جہاں پاکستان کے شمالی علاقوں کی دنیا میں بڑی دھوم ہے
وہیں پاکستان کے تاریخی ورثے کی بھی بات کی جاتی بہت کم لوگ یہ جانتے تھے
کہ اس کرہ ارض کا محیط اور قطر بھی کئی صدیاں پہلے اسی سر زمین پر بیٹھ کر
نکالا گیا۔ کیا واقعی البیرونی نے پاکستان میں موجود نندنا فورٹ میں جا کر
اس سیارے یعنی زمین کی پیمائش کی تھی؟
البیرونی نے اس کرۂ ارض کی پیمائش کے لئے کیا طریقہ اختیار کیا تھا۔ گو اس
بارے میں مختلف روایات موجود ہیں لیکن یہ بھی کہا جاتا ہے کہ زمین کے حجم
کا حساب کتاب کرنے کی ضرورت سب سے پہلے اس وقت محسوس کی گئی جب عباسی خلیفہ
المامون نے اس وقت کے نامور اسکالرز کی ایک ٹیم کو اس کام پر لگایا اور
انہیں زمین کے سائز کا حساب کتاب کرنے کا کام سونپا۔ انہوں نے دوپہر کے
فاصلے پر سورج کا زاویہ 1 ڈگری تبدیل کرتے ہوئے اس کا فاصلہ ڈھونڈنا شروع
کیا۔ اس طریقہ کار میں مسئلہ یہ تھا کہ صحرا کی سخت گرمی میں دو نکتوں کے
مابین ایک بڑی سیدھی لکیر کے بیچ فاصلوں کی پیمائش کرناآسان کام نہ تھا ۔
اسی لئے سائنسدان ابوریحان البیرونی نے زمین کی پیمائش کے لئے نندنا فورٹ
کا انتخاب کیا۔ لیکن اس سے پہلے ایک یونانی حساب دان نے 240 قبل مسیح میں
ایروٹوستھینس Eratosthenes یعنی زمین کا محیط معلوم کیا تھا۔ اس نے سیدھی
لکڑی زمین پر کھڑی کر کے اس کے سات ڈگری پڑنے والے سائے سے یہ فیصلہ کیا کہ
زمین کے محیط کا اندازہ لگایا جائے۔ اس نے زمین کے کا محیط چھیالیس ہزار دو
سو پچاس کلو میٹر 46250 کا اندازہ لگایا تھا۔ جبکہ جدید تحقیق ناسا کے
مطابق یہ ریڈئیس تقریباً 6371کلو میٹر مانا جاتا ہے۔ البیرونی نے زمین کا
یہ کوئی عام کھنڈر نہیں یہ دسویں صدی کے مشہور سائینسدان ابوریحان البیرونی
کی لیبارٹری ہے، جس میں انھوں نے ان پہاڑوں کی چوٹیوں کا استعمال کر کے
زمین کی کل پیمائش کا صحیح اندازہ لگایا البیرونی کے مطابق زمین کا قطر
3928.77 تھا جبکہ موجودہ ناسا کی جدید کیلکولیشن کے مطابق 3847.80 ھے یعنی
محض81 کلومیٹر کا فرق_ البہرونی نے ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں لکھیں، وہ
محمود غزنوی کے دربار سے منسلک تھے، افغان لشکر کے ساتھ کلرکہار آئے،
افغانوں نے البیرونی کے ڈیزائن پر انکو یہ لیبارٹی بنا کر دی، ریڈئیس 6335
کلو میٹر ناپا تھا۔ تاریخ میں حساب دانوں اور سائنسدانوں نے کئی مرتبہ اس
پر تجربات کئے۔
البیرونی کے اس تجربے کی جانب جو اس نے نندنا فورٹ میں بیٹھ کر کیا اور جو
ناسا کی موجودہ اور نئی تحقیق کے مطابق کچھ فرق کے ساتھ درست مانا جاتا ہے۔
تاریخی قلعہ نندنا ضلع جہلم کی تحصیل پنڈ دادن خان میں واقع ہے کھیوڑہ،
نندنا مندر، کٹاس مندر، ملوٹ مندراورتخت بابری بھی نندنا قلعے کے ساتھ واقع
ہیں۔ ابو ریحان البیرونی کو گیارہویں صدی کا ایک بہت بڑا سائنس دان مانا
جاتا ہے۔ وہ مشہور جغرافیہ دان، تاریخ دان، ریاضی دان، محقق، ستارہ شناس،
اور علم ارضیات، نباتات اور علمِ فلکیات کے ماہر تھے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ
محمود غزنونی کے دربار کے رکن بھی رہے۔ یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ انہوں
نے برصغیر کے اس خطے میں قیام کے دوران کٹاس راج کی ایک درس گاہ سے سنسکرت
بھی سیکھی۔ البیرونی نے جب اس کام کا بیڑا اٹھایا تو انھوں نے نندنا کے
پہاڑ کو اپنے حساب کتاب کے لئے منتخب کیا ۔ قلعہ نندنادسویں صدی عیسوی کی
تعمیر ہے۔ اس میں ایک شہر اور مندر کے آثار بھی ہیں۔ اس پر ہندو شاہی سلسلے
کے راجا گیارہویں صدی تک حکمران رہے اس کے بعد محمود غزنوی کی حکومت قائم
ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے کہ اس کے اندر ہندو شاہی راجا انند پال
کے بیٹے جے پال نے شیو کا مندر تعمیر کرایا تھا۔ سنسکرت میں نندنا کا مطلب
بیٹا ہے اس قلعے کا نام اِندر دیوتا کے دیو مالائی باغ کے نام پر رکھا گیا
۔
ابو ریحان البیرونی نے اس قلعے میں قیام کی اجازت طلب کی اور یہاں بیٹھ کر
یہاں کی زبان سیکھی، یہاں کی تہذیب و ثقافت سے آگاہی حاصل کی- اپنے سائنسی
تجربات کے لئے رصد گاہ بنائی ۔ البیرونی نے الجبراء اور ریاضی کے اصولوں پر
عمل کرتے ہوئے یہ بتایا کہ زمین کا قطر یا محیط کتنے میل کا ہے- البیرونی
کا یہ حساب آج کے جدید دور میں بھی 43 فٹ کے فرق سے درست ہے - البیرونی نے
یہیں بیٹھ کر اپنی مشہور زمانہ کتاب ''کتاب الہند'' لکھی۔ البیرونی کو ودیا
ساگر کا خطاب دیا گیا۔
انھوں نے زمین کے ریڈیئس اور اس کے طواف کا حساب کتاب کرنے کے لئے واقعی
ایک بہترین طریقہ نکالا۔ یہ طریقہ انتہائی آسان بھی تھا اور درست بھی ثابت
ہوا۔ اس مسئلے کے حل تک پہنچنے کے لئے صرف چار پیمائشوں کی ضرورت تھی اور
پھر اس پر مثلثی مساوات کا اطلاق کر دیں۔ ۔ جبکہ البیرونی نے قلعہ نندنا کو
اس کی خاص جغرافیائی اہمیت کی بناپر منتخب کیا۔ انھوں نے پہلے اس پہاڑ کی
اونچائی معلوم کی پھر سطح سمندر سے اس کی اونچائی کا معائنہ کیا۔ اس کے بعد
ایک پروٹیکٹر نما آلے کی مدد سے تجربات کئے۔ وہ کئی دن تک کئی بار یہ تجربہ
کرتے رہے۔ اس طرح انھوں نے زمین کی پیمائش حاصل کر لی۔
نندنا قلعے پر کافی عرصے سے کوئی توجہ نہیں دی گئی تھی۔ محکمہ آثار قدیمہ
نے اس کی تاریخی حیثیت کے باوجود اب تک کوئی خاص توجہ نہیں دی تھی۔ یہ
کھنڈر ضلع جلہم کے شہر پنڈ دادنخان میں واقع ہیں۔ یہ کوئی عام کھنڈر نہیں
یہ دسویں صدی کے مشہور سائینسدان ابوریحان البیرونی کی لیبارٹری ہے،
البہرونی نے ڈھائی سو سے زیادہ کتابیں لکھیں، وہ محمود غزنوی کے دربار سے
منسلک تھے، افغان لشکر کے ساتھ کلرکہار آئے، افغانوں نے البیرونی کے ڈیزائن
پر انکو یہ لیبارٹی بنا کر دی،
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنے ورثہ کی کیسے قدر کرتے ہیں، اس میں
ماسوائے چند بکریاں چرانے والوں کے علاوہ کوئی نہیں جاتا، اگر اس کا خیال
نہیں رکھا گیا تو بہت ہی جلد ہم اس عجوبہ سے محروم ہوجائینگے، اس کے علاوہ
یہاں تک جانے کا راستہ بھی ٹھیک نہیں ہے، اس کے لئے تقریبا ایک گھنٹہ کا
پیدل سفر کرنا پڑے گا،
حکومت کو چاہیئے کہ دوبارہ سے ٹھیک کرے اور تعلیمی اداروں کو چاہیئے کہ
Study Tours ایسے تاریخی مقامات پر کروایا کریں۔ یہ جو سٹڈی ٹور مری، نتھیا
گلی وغیرہ میں کیئے جاتے ہیں یہ صرف اور صرف تفریح ہی ہو سکتے ہیں ان سے
تعلیمی مقاصد حاصل نہیں کیئے جا سکتے،
1974 میں سوویت یونین نے ابو ریحان محمد بن البیرونی پر ایک فلم بھی بنائی
ھے جس کا نام ھے ابو ریحان البیرونی، البیرونی کی وفات 1050 میں غزنی
افغانستان میں ہوئی اور وہیں آسودہ خاک ہیں
|