فلسطین کی باتیں (سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں فلسطین)
(Dr Zahoor Danish, karachi)
فلسطین کی باتیں (سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں فلسطین) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) اسلام کا ایک خوبصورت دور سلطنت عثمانیہ کا دورتھا۔جب شرق و غرب میں اسلام اور مسلمان کی کی بات سُنی بھی جاتی تھی اور سمجھی بھی جاتی تھی اور دنیا کو امن ،بھلائی ،خیرخواہی ملی ۔اس دور میں فلسطین کا جغرافیہ اور حالات کیا تھے ۔آئیے ہم ایک طائرانہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ ہم فلسطین کے بارے میں جان سکیں ۔ قارئین فلسطین، جو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین ہے، صدیوں سے طاقتور سلطنتوں کا مرکز اور روحانیت کا محور رہا ہے۔ مگر جب یہ عظیم خطہ 1516ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ سایہ آیا، تو اس کی تاریخ میں ایک ایسا دور شروع ہوا جو امن، عدل، تہذیب، اور مذہبی رواداری کا روشن باب بن گیا۔ قارئین: 1516ء میں سلطنتِ عثمانیہ کے عظیم خلیفہ سلطان سلیم اوّل نے مملوک سلطنت کو شکست دی اور فلسطین، شام، اور مصر کو خلافتِ عثمانیہ میں شامل کر لیا۔یہ وہ وقت تھا جب پورا مشرقِ وسطیٰ خلافت کے زیرِ سایہ آیا اور القدس (یروشلم) بھی عثمانیوں کی حفاظت میں آ گیا۔ سلطنتِ عثمانیہ نے فلسطین میں تمام مذاہب کو مساوی مذہبی حقوق دیے:مسلمان، عیسائی اور یہودی — سب اپنے عقائد کے مطابق عبادات کرنے میں آزاد تھے۔عثمانی خلیفہ سلطان عبدالمجید اول نے 1852ء میں ایک مشہور قانون جاری کیا جسے "Status Quo Law" کہا جاتا ہے، تاکہ مقدس مقامات پر تمام مذاہب کی روایات کا تحفظ کیا جا سکے۔ القدس (یروشلم) کی تعمیر و ترقی سلطنتِ عثمانیہ نے یروشلم (القدس) کو نہ صرف روحانی مرکز سمجھا بلکہ تعمیراتی شاہکاروں سے آراستہ بھی کیا: سلطان سلیمان اعظم (Suleiman the Magnificent) نے 1535ء میں یروشلم کے گرد مشہور دیوارِ قدس (Old City Walls) تعمیر کرائی، جو آج بھی موجود ہے۔مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرہ کی تزئین و آرائش کی گئی۔ پانی کے کنویں، وضو خانے، مدارس، اور مسافر خانوں کی تعمیر کی گئی۔ ترقیاتی کام اور انفراسٹرکچر عثمانی حکمرانوں نے فلسطین میں ترقیاتی کاموں پر خصوصی توجہ دی:سڑکیں اور پُل تعمیر کیے گئے۔زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں — زیتون، انجیر، گندم کی پیداوار میں اضافہ ہوا۔حجاز ریلوے لائن (Hejaz Railway) تعمیر کی گئی جو دمشق سے مدینہ تک جاتی تھی، اس کا ایک حصہ فلسطین سے گزرتا تھا۔یہ منصوبہ حاجیوں کی سہولت اور عرب دنیا کے ربط کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ تعلیم و علم کا فروغ عثمانی دور میں مدارس و مکاتب کا قیام ہوا جہاں قرآن، فقہ، حدیث، اور سائنس کی تعلیم دی جاتی تھی۔یروشلم، نابلس، الخلیل (Hebron) اور غزہ جیسے شہروں میں علمی مراکز قائم ہوئے۔صوفی سلسلے مثلاً نقشبندی، قادری، اور رفائی سلسلہ عام تھا، جنہوں نے روحانی ماحول کو فروغ دیا۔ عوامی زندگی اور رواداری عثمانی افسران اور مقامی فلسطینی قائدین کے درمیان قریبی تعلقات تھے۔فلسطینی عوام کو مقامی سطح پر نمائندگی دی گئی۔ عیسائیوں کو چرچ بنانے کی، اور یہودیوں کو عبادت گاہوں کی اجازت حاصل تھی۔یہ وہ دور تھا جب فلسطین میں مختلف مذاہب کے ماننے والے امن کے ساتھ ایک ساتھ رہتے تھے — نہ کوئی دیوار تھی، نہ نفرت۔ فلسطین، خلافت کے سائے میں سلطنتِ عثمانیہ کا دور فلسطین کے لیے روحانی وقار، معاشی استحکام، اور سماجی ہم آہنگی کا دور تھا۔یہی وہ خلافت تھی جس نے مسجد اقصیٰ کو تحفظ دیا، بین المذاہب بھائی چارے کو فروغ دیا، اور فلسطین کو علم، روحانیت، اور عدل کا گہوارہ بنا دیا۔اور جب 1917ء میں برطانیہ نے قبضہ کیا، تو فلسطین نے وہ پرامن دور کھو دیا، جو چار صدیوں تک سلطنت عثمانیہ کے زیرِ سایہ قائم رہا۔ یعنی سلطنت عثمانیہ کے دور میں فلسطین کا رنگ ہی جداتھا۔چہار سوامن و سکون تھا۔لیکن آج ہم فلسطین کی حالت دیکھ کر کف افسوس ملتے ہیں ۔دل خون کے آنسو رورہاہوتاہے ۔اللہ پاک تمام امت مسلمہ کی خیر فرمائے مظلومین کی مدد فرمائے ۔آمین
|