فلسطین کی باتیں(شہداو قیدیوں کی داستان )

فلسطین کی باتیں(شہداو قیدیوں کی داستان )
تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش
(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)
کچھ قومیں تاریخ لکھتی ہیں، اور کچھ… اپنا خون دے کر تاریخ بنتی ہیں۔فلسطینیوں کا شمار تاریخ انسانیت کے انہی ابواب سے ہے جنھوں نے تاریخ بنائی ہے ۔جن کے کردار گفتاراور عزم مصم نے رہتی انسانیت تک کو ایک پیغام دے دیا کہ غیرت ،حمیت اور جرات لغت میں موجود لفظوں کا عملی مظاہرہ کیا ہوتاہے ۔ہم فلسطین کی باتیں کے نام سے مستقل ایک سیریز لکھ رہے ہیں ۔ہمارا مقصد اللہ پاک کی رضا اور آنے والی نسلوں کو یہ باور کروانا ہے کہ تمہارے مسلمان بہن بھائی کیسے تھے ۔انھوں نے کیسی کیسی تاریخ رقم کی ۔
ہم جب فلسطین کی بات کرتے ہیں تو شہد و قیدی ایک ایسا لفظ محسوس ہوتاہے جیسے یہ لفظ اسی قوم پر ثابت ہوتاہے ۔دشمن عیار پوری طاقت لگاکر شہید کرتاہے بچ جانے والوں کو قید کی صعوبتوں میں ڈالتاہے ۔آئیے تاریخی پس منظر میں ان شہد ا و قیدیوں کے حالات کی ورق گردانی کرتے ہیں ۔
اے ٹک ٹاک ،انسٹاگرام ،فیس بُک ،یوٹیوب پر انٹرٹین ہونے والوپلیز کچھ ہوش کے ناخن لو ۔یہ آگ کچھ بعید نہیں کہ تمہاری دہلیز پر کب آن پہنچے ۔کف افسوس ملنے سے لاکھ بہتر ہے کہ پیش بندی کرلی جائے ۔آئیے فلسطین کے شہد او قیدیوں کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں جان لیتے ہیں ۔
قارئین:فلسطین ان قوموں میں سے ہے۔جہاں ماں اپنے بیٹے کو کفن دے کر رخصت کرتی ہے۔جہاں قیدی جیل کی سلاخوں کو روز سورج کی کرن سمجھ کر پکارتا ہے۔اور جہاں آزادی، صرف خواب نہیں — قسم، دعا، اور قربانی کا دوسرا نام ہے۔
فلسطینی شہید، وہ چراغ ہیں جن کے بجھنے سے روشنی کم نہیں، راستہ واضح ہوتا ہے۔یہ صرف جان دینا نہیں،
بلکہ یہ کہنا ہے:“تم بندوق سے مجھے مار سکتے ہو، مگر میرے خواب کو نہیں۔ کون شہید ہوا؟
طالبعلم، جو سکول سے واپسی پر گولی کھا گیا۔صحافی، جو کیمرے کے ساتھ شہید ہوا۔ڈاکٹر، جو زخمیوں کو بچاتے بچاتے خود مرہم بن گیا۔ننھا بچہ، جس کے ہاتھ میں کھلونا تھا، پتھر نہیں۔
قارئین :
1948 سے لے کر آج تک 100,000 سے زائد فلسطینی شہداء، ہزاروں کی تعداد میں بچے اور خواتین شہید۔ ہر شہادت کے ساتھ ایک ماں کا دل، ایک باپ کی امید، اور ایک قوم کی صبر آزما تاریخ بھی شہید ہوئی۔ہر شہید کے جنازے پر صرف تکبیر نہیں ہوتی۔ایک قوم کی گونج، ایک امت کا سوال، اور ظلم کے خلاف خاموش نعرہ ہوتا ہے
قارئین:
اللہ گواہ ہے جب میں یہ لفظ لکھ رہاہوں میری آنکھوں سے رشک ندامت رواں ہیں ۔میں کتنا بے بس ہوں ۔ڈاکٹرظہوراحمددانش تمہارے اختیار میں کچھ بھی تو نہیں ۔تم ویڈیوز دیکھتے رہ گے تمہارے اپنوں کے لاشے پڑے ہوئے تھے ۔پیارے اللہ سوری ۔۔اللہ پاک سوری ۔پلیز مجھ سے ناراض مت ہونا۔میں کم ظرف کچھ بھی نہیں کرسکا۔لکھ کرتیرے غضب سے بچنا چاہتاہوں ۔میری لاج رکھنا۔
پيارے قارئین:جب دشمن تمہیں میدان سے نہ نکال سکے،تو وہ تمہیں جیل میں ڈال دیتا ہے۔مگر فلسطینی قیدیوں کے قفس، قافلہ بن گئے۔ قیدی کون ہیں؟اساتذہ، جنہوں نے علم پھیلایا۔طلباء، جنہوں نے سوال کیا۔مائیں، جنہوں نے آواز بلند کی۔صحافی، امام، شاعر، نعت خواں، نابالغ بچے — سب "قانون" کے تحت "دہشتگرد" قرار دیے گئے
قارئین:
1967 سے اب تک 1 ملین سے زائد فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید۔اس وقت بھی 5,000+ سیاسی قیدی
ان میں سے سینکڑوں نابالغ بچے اور خواتین۔کئی قیدی 20 سے 40 سال سے مسلسل قید میں۔اگر آزادی خواب ہے،
تو فلسطینی قیدی وہ لوگ ہیں جو نیند کی قیمت پر جاگتے ہیں۔
فلسطینی قیدیوں نے اپنے حقوق کے لیے بارہا بھوک ہڑتال کی ۔نہ دوا، نہ خوراک، صرف ارادہ۔"خدر عدنان"، "مروان برغوثی"، "احمد سعدات" جیسے نام آزادی کے استعارے بن چکے ہیں۔
قارئین:کیا آپ جانتے ہیں؟ دنیا میں سب سے زیادہ سیاسی قیدی فلسطینی ہیں۔ اسرائیلی جیلوں میں “ایڈمنسٹریٹو ڈیٹینشن” یعنی بغیر مقدمے کے طویل قید عام ہے اسرائیلی جیلوں میں تشدد، تنہائی، ذہنی اذیت معمول کی بات ہے
قیدیوں کے اہل خانہ کو ملاقات کے لیے بھی ہتک آمیز مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔
بھائیودوستو!!
فلسطین کے شہداء اور قیدی صرف علامتیں نہیں وہ ایک زندہ پیغام ہیں۔ظلم جتنا بھی طاقتور ہو۔قربانی کا جذبہ اگر بیدار ہو جائے۔تو زنجیریں کمزور ہو جاتی ہیں، اور دھرتی گواہ بن جاتی ہے کہ حق والوں کو دبایا جا سکتا ہے، ہارایا نہیں جا سکتا!"
یہ 1948 کی بات ہے جب اسرائیلی قیام کے وقت تقریباً 15,000 فلسطینی شہید ہوئے۔531 دیہات تباہ، 8 لاکھ مہاجر
1987سے 1980 تک فدائین حملوں، اسرائیلی جوابی کارروائیوں میں ہزاروں شہداء۔جن کا کوئی جامع ریکارڈ نہیں، مگر اندازاً 25,000 سے زائد شہداء کی تاریخ ملتی ہے ۔اسی طرح 1987سے 1993تک 1,262 فلسطینی شہید جن میں 241 بچے شامل تھے۔
قارئین :
ستم کی کالی رات ابھی ختم نہیں ہوئی ۔2000سے 20005تک 4,973 فلسطینی شہیدان میں 1,000 سے زائد بچے اور 200 سے زائد خواتیناسرائیلی فورسز کے ہاتھوں بڑی تعداد میں عام شہری شہید ہوئے۔اسی طرح 2008سے 2009تک صرف 22 دن میں 1,417 فلسطینی شہید ہوئے ۔خودغرض و بے حس سالگنے لگاہوں ۔یہ فگر لکھنا تو آسان ہے لیکن جس کے گھر میں یہ کہرام مچایہ درد و تکلیف وہی جان سکتاہے ۔
میری طرح ایک لکھاری قلم کی جولانیاں دکھانے میں شد و مد سے کام لے کر اپنا مضمون تو مکمل کرلے گالیکن وہ حدت و شدت و غم کی آندھیاں تو ان مظلوم فلسطینوں سے برداشت کیں ۔میری بس ہوگئی ۔مزید لکھنا بے بسی ہوگئ بس آخری اعداد و شمار بیان کرے کے اجازت چاہوں گا۔
قارئین:الجزیرہ کی ریپورٹ کے مطابق غزہ کی پٹی (اکتوبر 2023 تا اپریل 2025) تک 51,065 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ 116,505 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تقریباً 4,500 افراد ملبے تلے دبے ہوئے یا لاپتہ ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم (اکتوبر 2023 تا مارچ 2025)تک 902 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں کم از کم 17 بچے شامل ہیں۔
قارئین: فلسطینی قیدیوں کی تعداد (اپریل 2025)تک9,900 فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔ 3,498 افراد بغیر کسی مقدمے یا فردِ جرم کے انتظامی حراست میں ہیں۔400 بچے قید ہیں، جن میں سے 100 سے زائد بغیر کسی عدالتی کارروائی کے حراست میں ہیں۔ 27 خواتین قید میں ہیں۔ 1,886 افراد کو "غیر قانونی جنگجو" قرار دے کر غزہ سے گرفتار کیا گیا ہے۔
اب مزید کیا لکھوں لکھنے کو کچھ بچاہی نہیں ۔اب تمام اسلامی ممالک کے مسلمانو ان خبروں اور اطلاعات و ویڈیوز پر بیٹھ کر تبصرہ کرو۔ایسا نہی تو ویسا۔اگر یوں ہوتاتوہم یوں کردیتے ۔یہ تو دوملکوں کی زمینوں کے تنازعے کی جنگ ۔یہ تو مجاہدین نے غلط کیا ۔جو من میں آئے کہتے رہو۔مگر اس وقت سے ڈرو۔جب کائنات کا مالک تم سے حساب کرے گا۔
اے پیارے اللہ !!
میں پھر سوری کرتاہوں ۔میں ظہوراحمددانش تیراایک عاجز بندہ ہوں ۔پلیز مجھے معاف کرنا۔میں لکھ کر اپنے حصے کی کوشش کرکے تیرے عتاب و غضب سے بچ کر تیرے فضل کے سائبان تلے پناہ چاہتاہوں ۔مالک توکوئی معجزہ کردے ۔میرے فلسطینیوں کے لیے بھیج سے ابابیر ۔دشمن کو اپنے طاقت و قدرت کا جلودہ دکھادے ۔اے پیارے اللہ ۔کرم کرم کرم کرم کرم ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 398 Articles with 625815 views i am scholar.serve the humainbeing... View More