|
|
آرکٹک کے اس علاقے کا شمار دنیا کے سرد ترین علاقوں میں
ہوتا ہے اور سال میں درجنوں دن یہاں 24 گھنٹے سورج چمکتا ہے۔ اس انتہائی
شمالی اور برفیلے علاقے میں بھی ایک مسجد قائم ہے اور باقاعدہ افطاری کا
اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
کینیڈا کے آرکٹک علاقے میں واقع اس 'مڈ نائٹ سن‘ مسجد میں جمع ہونے والے
مسلمان ایک پُرسکون ماحول میں گھر کے پکے ہوئے سوڈانی کھانوں سے افطار کر
رہے ہیں۔ یہ مسجد زمین کے مغربی نصف کرہ کے انتہائی شمال میں واقع واحد
مسجد ہے۔
ایسی افطار ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ فلسطینی نژاد لبنانی عبداللہ البکائی
گزشتہ 25 برسوں سے یہاں مقیم ہیں اور اب کینیڈا کے شمال مغرب میں واقع اپنی
چھوٹی سی مسلم کمیونٹی کو چھوڑنے کا ارادہ کر رہے ہیں، ''انوئک میں یہ میرا
آخری سال ہے۔‘‘
وہ اس قدر سرد علاقے میں ابھی تک کیوں قیام پذیر ہیں؟ اس بارے میں 75 سالہ
عبداللہ بتاتے ہیں، ''خدا میرے جانے کے لیے راضی نہیں ہوا۔ شاید میں نے
اپنی زندگی میں برا کیا، خدا نے مجھے یہاں بھیجا!‘‘ |
|
|
اس علاقے میں کتنے مسلمان آباد ہیں؟
مڈ نائٹ سن مسجد، جسے بڑے پیمانے پر ''ٹنڈرا کی چھوٹی مسجد‘‘ کہا جاتا ہے،
کا افتتاح اگست 2010 میں کیا گیا تھا کیونکہ کینیڈا کے اس سخت سرد شمالی
علاقے میں کام کے لیے نقل مکانی کرنے والے مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
مسجد کا یہ ڈھانچہ مینی ٹوبا صوبے کے شہر ونی پیگ میں بنایا گیا تھا اور
اسے ایک بڑے ٹرک کے ذریعے 4,000 کلومیٹر دور اس شمالی علاقے تک پہنچایا گیا۔
اس مسجد کے امام صالح حسب النبی ہیں اور وہ بھی گزشتہ 16 سال سے انوئک میں
ہی مقیم ہیں۔ انہوں نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہاں مسلمانوں کی
تعداد مسلسل تو نہیں بڑھ رہی لیکن تقریباً 100 سے 120 ارکان ہمیشہ اس علاقے
میں موجود رہتے ہیں۔
|
|
ان مسلمانوں کو کن مسائل کا سامنا ہے؟
آرکٹک سرکل کے آس پاس رہنے والے مسلمانوں کو اپنے عقیدے پر قائم
رہنے کے لیے کئی چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خاص طور پر جب سورج کی
پوزیشن سے منسلک نماز کے شیڈول پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ انوئک میں
سال کے 50 دن تو سورج 24 گھنٹے نکلا رہتا ہے اور رات کو وہاں قطبی روشنیاں
رہتی ہیں۔ یا سال میں کم از کم 30 دن کے لیے وہاں سورج کی براہ راست روشنی
نہیں پہنچتی۔
امام مسجد صالح حسب النبی انوئک میں اپنی پہلی گرمیوں کو یاد کرتے ہوئے
بتاتے ہیں، ''پہلی بار جھٹکا سا لگا۔ میں اس بات پر یقین نہیں کر سکا کہ
میں نے زندگی میں پہلی مرتبہ پانچ وقت کی نماز پڑھی اور سورج موجود تھا۔‘‘
|
|
نمازیں مکہ کے مقامی وقت کے حساب سے
یہاں کی کمیونٹی نے ایک اصول نافذ کیا ہے کہ وہ نمازیں اسلام کے مقدس ترین
شہر مکہ کے مقامی وقت کے حساب سے ادا کریں گے۔ محمد اسد بہرور اکاؤنٹنگ میں
کام کرتے ہیں اور حال ہی میں انوئک منتقل ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے
لیے یہاں کی سفید راتوں کو ایڈجسٹ کرنا بہت زیادہ مشکل نہیں تھا کیونکہ وہ
پہلے البرٹا صوبے کے دارالحکومت ایڈمنٹن میں مقیم تھے، جہاں گرمی کے دن بھی
طویل ہوتے ہیں۔
تاہم 36 سالہ اسد کا کہنا ہے، ''لیکن اس ماحول میں ایڈجسٹ کرنا مشکل ہے، یہ
سخت قسم کا ہے۔‘‘
اس مسجد میں بیٹھے یہ مسلمان سرد موسم کو برداشت کرتے ہوئے آدھی رات کو
رمضان کا تیسرہ روزہ افطار کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ یہ سبھی کھانے کے لیے
چکن اور چاول جیسی کوئی نہ کوئی ڈش ساتھ لے کر آئے ہیں۔ ان میں عبداللہ
البکائی بھی شامل ہیں، جو کسی دوسری جگہ منتقل ہونے کی خواہش رکھتے ہیں
لیکن کھانے کے وقت خوشی سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ گپ شپ کر رہے ہیں۔
|
|
انوئک کی آبادی تقریباً 3,400 افراد پر مشتمل ہے اور مڈنائٹ سن کمیونٹی میں
زیادہ تر وہ مسلمان شامل ہیں، جو مہاجرین کے طور پر کینیڈا آئے اور بالآخر
زیادہ آمدنی کی تلاش میں شمال کی طرف چلے گئے۔ کئی لوگ بطور ٹیکسی ڈرائیور
کام کرتے ہیں۔
ایڈمنٹن سے آنے والے ایک 37 سالہ اسلامی اسکالر عبدالوہاب سلیم نے انوئک
میں مسلمانوں کو ''واضح اقلیت‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''آپ باہر
گھومتے پھرتے ہیں آپ کو ہر وقت مسلمان نظر آئیں گے، جب بھی آپ کو ٹیکسی ملے
گی، زیادہ امکان یہی ہے کہ ڈرائیور مسلمان ہی ہو گا۔‘‘ |
Partner Content:DW Urdu |