حامد یزدانی کا شعری مجموعہ "ہم ابھی رستے میں ہیں"

کینیڈا میں مقیم جدید تر طرز اظہار کے نمائندہ شاعر حامد یزدانی کا تازہ ترین شعری مجموعہ "ہم ابھی رستے میں ہیں" میرے سامنے ہے۔ یہ ایک ایسی تخلیقی کاوش ہے جو اردو شاعری میں ایک نیا زاویہ متعارف کراتی ہے۔ یہ کتاب نہ صرف ایک ادبی کاوش ہے بلکہ شاعر کی فکری اور تخلیقی سفر کی داستان بھی ہے۔ اس کتاب میں شاعر نے اپنی ذات، تجربات، داخلی کرب اور زندگی کی حقیقتوں کو مختلف شعری رنگوں میں جلوہ گر کرکے پیش کیا ہے۔ یہ اردو شعری مجموعہ نعت، سلام، غزل، اور نظم کی شکل میں اردو شاعری کے مختلف اصناف کا دل کش گل دستہ ہے۔
حامد یزدانی کا شمار منفرد لب و لہجے کے شاعروں میں ہوتا ہے جن کی شاعری میں روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت کا بھی حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ فیصل آباد میں پیدا ہونے والے حامد کی تمام تر تعلیم و تربیت تو لاہور میں ہوئی مگر ان کا تخلیقی دائرہ پاکستان سے نکل کر بین الاقوامی سطح پر بھی پھیل چکا ہے۔اس کاثبوت ان کے متعدد شعری مجموعے اور نٹر کی کتابیں ہیں۔ ان کی علمی و فکری تربیت میں ان کے والد گرامی محترم یزدانی جالندھری نے بھی نمایاں کردار ادا کیا اور سوشیالوجی اور سوشل ورک جیسے سماجی علوم میں اعلیٰ تعلیم نے بھی۔ اور پھر سال ہا سال یورپ اور کینیڈا، شمالی امریکا میں ان کے قیام کے تجربات و مشاہدات کی جھلکیاں بھی حامد کی شاعری کو ایک تازہ رنگ و آہنگ عطا کرتی ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کتاب "بسم اللہ" سے شروع ہوتی ہے، جو ایک روحانی اور جمالیاتی آغاز ہے۔ اس کے بعد دعائیہ شاعری، نعت اور سلام شامل کیے گئے ہیں، جو شاعر کی فکری وابستگی اور عقیدت کے اظہار کا ایک خوبصورت نمونہ ہیں۔
حامد یزدانی کی شاعری کئی جہتیں ہیں جن میں وجودی اور داخلی کرب شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں ایک طرف ذات کی گہرائیوں کا سفر دکھائی دیتا ہے، تو دوسری طرف خارجی دنیا سے جڑے احساسات بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ان کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے ہر مصرعے کی تہہ میں وقت دبے پاؤں چل رہا ہو۔ عمر کا سفر اپنی سی رفتار سے رواں دواں محسوس ہوتا ہے۔ امید، یاس، یاد اور نسیان ؛ زندگی کے ہر موسم کا حسن اس شعری مجموعے میں ورق در ورق بکھرا ہوا ہے:
پرانی شال میں قوس قزح کو بھرتے ہوئے
زمیں نے آینہ دیکھا نہیں سنورتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔
دبک کے خیمہ نسیاں میں بیٹھ رہتے ہیں
تمھاری یاد بھری بارشوں سے ڈرتے ہوئے
۔۔۔۔۔۔
میں تلاوت کررہا ہوں رحل نسیاں پر تمھیں
تم بھی تسبیح فراموشی پہ دہرانا مُجھے
۔۔۔۔۔۔
بہت سادہ سی اک دیوار تھی دیوار ہستی بھی
مرے ہونے کی حیرت نے مجھے حیران رکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔
کہ پھر کانوں میں آغاز سفر کی گھنٹیاں گونجیں
ابھی تو آئے تھے، دہلیز پر سامان رکھا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے بھی خواب میں آنے کا وقت بھول گیا
مجھے بھی یاد نہیں آنکھ کب لگی میری
۔۔۔۔۔۔
ان اشعار کی روشنی میں ہم صاف دیکھ سکتے ہیں کہ حامد کی شاعری میں روایت اور جدیدیت دونوں کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ یزدانی کی شاعری روایت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے جدید حسیت کا بھی احاطہ کرتی ہے۔ ان کی غزلوں میں روایتی استعارے نئی معنویت کے ساتھ ابھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں جب کہ ان کی نظمیں جدید طرز احساس کو عیاں کرتی ہیں۔
ان کی شاعری میں علامتی اور استعاراتی دونوں رنگ موجود ہیں۔ ان کے ہاں علامتوں کا استعمال نہایت باریک بینی سےاس کیا گیا ہے، جو ان کی شاعری کو فکری اور تخلیقی وسعت عطا کرتا ہے۔
یزدانی کی شاعری میں ہجرت اور شناخت کا کرب بھی شامل ہے۔ چونکہ شاعر دیارِ غیر میں مقیم رہے ہیں اس لیے ان کی شاعری میں ہجرت، اجنبیت اور شناخت کے مسائل نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں۔ وہ اپنے تجربات کو ایک آفاقی سطح پر لے جا کر پیش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، جس سے قاری ان کے کلام سے جڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ان کی ایک نظم دیکھیے جس کا عنوان ہے "ایک تنہائی"۔
رات کو آسمان کہتے ہیں
یاد کو بادبان کہتے ہیں
ڈھلتا بادل کہ خواب کی کشتی!
استعارے زبان رکھتے ہیں
شب ڈھلے پھر مکالمہ ہوگا
یہ ستارے زبان رکھتے ہیں
چاند، اک بے زباں تماشائی
تابہ لاہور۔۔۔ایک تنہائی !
ناقدین نے اپنی اپنی آراء میں ان کے فن و شخصیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ غلام حسین ساجد لکھتے ہیں:
"ہم ابھی رستے میں ہیں، فاصلاتی دوری کو مٹاتی ہوئی کتاب ہے۔ اس میں فردا کی طرف بڑھتے ہوئے قدم اور ماضی کی طرف لپکتی ہوئی نگاہ ہے اور ان دونوں کو ایک کرتی ہوئی تخلیقی بصیرت۔"
غلام حسین ساجد کا یہ تجزیہ شاعر کی فکری وسعت اور اس کے منفرد اسلوب کی طرف اشارہ کرتا ہے، جو ماضی اور حال کے درمیان ایک پل کا کام کرتا ہے۔
شاہدہ حسن لکھتی ہیں:
"دیار مغرب میں اس طرز کی شاعری کسی نعمت سے کم نہیں۔ حامد یزدانی کے باطنی تجربات کی سچائیوں کا خوبصورت اظہار ہے۔"
یہ بات واضح کرتی ہے کہ حامد یزدانی کی شاعری عالمی سطح پر جدید اردو شاعری میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہے۔
نسیم سید رقمطراز ہیں:
"حامد یزدانی زبان و بیان پر حاکمانہ قدرت رکھتا ہے۔ ہر نظم، ہر غزل، ہر شعر تاثیر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کی شاعری اس کی شخصیت کا جیتا جاگتا عکس ہے۔"
ناقدین اور مشاہیر ادب کی یہ تنقیدی رائے اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ حامد کی شاعری محض الفاظ کی بازیگری ہی نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں ایک مضبوط فکری ڈھانچہ موجود ہے۔
نوید صادق لکھتے ہیں:
"حامد یزدانی کی نظموں میں قاری کو ایک پر اسرار کیفیت کا احساس ہوتا ہے، جہاں عام مناظر بھی ایک خاص رنگ میں ڈھل جاتے ہیں۔"
نوید صادق کی یہ رائے اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یزدانی کی شاعری میں تخلیقی اظہار کا ایک منفرد انداز ہے، جو ان کے فن کی پختگی کا عکاس ہے۔
حامد یزدانی غزل کے منفرد لب و لہجہ کے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں روایت سے جڑی ہوئی ہیں، مگر ان میں تازگی اور جدید طرز احساس بھی نمایاں طور پر موجود ہے۔ ان کے اشعار میں معنوی تہہ داری کے ساتھ ساتھ فکری گہرائی بھی موجود ہے۔
حامد یزدانی کی نظمیں آزاد خیالی اور علامتی طرز بیان کا عمدہ نمونہ ہیں۔ ان میں سماجی مسائل، نفسیاتی پیچیدگیاں اور فلسفیانہ سوالات دیکھے جا سکتے ہیں۔
حامد یزدانی کی شاعری میں زبان کا چُست استعمال اور ترکیبوں کی جدت دیکھی جا سکتی ہے۔ ان کی شاعری میں کلاسیکی شعری روایت کا تسلسل بھی نظر آتا ہے اور جدید اسلوب کی تازگی بھی۔
"ہم ابھی رستے میں ہیں" محض ایک اردو شعری مجموعہ ہی نہیں بلکہ ایک فکری، تخلیقی اور جمالیاتی تجربہ بھی ہے جو قاری کو سوچنے، محسوس کرنے اور زندگی کے مختلف زاویوں پر غور و فکر کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ حامد یزدانی کی شاعری داخلی اور خارجی تجربات کا حسین امتزاج ہے جو اردو شاعری میں ایک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا۔ ان کی نظموں میں تصویریت، غزلوں میں گہرائی اور مجموعی طور پر ان کے کلام میں ایک منفرد اسلوب بھی موجود ہے جو انہیں ہم عصر شعرا میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔
یہ کتاب اردو کے شعری ادب میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگا اور ہر اس قاری کے لیے دلچسپی کا باعث ہوگا جو جدید اردو شاعری کی فکری اور فنی جہات کو سمجھنا چاہتا ہو۔

Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali
About the Author: Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali Read More Articles by Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali: 9 Articles with 3907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.