ملک خداداد پاکستان کی تاریخ اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی
جب تک ڈاکٹرسرعلامہ محمد اقبال کا نام سنہری حروف سے شامل نہ کیا جائے- ان
کی شخصیت کی ہمہ گیری سے انکار ممکن نہیں - وہ بیک وقت ایک بہت بڑے
شاعر،عظیم مفکر، فلسفی، مدبر، مفسر اور سیاستدان بھی تھے - بلاشبہ انہیں ''
حکیم الامت '' کہا جاتا ہے اور وہی اس کے لائق ہیں - علامہ اقبال کی شاعری
کا احاطہ ایک تحریر تو کیا انگنت کتابوں میں بھی ممکن نہیں - یہ مختصر سی
تحریر، مغربی جمہوری نطام کے بارے میں علامہ محمد اقبال کے نطریات پر ہلکی
سی روشنی ڈالنے کی ایک ادنی سی کاوش ہے- چونکہ سیاسی نطام کا اطلاق، قوم پر
ہوتا ہے، اس لیے مغربی سیاسی نظام کے نظریات پر بحث سے قبل، ایک قوم کی
تعریف کو سمجھنا ضروری ہے -
قوم عربی زبان کا لفظ ہے - عام طور پر افراد کا ایسا گروہ جن کی ثقافت اور
رسم و رواج کی اقدار مشترک ہوں اور جن کے پاس زمین کا ایک قطعہ ہو، جہاں وہ
اپنی اقددار کے مطابق زندگی گزارتے ہیں، ایک قوم کہلاتے ہیں - مثال کے طور
پرجغرافیاِ ء اعتبار سے ہر ملک کے شہری، دنیا میں ایک قوم کی حیثیت سے
پہچانے جاتے ہیں – مزید براں، ایک مدک کے مختلف صوبوں میں بسنے والے، اپنی
قوم کی نسبت، اپنے صوباء علاقوں سے بھی کرتے ہیں – مثال کے طور پر، امریکہ
میں رہنے والے امریکی ہیں، پنجاب سے تعلق رکھنے والے پینجابی ہیں –ہندوستان
کے پنجابی، ہندوستانی بھی ہیں اور اسی طرح پاکیستان کے پنجابی، پاکستانی
بھی ہیں –
علامہ اقبال کے نزدیک قوم کی اساس جغرافیاء حدود اور معاشرتی اقدار نہی،
بلکہ '' مذہب '' ہے۔وہ اپنی شہرہ آفاق نظم '' جواب شکوہ '' [1] میں فرماتے
ہیں،
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب _ باہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں
گویا علامہ اقبال کے نزدیک، ایک قوم کے لیے الگ زمین کا خطہ ہونا، رواج اور
ثقافت کا ایک ہونا شرط نہیں بلکہ قوم، کہلانے کی واحد شرط مذہب کا ایک ہونا
ہے – حدیث مبار کہ ﷺ ہے:[2]
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ:تم مسلمانوں کو آپس کی
رحمت،آپس کی محبت،آپس کی مہربانی میں ایک جسم کی طرح دیکھو گے، جب ایک عضو
بیمار ہو جائے تو سارے جسم کے اعضائبے خوابی اوربخار کی طرف ایک دوسرے کو
بلاتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تمام مسلمان ایک جسم کی
مانند ہیں، خواہ ملسمان علاقاء اعتبار سے دینا میں کسی بھی خطے سے تعلق
رکھتے ہوں – گویا مسلمانوں میں جمعیت کی بنیاد، مذہب ہے - اگرعلامہ اقبال
کے شعر کو اس حدیث مبارکہ کے پیرائے میں سمجھا جائے تو یہ مصرع '' قوم مذہب
سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں '' یہ پیغام دیتا ہے کہ اگرمسلمانوں کو
بحیثیت قوم اپنے آپ کو تصور کرنا ہے تو انھیں مذہب کو بنیادی جزو قرار دینا
ہو گا –
ماہر تعلیم وماہر اقبالیات، افضل رضوی، اپنی شہرہ آفاق کتاب ''در برگ و
لالہ گل '' میں، پیغام اقبال کی تشریح کرتے ہوےَ لکھتے ہیں [2 1]مسلمان نہ
تو افغانی ہیں، نہ ترک اور نہ ہی تاتاری ہیں، اسلام ایک ایسا لاثانی مذہب
ہے کہ جس میں رنگ و نسل کی تمیز حرام ہے''
افضل رضوی، علامہ اقبال کے مذہب کو قومیت کی بنیاد قرار دینے کے نظریے کی
وضاحت کرتے ہوےَ ''در برگ و لالہ گل '' میں [ 2 2]رقم طراز ہیں،
''علامہ کا یہ اعتقاد غیر متزلزلہ ہے کہ ملت محمدیہ صل الللہ علیہ والہ
وسلم، حدود وزماں سے آزاد ہے - علامہ اس بات پر پختہ یقینن رکھتے ہیں کہ
ملت کا نظام آئین کے بغیر قائم نہیں ہو سکتا اور ملت محمدیہ صل الللہ علیہ
والہ وسلم کا آئین قرآن ہے ''
قوم کی تعریف کو سمجھنے کے بعد، مغربی جمہوری نظام کے بارے میں علامہ اقبال
کے نظریات کے بارے میں بحث کے لیے، علامہ کے اشعار کو، ان کے فکر اور نظریہ
کا عکاس، تصور کیا گیا ہے۔ علامہ اقبال، '' ضرب کلیم '' [3] میں فرماتے ہیں
کہ،
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
اگر اس بات کو اس طرح سمجھا جائے کہ علامہ اقبال کے نزدیک موجودہ جمہوریت
کا نظام درحقیقت ایک ایسا نظام ہے جس میں فلاح عامہ کی اہمیت سے زیادہ ان
لوگوں کی راےَ کی اہمیت ہے جو کہ اس قابل نہیں ہیں کہ وہ معاشرے کی فلاح و
بہبود کے لئے صحیح فیصلہ کر سکیں، تو غلط نہیں ہوگا- اس نقطہَ نظر کی وضاحت
کے لئے، میں پاکستان کے انتخابات کو زیر بحث لانا چاہوں گا -
2018 ء کے نتخابات میں کم و بیش58 فیصد لوگوں نے اپنے ووٹ کا حق استعمال
کیا - گویا مجموعی طور پر42 فیصد سے زیادہ لوگوں نے اپنی رائے کا اظہار
نہیں کیا –غور طلب بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال
کیا، ان کی سیاسی بصیرت اور معاملہ فہمی کو جانچنے کا کوئی پیمانہ موجود
نہیں -
اگر اس کو اسلامی تاریخ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے
کہ خلافت راشدہ کا دور جو آج تک مسلمانوں کی تاریخ کے سنہری باب میں سے ہے
وہ حکومتیں، موجودہ جمہوری نظام کے تحت نہیں تھیں –
پاکستان کی مثال لے لیجئے جس میں شرح خواندگی بہت کم ہے، زیادہ تر آبادی
دیہات میں رہتی ہے – غربت اور مہنگائی کی وجہ سے، ایک عام انسان، ساری
زندگی روز گار کی ادھیڑ بن میں گزار دیتا ہے - ایسے لوگ مجموعی طور پر کیا
فیصلہ کر پائیں گے کہ ملک کا نظام چلانے کے لیے کون سا شخص بہتر ہے اور کون
نہیں؟
حقیقت تو یہ ہے کہ جمہوری نظام اسلامی نقطہ نظر کے مترادف نہیں بلکہ مخالف
ہے –اس نطام میں اگر زیادہ تر لوگ غلط فیصلہ کریں تو اس غلط فیصلے کو صحیح
تسلیم کر لیا جاتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہئے کہ اگر ایک گروہ کی بات صحیح ہے،
چاہے ان کی تعداد کم سے کم ہی کیوں نہ ہو تو ان کی صحیح بات کو اہمیت دی
جائے اورتسلیم کیا جاےَ –مزید براں، اگر کویَ بات غلط ہے، اور اسے صحیح
کہنے والے بہت زیادہ ہوں، تو اس غلط بات کو، غلط ہی سمجھا جائے –
علامہ اقبال کے مندرجہ بالہ اشعار کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے میں ہر
فرد کی راَےَ برابر نہی ہو سکتی – یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک اعلی تعلیم
یافتہ شخص [ عالم دین، پروفیسر، ڈاکٹر، اسانذہ وغیرہ ] کی راےَ کی وہی
اہمیت ہو جو ایک مزدور، سبزی فروش، مالی یا درزی کی ہے - یہاں کسی پیشے کی
تضحیک مقصود نہی، بلکہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے صحیح فیصلہ کرنے کی
صلاحیت،
زیربحث ہے – موجودہ جمہوری نظام میں، ایک پروفیسر اور سبزی فروش کا ووٹ اور
راےَ کی اہمیت برابر ہے –
یہاں پر یہ توجہ دلانا مقصود ہے کہ اقبال کی سوچ اس بات کی عکاس تھی کہ
موجودہ جمہوری نظام ہمارے معاشرے کی فلاح و بہبود کے لئے نہیں بلکہ اہل
مغرب اور مغربی سوچ کی پیروی کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا - حقیقت تو یہ
ہے کہ خلافت اسلامیہ کا خاتمہ، اہل مغرب کا ایک خواب تھا - پہلی جنگ عظیم
کے خاتمے سے پہلے تک دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان بستے تھے، جہاد کے ایک
اعلان پر، پوری دنیا سے اسلام کے پروانے اپنی جان نچھاور کرنے کے لئے حاضر
ہوجاتے تھے – جب سے خلافت ا سلامیہ کا خاتمہ ہوا ہے تب سے مسلمانوں کی
تقسیم در تقسیم کا سلسلہ جاری ہے - کیونکہ اب ہراسلامی ملک اپنے آپ کو ایک
الگ قوم کے طور پر تصور کرتا ہے جبکہ اجتماعی طور پر مسلمان ایک قوم ہیں،
اس حقیقت کو مسلمانان عالم فراموش کر چکے ہیں – یہی بنیادی وجہ ہے کہ
مسلانوں کے معاشرتی، ملی اورعالمی مسائل بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں –
ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایک دفعہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی
احادیث کی روشنی میں اور علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں اپنے آپ کو
مذہب کی بنیاد پر ایک قوم تصور کریں - اس قوم کے تصور کی صرف ایک بنیاد ہو،
یعنی لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
----------جاری ہے...........
|