مسلمان اور ہندو دو مختلف قومیں
اور دو مختلف تہذیبیں ہیں۔ دریا کے دو کنارے ، خدائے واحد کا پرستار اور
خود ساختہ ہزاروں بتوں کا پجاری کبھی ایک نہیں ہو سکتے۔ گائے کاگوشت مزے سے
کھانے والے اور گائے کو گؤ ماتا کہنے اور اس کا پیشاب پی جانے والے کبھی مل
کر رہ سکتے ہیں ؟ نہیں کبھی نہیں۔وہ ملک کو بھی گﺅماتا کہتے تھے۔اور بضد
تھے کہ مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان پر بھارت ماتا کو کسی صور ت دو ٹکڑے نہ
ہونے دیں گے۔ لیکن مشیت ایزدی سے پاکستان بن گیا ۔ ہندو کے سینے میں بغض و
عناد کا ایک جوالامکھی کھول رہا تھا ۔ جس کا اظہار اس طرح ہوا کہ دس لاکھ
توحید پرستوں کو آگ اور خون کی ہولی کھیلتے شہید کر ڈالا ۔اس قیامت صغرا کے
دوران ہندو نے بے حد و حساب جانی اور مالی نقصان تو جو کیا سو کیا کوئی ایک
لاکھ عفت مآب مسلمان بیٹیاں چھین لیں،اغوا کرلیں۔
پھر مسلم اکثریت والی ریاست جموںو کشمیر جو اصولی اور جغرافیائی لحاظ سے
پاکستان کے ساتھ شامل ہونی تھی ۔ا س پر فوج کشی کرکے اکثریتی آبادی کی مرضی
کے علی الرغم غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ ساڑھے سات لاکھ مسلح فوج اب تک ایک
لاکھ سے زیادہ مسلمان کشمیریوں کو شہید اورایک بڑی تعداد کو معذور بنا چکی
ہے۔لاکھوں ہی جیلوں اور عقوبت خانوں میں پڑے سڑ رہے ہیں۔ ہزاروں ہی بہنوں
بیٹیوں کی آبرو فوج کے ہاتھوں پامال ہو چکی ہے۔قصور البتہ یہ ہے کہ وہ
بھارت سے آزاد ی اورپاکستان سے الحاق چاہتے ہیں۔ بذات خود بھارت کے اندرآئے
دن مسلم کش فسادات ہوتے رہتے ہیں۔جن میں مسلمانوں کی جان ومال اور آبرو کو
خصوصی نشانہ بنایا جاتا ہے،زندہ جلتے مردوں اور بے بس مسلم خواتین کی
اجتماعی آبروریزی ہوتے ظلم کی وڈیو فلمیں بنائی جاتی ہیں۔بابری مسجد کی
شہادت کے بعد ممبئی میں اور پھر بھارتی صوبہ گجرات میں اسی قسم کے ہولناک
فسادات میں بے شمار مسلمان ہنودکے تعصب اور عناد کی بھینٹ چڑھ گئے۔
بھارت نے پاکستان کی آزادی کو بلکہ اس کے وجود تک کو دل سے تسلیم نہیں کیا
ہے۔ہمیشہ اسی تاک میں رہتا ہے کہ کوئی داﺅ لگے کوئی موقعہ ملے ، جس کے
ذریعہ پاکستان کو ختم کر دیا جائے یاکم از کم کوئی بڑا نقصان ہی پہنچادیا
جائے۔ 1965ءمیں بھارت نے بغیر اعلان کئے رات کی تاریکی میں پاکستان کو ختم
کرنے کی ناپاک نیت سے حملہ کر دیا۔لیکن منہ کی کھائی۔تاہم اس نے اپنی
شیطانی کوششیں جاری رکھیں۔اور 1971ءمیں پاکستان کو کاٹ کر دو ٹکڑے کرنے میں
کامیاب ہو گیا۔اب پھر امریکہ کی آشیرباد سے افغانستان میں در آیا ہے۔اور
وہاں بیٹھ کر پاکستان کو توڑنے کاپلان بنا رہا ہے۔پاکستانی بارڈر کے ساتھ
ساتھ تخریب کاروں کے ٹریننگ کیمپ قائم کر دئے ہیں۔یہ تربیت یافتہ تخریب کار
پاکستان میںداخل ہو کر دہشت گردی کی وارداتوں کے ذریعہ بے حد و حسا ب جانی
اور مالی نقصان پہنچانے کے علاوہ علیحدگی پسند اور ملک دشمن قوتوں کوتربیت
اور اسلحہ مہیاکرتے ہیں۔دہشت گردوں کے خلاف کاروائیوں کے دوران جو تخریب
کار ہلاک اور گرفتار ہوئے ہیں۔ ان میں ایک قابل ذکر تعداد بعد کی تحقیق سے
بھارتی نژاد ثابت ہوئی ہے۔
بھارت نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر نے کے بعد اقوام عالم کے دباﺅ سے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی کے روبرو کشمیر میں منصفانہ استصواب کا اقرار تو کر
لیا تھا۔ لیکن اس پر عمل کی بابت اپنی چانکیائی سیاست سے باز نہ آیا اور
ٹال مٹول و ہیرا پھیری سے کام لیتا رہا ہے۔ اور اب تواس مسئلے پر بات چیت
تک کے لئے تیار نہیں۔اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اب توکشمیر کے متنازعہ علاقوں
میںپاکستان کو پانی مہیا کرنے وا لے دریاﺅں پر بے شمار ڈ یمز تعمیر کر رہا
ہے۔تاکہ پاکستان کی زرعی زمینوں کو پانی سے محروم کرکے اسے ویرانے میں
تبدیل کر دے۔ اور جب چاہے سارے ڈیموں کے پھاٹک یکبارگی کھول کر پاکستان کے
لئے طوفان نوح کا سماں پیدا کر دے۔اور پاکستان کاا یٹم بم استعمال ہی نہ ہو
سکے۔ دھرا کا دھرا رہ جائے اور بھارت کو بم استعمال کر نے کی ضرورت ہی نہ
پڑے۔نہ رہے بانس نہ بجے بنسری۔
یہ ہیں اختصار کے ساتھ وہ مشکل حالات اورحقائق جن سے پاکستان اپنے پڑوسی
ملک بھارت کی وجہ سے گزر چکا ہے اور گزر رہا ہے۔اسے بد قسمتی ہی کہہ لیں کہ
قیام پاکستان کے ساتھ ہی نام نہاد مسلمانوں یا یوں کہیں کہ منافقوں کا ایک
مضبوط اور موثر ٹولہ سیاست اور حکومتی مشینری میں گھس آیا تھا ۔ جو وقت کے
ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔ وہ مغرب اور د وسری مادہ پرست قوتوں سے مرعوب اور ان
کے آگے ”لام لیٹ“ ہے۔پڑوسی کے ساتھ اچھے برتاﺅ کا بیشک اللہ تعالٰی نے حکم
دیا ہے۔لیکن اللہ اور اس کے رسول اور اللہ کے نام لیوا بندوں کے دشمنوں کے
ساتھ دوستی پر تو سخت وعید فرمائی ہے۔کہ اے ایمان والو یہود و نصاری اور
کافروں کو اپنا دوست ہرگز نہ بناﺅ ورنہ تم بھی انہی میںشمار کئے جاﺅ گے۔
پاکستان کی تباہی تو کفار کا ہدف ہے ہی۔ ادھر وطن عزیز میں۔ اندر والا وہ
مارآستین منافق ٹولہ آج اور زیادہ سرگرم ہوگیا ہے۔دشمن کے لیئے وہ آسانیاں
پیدا کر رہا ہے۔تاکہ پاکستان کی تباہی کا عمل جلد از جلد پایہ تکمیل کو
پہنچ جائے۔
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے تھوڑے عرصہ بعدہی سننے میں آیا تھا کہ
بھارت سے اربوں روپیہ کی سینکڑوں بسیں آ رہی ہیں۔ جو دس سالہ استعمال شدہ
ہیں۔پھر پتہ نہیں کیا ہوا۔اب سن رہے ہیں کہ بھارت سے پچاس ریلوے انجن کرایہ
پر آرہے ہیں۔اور ان کی خصوصی صفت بھی یہی ہے کہ یہ بھی استعمال شدہ ہیں ۔
اگلی شرائط اس طرح ہیں کہ انجن کا تیل پانی کاخرچہ،عملہ اورمرمت کی ذمہ
داری ظاہر ہے پاکستان کی ہی ہوگی۔بس بھارت تو روزانہ فی انجن صرف ایک کروڑ
اور تیس لاکھ روپیہ صافی پاکستان سے وصول کر لے گا۔اس بات کا ذکر غیرضروری
ہے کہ ایسا ایک انجن روزانہ پاکستان کو اڑتیس لاکھ روپیہ کماکر دے
گا۔تیل،عملہ اور مرمت کا خرچہ اس میں سے نکالنا پڑے گا۔ باقی بچت ہی بچت ہو
گی۔اب جس بزرجمہر نے یہ ڈول ڈالا ہے اس کو کیا کہیں گے۔پاکستان وفادار یا
دشمن کا ایجنٹ؟ ۔ ابھی کل کی بات ہے۔پی آئی اے نے اپنے دو طیارے بیٹھا دئے
(گراﺅنڈکر دئے) ۔اور اربوں روپیہ میں کسی اور ملک سے ایک پرانا طیارہ جو
خرید کیا تھا وہ بھی یہاں آکر دو دن بعد بیٹھ گیا ہے۔
پاکستان کے وزیرتجارت امین فہیم بھارت کا کامیاب دورہ کر کے خوش خوش واپس
لوٹے ہیں۔ادھر نیویارک میں ہماری وزیرخارجہ حنا ربانی کھر نے دو تاریخی
معرکے سر کر ڈالے ۔ ایک ان شخصیت کاکمال ہے اور دوسرا ترلا پالیسی پرمحنت
کا نتیجہ معلوم ہو تا ہے۔ بالآخربھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ نے
ترلاپالیسی والوں پرترس کھا کر ہتھیار ڈال دئے ۔اور پاکستان کا دورہ کرنے
کی حامی بھر لی ہے۔اور اس طرح پاکستانی قیادت کا من موہ لیا ہے۔ سر اونچا
کر دیا ہے۔اور بی بی حناکھر والا ۔ ہوا یوںکہ (یہ تاریخی ہے) تاریخ میں
پہلی بار کسی بھارتی وزیرخارجہ نے اپنے کسی ہم منصب پاکستانی کوڈنر دیا۔
ورنہ آج تک کسی بھارتی وزیر خارجہ نے کسی پاکستانی وزیر خارجہ کو گھاس بھی
نہ ڈالی۔یہ ریکارڈ ت تو ڑنا بی بی کی شخصیت کا سحر اور قسمت کی خوبی ہے۔
دونوں اہم وزراءکامیاب دوروں کے بعد پاکستان واپس پہنچے کامیابیوں کی
تفصیلات میں بتایا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے مسائل بہت بری طرح الجھے ہوئے
ہیں۔ان مسائل کے حل ہونے کی ہمیں امید رکھنی چاہیے۔جو مسائل چونسٹھ سالوں
میں حل نہ ہو سکے ان کے حل کی راتوں رات امید نہیں کی جا سکتی۔بی بی حنا کے
علاوہ امین فہیم نے راتوں رات پر بہت زور دیا۔اس تقریب کو تاریخی درجہ دینے
کے لئے بھارت کو( تجارت کے لئے) پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کافیصلہ کر لیا
گیا۔اناللہ و اناالہ راجعون۔ |