یہ بات غلط ہے… کہ تم نے مجھے میری خاموشی سے جانا۔ یہ
بات غلط ہے کہ تم نے میرے الفاظ کو میرے ارادوں کا عکس سمجھا۔ یہ بات بالکل
ہی غلط ہے کہ تم نے میرے رویے کو میرا غرور، میری تحریر کو میرا دعویٰ، اور
میرے فاصلوں کو میری نفرت سمجھ لیا۔
میں ہرگز وہ نہیں ہوں جو تم نے سمجھا۔ میں تو اکثر خود سے بھی چھپا رہتا
ہوں، تو تم کیا جانو مجھے؟ میری ہر بات کے پیچھے ایک اَن کہی ہوتی ہے، ہر
مسکراہٹ کے پیچھے ایک درد، اور ہر خاموشی کے پیچھے ایک فریاد۔ میں کسی پہلو
کا نام نہیں، میں ایک مکمل کہانی ہوں۔ اور تم نے بس ایک صفحہ پڑھا اور کتاب
کو بند کر دیا۔ کیوں؟
تم نے میری تحریریں پڑھیں، مگر اُن میں جو درد چھپا تھا، وہ نظر انداز کر
دیا۔ تم نے میرے جملے سنے، مگر اُن کے پیچھے چھپی وہ تھکن، وہ الجھن، وہ
سوال نہ سمجھے۔ تم نے میرے مزاح کو میرا بےفکری سمجھا، اور میری سنجیدگی کو
سرد مہری۔ تم نے میری خودداری کو غرور کہا، میری بےنیازی کو بےرخی، اور
میری چپ کو جرم۔ حالانکہ یہ سب کچھ، سچ پوچھو، تو میری بےبسی تھی۔
تم کہتے ہو کہ میں بدل گیا ہوں۔ کہ میں وہ نہیں رہا جو کبھی ہوا کرتا تھا،
کہ اب میری باتوں میں وہ مٹھاس نہیں، میری تحریروں میں وہ سچائی نہیں، میرے
لہجے میں وہ خلوص نہیں۔ تم نے یہ سب کہا، اور شاید دل ہی دل میں خود کو
قائل بھی کر لیا۔ مگر کیا کبھی تم نے ایک لمحہ نکالا، صرف ایک لمحہ، جس میں
تم مجھ سے پوچھ لیتے: "کیا تم ٹھیک ہو؟" نہیں، تم نے وہ لمحہ مجھے نہیں
دیا۔ تم نے مجھے سنا نہیں، بس پڑھا۔ دیکھا نہیں، بس اندازہ لگایا۔ مجھے
سمجھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ خود کو یہ یقین دلا دیا کہ جو تمہیں دکھائی دے
رہا ہے، بس وہی سچ ہے۔ اور میں؟ میں خاموش رہا۔ کیونکہ میں ہر بار خود کو
کھول کر تمہارے سامنے نہیں رکھ سکتا تھا۔ میں ہر بار اپنی دل کی زمین چیر
کر تمہیں اُس کے اندر کی فصلیں نہیں دکھا سکتا تھا جن میں کچھ امید کے بیج
تھے، کچھ پچھتاووں کے کانٹے، اور کچھ خاموش دعائیں۔
میں کچھ کہنا چاہتا تھا، مگر لفظوں کا ساتھ چھوٹ گیا۔ میں کچھ دکھانا چاہتا
تھا، مگر چہروں پر نقاب چڑھے تھے۔ میں کچھ ثابت کرنا چاہتا تھا، مگر تم
پہلے ہی فیصلہ کر چکے تھے۔ اور پھر، تم خاموشی سے ہٹ گئے۔ نہ کچھ کہا، نہ
کچھ پوچھا۔ اور میں کھڑا رہا، اُسی موڑ پر، جسے تم نے "میرا راستہ" کہا اور
خود راستہ بدل لیا۔
جانتے ہو، مجھے سب یاد ہے۔ وہ لمحے جب میں نے چاہا کہ تم میری بات سمجھو،
بغیر جُملوں کے۔ وہ دن جب میں نے تمہیں اپنے قریب پایا، لیکن تم میری
خاموشی سے بدظن ہو گئے۔ میری یہ کمزوری بن گئی کہ میں دل کا حال زبان پر نہ
لا سکا۔ اور تم نے اسے میرے لاپروا ہونے کا نام دے دیا۔
تم نے سوچا کہ میری باتوں میں خود نمائی ہے۔ حالانکہ میں تو خود سے بھی
چھپتا پھرتا ہوں۔ تم نے کہا کہ میری نظر میں تکبر ہے جبکہ وہ نظر تو برسوں
سے نم ہے، اور میں کسی کو دکھانے سے ڈرتا ہوں کہ کہیں میرے اندر کی کمزوری
ظاہر نہ ہو جائے۔
تم یہ سمجھے کہ میں تمہیں بھول گیا ہوں، کہ مجھے تمہاری کوئی پروا نہیں،
مگر یہ بات، یہ بات غلط ہے۔ مجھے پروا ہے۔ تمہاری بھی، تمہارے اندازوں کی
بھی، تمہارے ان سوالوں کی بھی جو تم نے مجھ سے کبھی پوچھے ہی نہیں مگر اُن
کے جوابات تم نے خود ہی بنا لیے۔ کتنی عجیب بات ہے نہ، کہ میں ایک زندہ،
سانس لیتا، درد سہتا انسان ہوں، مگر تم نے مجھے ایک کہانی کا کردار سمجھ
لیا جس کی ہر حرکت کو تم خود لکھنا چاہتے ہو، اور جب وہ ویسا نہ کرے، تو تم
اُسے جھوٹا سمجھ لیتے ہو۔ کاش تم سمجھ پاتے… کہ میری ہر دوری کے پیچھے ایک
مجبوری ہے، میری ہر تلخی کے پیچھے ایک پچھتاوا، اور میری ہر تحریر کے پیچھے
ایک نامکمل چیخ، جو صرف اُسی کے لیے ہے جو سننا چاہے۔
میں اکثر سوچتا ہوں، کاش تم ایک بار میرے دل کے اندر جھانک سکتے۔ دیکھ سکتے
کہ یہ دل کتنا نرم ہے، کتنا زخمی ہے، کتنا سہما ہوا ہے۔ میں کوئی پتھر
نہیں، مجھے بھی دکھ ہوتا ہے، مجھے بھی لگتا ہے جب کوئی میرے بارے میں غلط
سوچتا ہے۔ لیکن میں چیخ کر اپنی صفائی پیش کرنے کا ہنر نہیں رکھتا۔ میں فقط
سہتا ہوں، سمیٹتا ہوں، اور چپ رہتا ہوں۔ اور ہاں، یہ چپ، جو تمہیں تکبر
لگتی ہے، وہ دراصل میری وہ زبان ہے جو لفظوں کے بغیر بولتی ہے۔ وہ التجا ہے
کہ مجھے میری ظاہری باتوں سے مت پرکھو۔ میرا اصل میری باتوں کے بیچ چھپا
ہے، میری خاموشیوں کے سائے میں، میری آنکھوں کی نمی میں۔ تو خدارا… مجھے اس
نظر سے مت دیکھو جو صرف عیب تلاشتی ہے۔ مجھے وہ موقع تو دو کہ میں اپنے
لفظوں، اپنے لہجے، اپنے ارادوں کی وضاحت دے سکوں۔ کبھی یہ مت سوچو کہ میں
بدل گیا ہوں، یا میرا دل سخت ہو گیا ہے۔ نہیں، میں آج بھی وہی ہوں، شاید
اُس سے بھی زیادہ حساس، اور تمہارے غلط گمانوں سے زیادہ زخمی۔
یہ بات، جو تم نے اپنے دل میں بٹھا لی ہے، یہ بات غلط ہے۔ میں وہ نہیں ہوں
جو تم نے سمجھا ہے۔ میں صرف چاہتا ہوں کہ تم ایک بار میرے اندر جھانک کر
دیکھو، ایک بار میرے لفظوں کے پیچھے کی کہانی سنو، ایک بار اپنی رائے کو
میرے قریب بیٹھا کر سوال کرو، شاید تمہیں دکھائی دے کہ میری ظاہری خاموشی
میں ایک طوفان ہے، وہ طوفان، جو تمہاری دوری کے بعد سے رُکا نہیں۔
میری باتیں ہمیشہ مکمل نہیں ہوتیں، کیونکہ میرے سننے والے ہمیشہ جلدی میں
ہوتے ہیں۔ تم بھی تھے، شاید اب بھی ہو۔ لیکن میں آج بھی وہی ہوں۔ میری
پہچان میرے لفظوں میں نہیں، میری خاموشی میں چھپی ہے۔ اگر تم سن سکو، تو
سنو، میں وہی ہوں جسے تم کبھی اپنا سمجھتے تھے۔ بس ایک گزارش ہے، کبھی
فیصلہ نہ کرو، جب تمہارے دل میں گمان ہو۔ کبھی چھوڑ نہ دو، جب تمہارے ذہن
میں شک ہو۔ کبھی چھین نہ لو وہ اعتبار، جو میں نے تمہیں دیا، اپنے سب جذبوں
سمیت۔ کیونکہ جب تم میرے بارے میں کوئی بات سوچتے ہو، تو اُس کا صرف ایک
پہلو سچ ہوتا ہے۔ باقی سب غلط۔ اور اکثر… تم جو بات مان لیتے ہو، وہی سب سے
زیادہ غلط ہوتی ہے۔
میں تم سے کچھ نہیں مانگتا۔ بس یہ چاہتا ہوں کہ اگر کبھی میرا رویہ تمہیں
اجنبی لگا، تو اسے دشمنی نہ سمجھنا۔ اگر کبھی میری بات تمہیں سخت لگی، تو
اسے نفرت نہ ماننا۔ اگر کبھی میں خاموش ہو جاؤں، تو مجھے بھول جانا مت۔
کیونکہ تمہارا گمان، اکثر میری حقیقت کو مار دیتا ہے۔ اور میں ہر بار ایک
نیا جنازہ اُٹھاتا ہوں، اپنے ہی وجود کا، اپنے ہی اعتبار کا، اپنی ہی پہچان
کا۔
تم نے جو سوچا، جو مانا، جو سمجھا، وہ سب کچھ… واقعی، بہت غلط تھا۔ تو مجھے
مجھ سے بہتر جاننے والے، خدارا، یہ بات مت مانو، یہ بات غلط ہے۔
|