کتنا تضاد ہوتا ہے۔اوبامہ کہتے ہیں کہ لیبیائی لوگوں پر مسلط چالیس سالہ تاریک ترین دور ختم ہوگیا ہے۔برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جگالی فرماتے ہیں کہ ہمیں فخر ہے کہ برطانیہ نے لیبیا کوجمہوریت کی راہ پر چلانے میں انکی مدد کی۔فرنچ سیکریٹری اف فارن افیرز ایلن ڈوپ پھولے سماتی ہیں کہ امرانہ دور کا خاتمہ ہوا۔قذافی کی رحلت کے بعد دراصل تاریک دور ختم نہیں ہوا بلکہ امریکی غنڈوں پر مشتعمل عبوری کونسل کی امد کے ساتھ ہی لیبیا پر امریت کا اندھیرا مسلط ہوچکا۔امریکی اور برطانوی جمہوریت کے چمکتار ہم عراق اور کابل میں دیکھ چکے ہیں جہاں چار سو سوز و گداز طاری ہے جہاں روزانہ درجنوں بے گناہوں کا خون بہتا ہے خود کش حملے ہوتے ہیں لاقانونیت کا راج ہے جہاں لاکھوں عراقی و افغانی کیمیائی ہتھیاروں کی خوشبو سے مارے جاچکے جہاں بیس لاکھ افغان بچے یتیم ہوچکے جہاں قندھار غزنی بغداد اور موصل کی ہنستی بستی بستیاں صفحہ ہستی سے مٹ گئیں کیا دنیا کا کوئی افلاطون یہ جواب دے سکتا ہے کہ کیا ا یسی جمہوریت تاریک دور کا اغاز ہوگا یا اوبامہ کیمرون اور ایلن ڈوپ کا محولہ بالہ رد عمل؟
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 204 Articles with 140838 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.