ان دنوں میں سیال شریف دارالعلوم ضیاء شمس الاسلام ہائی
سکول و ڈگری کالج میں ڈیوٹی سرانجام دے رہا تھا۔ اس لیے اس سفرنامہ کا آغاز
سیال شریف سے ہی کر رہا ہوں۔
میرا یہ سفر سیال شریف تحصیل ساہیوال ضلع سرگودھا سے یکم جون بروز بدھ صبح
5 بجے شروع ہوا۔ اس مرتبہ پھر موٹرسائیکل پر سفر کا ارادہ بنا۔ ویسے بھی
میدانی علاقہ میں بائک پر سفر کرنا ہو تو جتنا صبح ہو سکے شروع کریں تاکہ
دھوپ تیز ہونے سے پہلے آپ آدھا سفر کد چکے ہوں ۔ سیال شریف سے شاہ پور شہر
(سڑک کافی جگہوں سے ٹوٹی ہے، ابھی نئی بنانے کیلئے پر تول رہے پہلے معلوم
ہوتا تو میں چوک گروٹ سے گروٹ شہر والا راستہ اختیار کرتا) پہنچا۔ شاہ پور
سے خوشاب (خوشاب سے ڈھوڈا بھی خریدا)، کٹھہ سگھرال سے پہاڑی پر سفر شروع
ہوا جو کلر کہار سے ہوتا ہوا چکوال پہنچا۔ کلر کہار سے چکوال کا روڈ بھی
زیر تعمیر ہے موٹر سائیکل کی سپیڈ 40 سے زیادہ نہ ہو سکی۔
یوں سمجھ لیں کہ عشق کا گھوڑا دلکی چال چلتا ہوا منزل کی طرف رواں دواں تھا۔
چکوال سے پہلوان کی ریوڑیاں خریدیں تاکہ میزبانوں کیلئے کچھ تحفہ ہو جائے۔
چکوال سے جی ٹی روڈ شاندار ہے پنڈی کی طرف، وہاں سے روات کی طرف سفر شروع
کیا شاندار روڈ بن چکا ہے روات سے اڈیالہ لنک روڈ کو پکڑا اور پہلی منزل
باغ راجگان کا گاؤں تھا۔ یہاں میزبان حافظ محمد عمران قادری صاحب سے ملاقات
ہوئی۔ حافظ صاحب ماشاء اللہ ہالینڈ نشین ہیں اور یہ ان کا آبائی علاقہ ہے۔
یہاں حافظ صاحب اپنی زمینوں میں ایک خوبصورت وسیع مسجد تعمیر کر رہے ہیں جس
کا نام جامع مسجد البتول رکھا ہے۔ ماشاءاللہ مسجد البتول کی تعمیر پر کام
جاری ہے بنیادوں سے پہلے لینٹر تک پہنچ چکا ہے۔ باغ راجگان کی مسجد دیدار
مصطفیٰ کا وزٹ کیا۔ اس مسجد پر جی آرسی کا کام ابھی مکمل ہوا ہے جو فیصل
آباد کے مرزا برادران نے پیسے لیکر بخوبی انجام دیا۔ واپسی پر بحریہ ٹاؤن
فیز 8 ایکسٹینشن کی سائٹ کا دورہ کیا، کھانا کھایا اور کھنہ پل کی طرف جانے
کیلئے کمر بستہ ہوا۔ بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے اندر سے گزرتا ہوا ڈی ایچ اے
بریج کو کراس کرکے جی ٹی روڈ وہاں سے پرانا ایئرپورٹ روڈ کا لنک لیکر اسلام
آباد ایکسپریس وے پروہاں سے کھنہ پل جا پہنچا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں فیصل
آباد سے میرے ساتھی مقصود بھائی پہنچ رہے تھے اور اس سفر میں وہ میرے ہمسفر
ہونے والے تھے۔
موسم میں حدت تھی اس لیے اوور ہیڈ بریج کے سائے میں جا کھڑا ہوا یہیں پر
ایک نوجوان جو بائیکیا کی موٹر سائیکل رائڈ کرتا ہے وہ پاس آ کر رکا۔ میں
حیران تھا کہ میں خود موٹرسائیکل پر ہوں تو یہ کیوں رکا۔ اس نے نیلے پٹکے
کی طرف دیکھ کر اشارہ کیا کہ میں بھی سیال شریف سے عقیدت رکھتا ہوں ۔ چونکہ
یہ سہ پہر چار بجے کا وقت تھا خوب گرمی تھی اس نے بھی رومال کے اوپر ہیلمٹ
پہنا تھا اتارا اور ملاقات ہوئی۔ پیر بھائی مل جائے تو سمجھو پیر سے ملاقات
ہوگئی۔ بعد پتا چلا کہ فیصل آباد کھرڑیانوالہ کے قریب گاؤں سے تعلق ہے یہاں
پنڈی میں آرمی کے ادارہ میں بطور سویلین ڈیوٹی کرتے ہیں پھر پارٹ ٹائم موٹر
سائیکل چلا کر پیسے کماتے ہیں ماشاءاللہ وہ بھی پچیس سو سے تین ہزار ڈیلی
کما لیتے ہیں۔ گپ شپ کے دوران ہی انہوں نے فالسہ کا شربت منگوا لیا شربت
پینے کے دوران ہی مقصود بھائی بھی آ پہنچے۔
ساڑھے چار بجے ہم کھنہ پل سے براستہ نیلور کوٹلی ستیاں کی جانب روانہ ہوئے
منزل ہماری آزاد کشمیر کا ضلع باغ تھا۔ استاد گوگل سے پوچھا تو سفر 120
کلومیٹر سے زیادہ بتا رہا تھا اور بقول گوگل کے ہم کو تین گھنٹے اور تیس
منٹ لگ سکتے تھے۔ اصل مسئلہ جو درپیش تھا وہ یہ کہ سورج غروب ہونے سے پہلے
پہلے ہم باغ کے آس پاس پہنچ جائیں کیونکہ پہاڑی علاقہ میں رات کے وقت سفر
میں جو مسئلہ زیادہ درپیش ہوتا وہ یہ کہ کہیں راستہ نہ بھول جائیں ورنہ
کافی دشواری پیش آتی کیونکہ گاؤں کے علاقوں میں عموما سنگ میل یا راستہ کی
رہنمائی والے بورڈ نہیں ہوتے، ہوں بھی تو اوپر سیاستدانوں کی شکلوں والے
سٹکر لگے ہوتے یا ہماری قوم اشتہارات چسپاں کردیتی یہ نہ ہو تو اپنے نام
لکھ کے اس بورڈ کی مت ضرور مار دیتے ہیں۔
کوٹلی ستیاں کے پاس جنگلات میں آگ لگی تھی اور ریسکیو کے ادارہ آگ بجھانے
میں مصروف تھے۔۔۔۔۔ مغرب ہم کو کوٹلی ستیاں ہو گئی کیونکہ جگہ جگہ روڈ پر
کام لگا تھا۔ (جاری ہے)
|