ووٹرلسٹیں اور ہم

مروجہ سیاست کے بارے میں ہمارے ہاں کئی طرح کے نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ اسے عبادت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں،کچھ ”اسلامی“کا سابقہ اس کا حصہ بنانے پر مصر ہیں،کچھ اسے مغربی سیاست قرار دیتے ہیں، کچھ سیاست کو جھوٹ ،فریب ،منافقت اور دغا بازی کا کھیل قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ جمہوریت اور سیاست کو کفر تک کہہ جاتے ہیں۔اسی طرح اس مروجہ سیاست میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی چیز”ووٹ“کا معاملہ بھی ہمیشہ متنازعہ رہا بعض لوگ موجودہ سیاسی سسٹم کے تحت ووٹ دینے کو گناہ سمجھتے ہیں،بعض انتخابی سیاست کو کوئلوں کی دلالی قرار دیتے ہیں،کچھ کا خیال ہے کہ ووٹ آج کے دور کی بڑی طاقت اور واحد عوامی ہتھیار ہے جبکہ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ ووٹ شہادت کی مانند ہے اور شہادت کے جملہ احکام اور اصولوں کے مطابق اسے ادا کرنا ایک دینی کام ہے جبکہ کچھ لوگ انتخابی سیاست اور ووٹ دینے کو کارِ لاحاصل سمجھ کر اس سے غیر متعلق رہتے ہیں ۔الغرض سیاست اور ووٹ کے معاملے میں مدتوں سے بحث مباحثے کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گا۔اس حوالے سے نظری طور پر بہت کچھ کہنے سننے کی گنجائش ہے لیکن اس وقت عملی طور پر ہمیں جس صورتحال کا سامنا ہے ہمیں اس کے حوالے سے حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔اگرچہ موجودہ دور کو ”عبوری دور “ہی کہا جائے گا اور اصل میں تو صحیح معنوں میں اسلام کے حقیقی اور مکمل نظام کے نفاذ کی جدوجہد ہی ہونی چاہیے تاہم اس وقت کی دستیاب زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ووٹ کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ عوام کے پاس ووٹ ہی وہ واحد طاقت،اختیار اور ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ موجودہ سسٹم میں تبدیلی کے لیے کچھ کردار ادا کرسکتے ہیں تو بے جانہ ہوگا لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کبھی اس طاقت اور ہتھیار کی اہمیت کا صحیح طور پر ادراک کیاگیا اور نہ ہی اسے ڈھنگ سے استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔

ہمارے ہاں ہوتا یہ رہا کہ جو نیک،شریف،مخلص اور محب وطن لوگ ہیں وہ ووٹ دینے کو ”دنیا داری“اور کارِ لاحاصل سمجھتے ہوئے اس سے دامن بچاتے رہے جبکہ اَشرارنے نہ صرف یہ کہ اس ہتھیار کا بے دریغ استعمال کیا بلکہ جعلی ووٹر لسٹوں اور شاطرانہ چالوں کے ذریعے اس ملک کی خاموش اکثریت کو ہمیشہ یرغمال بنائے رکھا۔ وقت پرعوام کی اکثریت ووٹ دینے لینے سے لاتعلق رہتی ہے لیکن جب ووٹ کے لین دین کا کاروبار کرنے والے مسلط ہوجاتے ہیں تو پھر سب بیٹھ کر رونا دھونا شروع کردیتے ہیں۔ ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ اسی صورتحال سے دوچار رہے لیکن بالخصوص علماءکرام ،مذہبی طبقہ اور دین سے شغف رکھنے والوں نے تو اس معاملے میں اس حد تک تغافل برتا کہ یہ معاملہ سرے سے مذہب پسندوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔

ہم ابھی تک مخمصے میں ہیں اور یہ فیصلہ ہی نہیں کر پائے ہیں کہ ہمیں کرنا کیا ہے؟ہونا تو یہ چاہیے کہ یا تو ہم سب کو بیک آواز ہو کر موجودہ مغربی طرزِ سیاست ،انتخابی معرکہ آرائی اور جمہوری سسٹم کو کلی طور پر مسترد کردینا چاہیے اور اس کے مقابلے میں صحیح اسلامی نظام لانے کی بھر پور جدوجہد کرنی چاہیے یا اگر ہم فوری طور پر ایسا نہ کرسکیں تو کم از کم ووٹ کے معاملے میں تو ہمیں یکسو ہو جانا چاہیے۔ اس وقت چونکہ ووٹر لسٹوں کی تیاری کا عمل جاری ہے،پرانی ووٹر لسٹوں کی تصحیح کی جارہی ہے یہی وہ موقع ہے جب ہم اس معاملے میں اپنی 64سالوں پر محیط کوتاہی اور لا تعلقی کا ازالہ کرسکتے ہیں۔ووٹ دینے نہ دینے کا مرحلہ تو بعد میں آئے گا لیکن اس وقت ووٹ کا اندراج کروانے کی ضرورت ہے نہ صرف اپنا ووٹ بلکہ اپنے جملہ متعقلین اور اپنے گرد وپیش میں جتنے ایسے لوگ ہیں جو دین دار، نیک اور شرفاءہیں ان کو بھی اس بات کی ترغیب دینی چاہیے بلکہ اس کی مہم چلانی چاہیے کہ سب لوگ اپنا اپنا ووٹ ضرور بنوائیں۔

بلکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس کے شناختی کارڈ کے حامل طلباء،اساتذہ اور ملازمین کے ووٹوں کا بھی اندراج لازمی طور پر کروایا جائے،ہم لوگوں کے پاس نہ تو ووٹ کی طاقت ہوتی ہے ،نہ سماجی تعلقات،نہ عوامی خدمات کا اہتمام تبھی تو بعض لوگ بڑی آسانی سے مدارس کے اساتذہ وطلباءکو غیر مقامی قرار دیتے ہیں اور اجنبی مخلوق تصور کرنے لگتے ہیں اور اگر خدانخواستہ کبھی ہمارے اوپر کوئی مشکل بن پڑتی ہے تو اسباب کے درجے میں جب ہم اپنے علاقے کے اراکین قومی وصوبائی اسمبلی اور دیگر اثر ورسوخ رکھنے والے لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور وہ پکڑائی ہی نہیں دیتے کیونکہ ان کی دلچسپی تو صرف”ووٹ“میں ہے اورہمارے پاس ”ووٹ“کا ہتھیارہی نہیں لیکن اگر ہم باقاعدہ مہم چلاکر ووٹوں کا اندراج کروائیں، ووٹر لسٹوں کی تیاری کے عمل میں اپنا پورا وزن ڈالیں تو کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ وہ ارباب مدارس اور دین دار طبقہ کو نظر انداز کر سکے اس کے ساتھ ساتھ اس ووٹ کی طاقت سے دیگر بہت سے دینی اور دنیوی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں بشرطیکہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے ۔

ظاہر سی بات ہے کہ ووٹ کی وجہ سے انقلاب تو نہیں آسکتا لیکن موجودہ نظام میں کچھ بہتری کی امید کی جاسکتی ہے،اگر دیکھا جائے تو افرادی قوت سب سے زیادہ مذہب پسندوں ،محب وطن لوگوں اور شرفاءکے پاس ہے۔ یہ لوگ اس ملک میںکثرت میں ہونے کے باوجود کسی شمار قطار میں ہی نہیں ۔ہماری کتنی جماعتیں ہیں جن کے کارکنان کی تعداد لاکھوں میں ہے،اس وقت پورے ملک میں مساجد ومدارس کی شکل میں ایک بہت بڑا نیٹ ورک ہمارے پاس ہے اگر ہمیں اپنی اس قوت وطاقت کا اندازہ ہو جائے اور اس کے ذریعے ہم جدوجہد کریں تو اگر کامل صبح طلوع نہ بھی ہوپائی تو کم ازکم داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر تو آسکتی ہے اتنے گھٹا ٹوپ اندھیرے تو باقی نہیں رہیں گے۔ انشااللہ
Abdul Qadoos Muhammadi
About the Author: Abdul Qadoos Muhammadi Read More Articles by Abdul Qadoos Muhammadi: 120 Articles with 142145 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.