فیصل آباد سے تاؤبٹ وادی نیلم کا سفر(وقار کا سفر نامہ) دوسری قسط

یہ سفر ہم نے کشمیر کی وادی نیلم کی سیاحت کی غرض سے موٹرسائیکل پر کیا جس کی مختصر روداد پیش خدمت ہے ۔ یہ اس کا دوسرا حصہ ہے ۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے ۔

سدھن گلی میں صبح بخیر کا خوبصورت نظارہ

کوٹلی ستیاں پہنچتے پہنچتے اچھی خاصی سردی ہو چکی تھی۔ ایک جگہ چھوٹی سی بریک لی، چائے کا ایک ایک کپ پیا اور جیکٹیں نکال کے پہن لیں جبکہ برساتیاں بیگ سے نکال کے شاپر میں بطور ہینڈ کیری رکھ لیں کیونکہ آسمان پر بادل تھے اور بجلی بھی کبھی چمک کرخبردار کر رہی تھی ۔ ہماری یہ بریک جنڈالہ کے مقام پر تھی، یہاں سے آگے سفر شروع کیا۔ مقولہ میں تو سر منڈھاتے ہی اولے پڑے کے الفاظ ہیں یہاں جنڈالہ سے نکلتے ہی بارش شروع ہوگئی، ہلکی پھلکی بوندا باندی تھی لیکن بجلی مسلسل کڑک رہی تھی میرے جیسے اناڑی رائیڈر کا گھبرانہ تو بنتا ہے ناں؟ ۔

جیسا کہ گزشتہ قسط میں عرض کر چکا ہوں کہ ہم پنجاب کے میدانی علاقوں میں رہنے والے کشمیر کی بل کھاتے سڑکوں اور پھر مین سڑک سے علیحدہ ہوکر دوسری سمت نکلنے والے راستوں کے اچانک نمودار ہونے سے یکسر نابلد ہوتے ہیں۔ استاد گوگل کی رہنمائی حاصل کرنے کیلئے بائیک کے ہینڈل پر فٹ موبائل بارش کی وجہ سے اتار کر سنبھال لیا تھا۔ بس دھیان ہی نہیں گیا کہ اس کو ہینڈز فری میں لگا کے رکھوں تاکہ میپ کی آواز پر سفر کرتا چلوں۔ القصہ مختصر ایک جگہ ایک چوک آیا ہم نے اس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اسی مین سڑک پر ہی سفر جاری رکھا۔ دو کلومیٹر بعد چھٹی حس نے خبردار کرنا شروع کیا کہ شاید راستہ سے ہٹ گئے ہیں۔ موبائل نکالا تو معلوم ہوا کہ بالکل راستہ تو پیچھے چھوڑ آئے لیکن اب گوگل استاد بتا رہا تھا ٢٦ کلومیٹر بعد باغ والی دوسری سڑک پر مڑ جانا۔ سفر پھر سے شروع کیا، تین چار کلومیٹر کے بعد ایک جگہ اتفاق سے کچھ دکانیں کھلی نظر آئیں ان سے معلومات لی تو پتا چلا کہ جناب الٹے قدموں پیچھے جائیں اور اسی روڈ کو فالو کریں جس کو نظر انداز کر آئے ہو۔ کیونکہ آگے سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، وقت بھی زیادہ لگے گا اور بارش کی وجہ سے پھسلن سے بھی سامنا ہونا لازمی امر ہے ۔ سو واپس پلٹے اسی چوک کی طرف جس کو پہلے اگنور کر آئے تھے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ گوگل کی ساری باتیں ماننے والی بھی نہیں ہوتیں، مقامی لوگوں سے بھی پوچھ لینا بہتر ہوتا ہے ۔

قصہ مختصر بائک کو واپس موڑا پھونک پھونک کے گیئر بدلتا رہا اور بالکل چوکس ہوکر سفر جاری رکھا کہ اب چوک ہم سے چوک نہ جائے۔ پھر بھی احتیاطی طور پر دو بندوں سے تسلی کی راستہ پوچھ کر، چوک آیا ہم باغ کی طرف مڑ گئے۔ جیسے جیسے اترائی میں جا رہے تھے موسم کی سردی بھی کم ہوتی جا رہی تھی، دریا تھا یا کوئی نالہ بہرحال کراس کیا پولیس چیک پوسٹ سے گزرے اور باغ ہائی وے پر جا پہنچے۔ الحمدللہ اب تک سفر شاندار جا رہا تھا، سامنے سے آنے والی اکثر گاڑیوں کی لائٹس ایک ایک آن تھیں یہ عجیب اتفاق تھا یا لاپرواہی ، محسوس ہوتا کہ کوئی سکوٹر ہے بعد میں پتا چلتا کہ کار یا جیپ ہے۔ ان کا ایک لائٹ سے گزارہ ہو رہا تھا لیکن سامنے والا تذبذب کا شکار ہو جاتا کہ نکی گڈی اے یا وڈی۔

نالہ ماہل کا پل کراس کرکے حیدری چوک پہنچے، ہمارے میزبان سید ماجد گیلانی، سید شاہد گیلانی، سید ذیشان گیلانی منتظر تھے، نئے علاقہ میں ایڈریس سمجھنے سمجھانے میں تھوڑی دقت ہوتی ہے حوصلہ برقرار رکھنا چاہیے۔ مقامی بندہ تو اشارہ کرے تو دوسرا مقامی سمجھ جاتا، میرے جیسا نواں نواں رائیڈر اتنی دور سے رائڈ کر کے آ رہا ہو تو مشکل بن جاتی ہے ۔ اللہ بھلا کرکے پیٹرول پمپ والوں کا جنہوں نے بیچ چوک میں لاکر قائم کر دیا۔ ہمت ہار کے ان کو بتایا کہ فلاں پیٹرول پمپ پر کھڑے ہیں آپ ہم کو تلاش کرلیں۔ یوں مسئلہ حل ہوا اور ہم اپنے میزبانوں سے ملاقات کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

وہیں حیدری چوک کے پاس المدینہ ریسٹورنٹ پر رکے، رات کے 9 بج گئے تھے باغ پہنچتے پہنچتے ۔ کھانے کا آرڈر دیا، کھانا کھایا 10:20 ہو گئے تھے اور ایک مرتبہ پھر سفر شروع ہوا۔ ہم باغ رکنے کی بجائے باغ کے خوبصورت مقام سدھن گلی کی طرف روانہ ہو گئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی رائڈ کے بعد سدھن گلی پہنچے۔ راستے میں دو جگہ پر آوارہ کتوں 🐕🐕نے استقبال کی کوشش کی ہم پہلے ہی دو دو افراد تھے اور ایک پر ایک رائڈر اور دو بیگ تھے اس لیے معذرت کی کہ آپ کو نہیں بٹھا سکتے 😊 کیوں کہ وہ کچھ دور تک ساتھ بھاگتے آئے شاید لفٹ لینا چاہتے تھے😃۔ رات کا سماں، کتے تعاقب کر رہے ہوں تو کون سڑک کے کھڈوں کو خاطر میں لاتا ہے بھلا۔

ہم سدھن گلی پہنچے، پہلے یہاں صرف سرکاری ریسٹ ہاؤس ہوا کرتا تھا جب ہم نے لوکل ویگن پر سفر کیا تھا۔ اب تو کچھ ہوٹل بن چکے ہیں جن میں کچھ مناسب ہیں اور کچھ تقریبا مناسب ہیں۔ رات 11:45 پر سدھن گلی پہنچے سرد ہوائیں گرمی کے ستائے پنجابیوں کو سواد دے رہی تھی۔ گرین ویلی ہوٹل کا دروازہ کھٹکھٹایا مینجر شاہ صاحب نیچے تشریف لائے ، 2000 میں کمرہ ملا دو بیڈ اور دو میٹریس اور کمبل ملے، بس بیگ رکھے، اور نیم دراز ہوگئے، صبح 5 بجے شروع ہونے والا سفر رات 12 بجے 19 گھنٹوں بعد اختتام پذیر ہو چکا تھا۔ اللہ بھلا کرے یاماہا والوں کا اچھی بائک بنائی ہے جس نے اتنا لمبا سفر ہونے اور جگہ جگہ پرانے پاکستان کی سڑکوں کی موجودگی کے باوجود اس تھکاوٹ سے محفوظ رکھا جو دو سال قبل ہنڈا 125 پر اس سے آدھے سفر کے بعد ہو گئی تھی ۔ صبح کا پلان آزاد کشمیر کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک گنگا چوٹی کو سر کرنے کا بنا کر انکھوں کو بند کیا ، شاید فٹافٹ ہی آنکھ لگ گئ تھی جو فجر تک بدستور لگی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 65 Articles with 20404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.