اس ملک میں ایک آدمی کے علاوہ وہ
کونسا سیاستدان ہے جسے آزاد عدلیہ، آزاد میڈیا اور آزاد نیب کا ادارہ
”وارا“ کھاتا ہے، ایڈمرل فصیح بخاری کے تقرر پر مسلم لیگ (ن) اتنی بے چین
کیوں ہے اور حکومت نے حیران کن طور پر ایک صاف شفاف شہرت کے حامل شخص کو
چیئرمین نیب کا عہدہ دے کیسے دیا، یہ صرف دو سوال نہیں ان دو سوالوں کے
جواب میں ایک پوری ”کتاب“ بند ہے۔ سپریم کورٹ عرصہءدراز سے این آر او کو
غیر آئینی قرار دے کر سوئس عدالتوں کو خط لکھنے کا حکم دے چکی ہے لیکن اسے
حیلے بہانوں سے ٹالا جارہا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصہ سے نیب کا ادارہ اپنے سربراہ
کی عدم موجودگی کی وجہ سے یتیمانہ زندگی بسر کررہا تھا، سپریم کورٹ اس
سلسلہ میں بھی حکومت کو کئی ڈیڈ لائنز دے چکی ہے لیکن صدر یا وزیر اعظم کے
کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی یا انہیں کوئی ایسا بندہ نہیں مل رہا تھا
جس کے کندھوں پر رکھ کر اپنی بندوق چلائی جاسکتی۔چیئر مین نیب کا تقرر
کیونکہ آئینی طور پر ہوتا ہے اس لئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں
چیئرمین نیب کی تقرری کے لئے قائد حزب اختلاف اور چیف جسٹس سے ”معنی خیز
مشورہ“ (Meaningful Consultation) کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔ Meaningful
Consultation کی شرط کو پورا کرنے کے لئے صرف ایک خط لکھ دینا ضروری نہیں
ہوتا جبکہ حکومت نے قائد حزب اختلاف کو صرف ایک خط لکھ کر یہ باور کرادیا
کہ ان سے مشورہ کرلیا گیا، حکومت کے علم میں تھا کہ یقینا چیئرمین نیب کی
اس طرح تقرری کے بعد حزب اختلاف سپریم کورٹ میں اسے چیلنج کرے گی اور اس
طرح حکومت کے ہاتھ میں دو چیزیں آجائیں گی۔ پہلی چیز یہ کہ وہ ایک صاف
ستھرے اور اچھی شہرت کے حامل شخص کو چیئرمین نیب تقرر کررہی تھی لیکن مسلم
لیگ (ن) کو یہ شخص بھی قابل قبول نہیں جبکہ دوسری بات یہ کہ جب سپریم کورٹ
میں اس کیس کی سماعت ہورہی ہوگی تو اس کو بہانہ بنا کر سوئس کورٹس کو خط
لکھنے سے ایک بار پھر اسے آزادی حاصل ہوجائے گی۔ اگر مسلم لیگ (ن) واقعتاً
چیئرمین نیب کی تقرری کو چیلنج کرتی ہے تو حکومت کی سکیم کامیابی سے ہمکنار
ہوجائے گی اور ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ مسلم لیگ (ن) کے کھانے اور
دکھانے کے ”دانت“ علیحدہ علیحدہ ہیں اور اندر کھاتے دونوں جماعتیں مل کر
ایک بار پھر عوام کو بیوقوف بنا رہی ہیں۔ پنجابی میں ایک لفظ بولا جاتا ہے
”واری سٹہ“جس کا مطلب صاحبان ”عقل و دانش“ خوب سمجھتے ہیں اور ”واری سٹہ“
میں ایک دوسرے سے بدلے لئے جاتے ہیں جبکہ ان دونوں جماعتوں کے ”واری سٹہ“
کا نشانہ پاکستان اور یہاں کے عوام بن رہے ہیں۔اگر سپریم کورٹ میں چیئرمین
نیب کی تقرری کو چیلنج کیا جاتا ہے اور سپریم کورٹ اپنے سابقہ احکامات کی
روشنی میں اسے غیر آئینی قرار دیدیتی ہے تو حکومت کی ایک بار پھر چاندی
ہوجائے گی اور اسے دوبارہ چیئرمین کی تقرری کے لئے ”مناسب“ وقت مل جائیگا،
کہیں پلاننگ بھی تو یہی نہیں کہ ایسا ہی ہوتا رہے جب تک کہ اسمبلیاں اور
حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرلیتیں کیونکہ مقدمات تو ”شرفا“ کے خلاف
بھی بہرحال ابھی تک زیر التوا ءپڑے ہوئے ہیں جو چیئرمین نیب کا ہی انتظار
کررہے ہیں۔
پاکستان میں دیوانی مقدمات بہت لمبا عرصہ چلتے ہیں جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے
کہ جب کوئی مقدمہ دائر کیا جاتا ہے تو اس کے مختلف مراحل پر مختلف قسم کی
درخواستیں دائر کردی جاتی ہیں، ان درخواستوں کی دائری کے بعد اصل کیس رک
جاتا ہے اور سال دو سال اس درخواست کے مختلف مراحل میں نکل جاتے ہیں، ان
میں سے کچھ درخواستیں ایسی ہوتی ہیں جن سے نہ تو کسی فریق کا فائدہ ہوسکتا
ہے نہ نقصان لیکن ان کی وجہ سے وقت بہرحال ضائع ہوجاتا ہے، اچھے وکیل جو
کیس کو کم سے کم وقت میں نمٹانا چاہتے ہیں، وہ ایسی درخواستوں کے جواب،
جواب الجواب اور بحث وغیرہ میں وقت ضائع کرنے کی بجائے عدالت میں فوراً
بیان ریکارڈ کروا دیتے ہیں کہ فریق مخالف کی درخواست کو منظور کرنے میں
انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس درخواست کی منظوری
سے ان کے موکل کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ و احتمال نہیں ہے اس لئے وقت
بچانا بہتر آپشن ہے، اگر مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ فصیح بخاری ایک صاف
ستھرے اور انصاف پسند شخص ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ریزرویشن کے ساتھ ان
کی تقرری کو قبول کرلے تاکہ مقدمہ بازی میں جو وقت ضائع ہونے کا خدشہ ہے وہ
نہ ہو بلکہ اس کے بعد اسے چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ سے یہ درخواست کرے کہ اب
چیئرمین نیب کا تقرر ہوچکا ہے اس لئے چیئرمین کو فوری حکم دیا جائے کہ وہ
سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت سوئس کورٹس کو فوری خط تحریر کرے اور پاکستان
کا سرمایہ، پاکستان کے عوام کی امانت اربوں ڈالر واپس وطن میں لانے کے
انتظامات کرے ، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ”بوجوہ“ مسلم لیگ نواز ایسا نہیں کرے
گی۔کیونکہ اندرکھاتے جو ڈیلیں ہوچکیں ہیں اور جن میں انٹرنیشنل ضمانتیں بھی
دی جا چکی ہیں ان سے کیسے صرف نظر کیا جاسکتا ہے؟سپریم کورٹ اور چیف جسٹس
اگر مذکورہ بالا ”ڈیل “ میں شامل نہیں ہیں تو انہیں از خود بھی اس معاملہ
کو دوبارہ اٹھانا چاہئے اور چیئرمین نیب کو فوری طور پر سوئس کورٹس کو خط
لکھنے اور بعد کے امور کی تکمیل کے لئے حکم جاری کرنا چاہئے تاکہ ملک و قوم
کے لوٹے ہوئے اربوں روپے واپس آسکیں اور اس بندر بانٹ کو نہ صرف ختم کیا
جاسکے بلکہ مستقبل میں اس کا راستہ بھی روکا جاسکے....! |