فیصل آباد سے تاؤبٹ وادی نیلم کا سفر(وقار کا سفر نامہ) تیسری قسط

یہ سفر ہم نے موٹرسائیکل پر طے کیا۔ راستے میں کونسی مشکلات پیش آئیں اور کس کس نظارہ کو ہم نے کیسے انجوائے کیا، اس پر ہمارا خالص دیسی اندازمیں مختصر تبصرہ ۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے

گنگا چوٹی کا انتہائی اونچائی پر وسیع و عریض میدان

2 جون 2022ء بروز جمعرات
قوم کی آنکھ نجانے کب کھلے بہرحال ہماری آنکھ بروقت کھل گئی۔ سدھن گلی کی سہانی اور ٹھنڈی ٹھار صبح تھی، پانی کو ہاتھ لگایا تو اس نے جواب میں یہی فقرہ دہرایا ہوگا۔۔۔۔۔لائلپور سے آنے والو۔۔۔۔۔۔سب سے پہلے آپ نے گھبرانہ نہیں ۔۔۔۔۔ منہ دھویا کم اور گیلی ٹاکی مارنے جیسا تروتازہ زیادہ کیا۔ ناشتہ اسی ہوٹل میں بھی مل سکتا تھا لیکن حفظ ما تقدم کے طور پر ہم نے باہر چل کر کرنے کا ارادہ کیا۔ کچھ فاصلے پر ایک دیسی ٹائپ کا ریسٹورنٹ ملا گنجائش کم وبیش 20 افراد تک ہوگی شائد ۔ یہاں کا قومی ناشتہ انڈہ آملیٹ اور انڈہ فرائی ہے ساتھ چنے کا شغل بھی فرماتے۔ ہم نے انڈہ آملیٹ اور سادہ چنے آرڈر کیے۔ چنے اچھے تھے انڈے پرانے گھی میں فرائی ہوئے تھے، بہتر ہوتا ہے کہ بندہ اپنی زیر نگرانی فرائی کروا لے ، چائے بھی بہتر تھی۔ نام پڑھا تو ہوٹل کا نام نیشنل ہوٹل تھا۔ کھانے پر تبصرہ یک لخت روک دیا کہ ہوٹل بھی اسم با مسمی ہے۔ جو ہال نیشن کا ہے وہی حال اس نیشنل ہوٹل کا اس لیے بلاتبصرہ چھوڑتے ہیں۔

اپنا سامان کمرے میں چھوڑا۔ عموماً ہوٹل والوں کا چیک ان ٹائم ہوتا دن دس بجے تا بارہ بجے۔ ان سے کہا کہ ابھی گنگا چوٹی جانا ہے سامان یہاں ہی چھوڑیں گے لیکن دوسرے دن کا کرایہ نہ پڑے۔ بااخلاق استقبالیہ والے صاحب نے کہا کہ اک جگہ اکٹھا کر کے رکھ دیں۔ کمرے کی چابی دے دیں۔ کوئی دوسرا کرایہ دار آیا تو سامان باحفاظت نیچے رکھوا لوں گا اپنے پاس ورنہ وہ کمرے میں ہی رہے گا۔ آپ بے فکر ہو کے جائیں ۔ (یہ بے فکری آپ کو وادی جنت نظیر آزاد کشمیر میں عام ملے گی۔ الحمدللہ)

سامان کی ٹینشن سے فری ہو کے اپنے موٹرسائیکل اسٹارٹ کیے اور گنگا چوٹی کی طرف سفر شروع ہو گیا۔ اچھی خاصی چڑھائی ہے، شکر ہے اب بہترین روڈ بن چکا ہے ورنہ یہ سفر بھی پیدل ہوتا تھا۔ ایک دو جگہیں ایسی آئیں کہ موٹر سائیکل نے بھی ہاتھ جوڑے کہ اب تو میرا بھی سانس پھول گیا ہے۔ اسے حوصلہ دیا ایک سواری نیچے اتاری اور آگے بڑھ دیے ۔

یہاں نئے پڑھنے والے یا کشمیر سمیت کہیں بھی پہاڑی راستے پر بائک پر سفر کرنے والے میرے جیسے نویں نویں شوقین افراد کیلئے مفت مشورہ ہے کہ یا تو اکیلے ہوں ایک موٹرسائیکل پر یا پیچھے اس کو بٹھائیں جو تھوڑا ایکٹو ہو کہ جب کبھی موٹرسائیکل عاجزی دکھانے لگے وہ جلدی سے اتر کر بائی ہینڈ اسے آسرا دینے کے قابل ہو۔ہم گنگا چوٹی کے پہلے ریسٹ ایریا پہنچے، کچھ دیر آرام کیا، تصویر بازی کی بلکہ ماجد گیلانی تو اس حرکت کو تصویر کشی (ک کو پیش کے ساتھ) فرماتے ہیں (از راہ تفنن)۔ ہم بھی جانتے ہیں کہ اس سفر میں اگر کوئی بچت ہے تو وہ فوٹو بازی کی ہی ہے ورنہ خرچہ ہی خرچہ، لیکن یہ یادگار تصاویر سالہا سال تک سفر کا مزہ دوبالا کرتی رہتی ہیں ۔ اس لیے بقول سید آفتاب عظیم بخاری کے تصویر کے معاملہ میں نان سیریس نہ ہوں ۔ پوری توجہ سے بنوائیں تاکہ آپ کا وہ منظر کیمرے کی آنکھ سے مزید یادگار بن جائے۔

گنگا چوٹی کی پارکنگ جسے ہم بیس کیمپ کہیں گے ایک کھلا میدان ہے جہاں موٹرسائیکل، کار،جیپ،بس وغیرہ کو پارک کیا جاتا ہے ۔ بیس کیمپ پر پہنچے تو اچھے خاصے ٹورسٹ جمع تھے، سکول، کالجز اور یونیورسٹیز کے ٹرپ دھڑا دھڑ پہنچ رہے تھے۔ بہت کھلا میدان، وسیع پارکنگ ایریا، سواریوں کے منتظر گھوڑے بان اپنے گھوڑوں کو ادھر ادھر نسا پجا رہے تھے، سامنے بلند و بالا گنگا چوٹی ہمارے استقبال کیلئے ایستادہ تھی۔ اب اصل امتحان شروع ہوتا ہے ہم پنجابیوں کا۔

کم از کم ایک گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ دو گھنٹہ پیدل واک ہائیکنگ کی ہے۔ پہاڑی پگڈنڈی پر بل کھاتا راستہ اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے اوپر چڑھائی کی طرف جانا ہوتا ہے۔ اللہ کی شان اتنی انچائی پر خوبصورت سرسبز میدان الگ ہی نظارہ دیتا ہے۔ چونکہ گزشتہ سفر سے میں سبق سیکھ چکا تھا جب اوپر پیدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔ساہ نال ساہ نہیں سی رلدا😉پائی جی۔۔۔۔۔۔سچی گل اے ۔۔۔۔ اس لیے اس بار گھڑ سواری کے ذریعے یہ چوٹی سر کرنے کی ٹھانی۔ ہمارا یہ فیصلہ اتنا برجستہ جیسے نون لیگ والوں نے حکومت جھپٹنے میں جلدی کی بعد میں پتا لگا کہ ایڈا سوکھا کم نہیں بلاوجہ کا سرپھنسا بیٹھے۔ آخر ہم نے بھی ارتغرل غازی کی ساری قسطیں توجہ کے ساتھ دیکھ رکھی تھیں۔ فٹافٹ گھوڑے والے سے بات کی اس نے 500 مانگا ہم نے 300 بولا۔ وہ 450 پر آیا ہم 310 روپے تک پہنچے پھر 315, 320,325 پھر نہ تیری گل نہ میری گل 400 میں ڈن ہوا سوار ہو گیا گھوڑے پر اپنی طرف سے شاہسوار تو بن گیا لیکن شاید دوسری مرتبہ گھوڑے پر بیٹھا تھا۔

چنیوٹ دریائے چناب کی ریت پر گھڑ سواری اور شے ہے اور ہزاروں فٹ بلندی پر واقع گنگا چوٹی کی پگڈنڈی اور کھائی کے کنارے کنارے پر گھڑ سواری واقعی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ تھوڑا سا سفر طے کیا تو ہمت جواب دے گئی۔ گھوڑے والے کو کہا کہ اس کو روکو میں ۔۔۔۔۔میں پیدل ہی ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ مگر اس نے نہ روکا(ان کا تجربہ ہے روز کا) اس نے کہا کہ جناب دو منٹ سواری کریں آپ ایزی ہو جائیں گے، دوسرا یہ کہ نیچے نہیں دیکھنا اوپر دیکھو ارد گرد دیکھا۔ پھر گھوڑا وہ چڑھائی چڑھنا شروع ہو گیا جو ہم اکیلے چڑھتے تو یقینی امر تھا کہ ہاتھوں کا سہارا لازمی لیتے۔ سفر گنگا چوٹی کی طرف شروع تھا۔ باقی تین افراد پیدل مارچ کرتے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ دو تو کشمیری نوجوان تھے ماجد گیلانی اور ذیشان گیلانی ایک بیچارہ مقصود احمد لائلپوری ان کے مابین تھا۔ ہماری بلا سے کہ وہ چڑھائی پر کیسے آ رہے ہمارے تو اپنے تراہ نکلے ہوئے تھے۔

ہمارا شہ سواری کا نشہ جو کچھ دیر پہلے ہرن ہو چکا تھا اب دوبارہ بحال ہونے کی کوشش کررہا تھا اور ہم نے گھوڑے کی زین کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا سفر بلندی کی طرف جاری رہا۔ واقعی 400 کم تھے یہ جان جوکھوں میں ڈالنے والا کام ہے۔ گھوڑا سدھایا ہوا تھا اپنے مالک کے نقش قدم پر چل رہا تھا جہاں وہ قدم رکھتا گھوڑا بالکل اسی جگہ قدم ٹکاتا۔ آج معلوم ہوا کہ یہ کتنی مضبوط اور باہمت سواری ہے۔ بالآخر وہ منزل آ پہنچی جب گھوڑا پہاڑ کی اس بلندی تک جا پہنچا تھا جہاں اوپر ایک وسیع میدان موجود ہے اور ٹاور والے آخری سیشن تک پہنچنے کیلئے سنگلاخ چٹانیں ہمارا استقبال کرتی ہیں۔

نیچے اترا اور گھوڑے بان کو 500 کا نوٹ دیا وہ بقایا دینے لگا تو اسے بخش دیا کہ رکھ لو۔ چلو ہماری سخاوت کے چرچے پہاڑوں کی چوٹیوں تک ہونے چاہیے 😉۔ ویسے بھی جو راستہ طے کرکے پہنچے 1000 بھی کم ہے لیکن یہ ان کا روز کا کام ہے۔ ایک گھوڑا تین یا زیادہ سے زیادہ چار چکر لگا سکتا ہے ایک دن میں ۔ اور لازمی نہیں کہ ہر روز سواری بھی ملے۔ اس مقام سے اگے سنگلاخ چٹانیں ہیں جن کے درمیان سے گزرنا پڑتا یہ الگ سے نظارہ ہے۔ چار پانچ وقفوں سے ساہ لے لے کے اوپر پہنچا جہاں ٹاور لگا ہے۔ کیونکہ ہم بھی گنگا چوٹی کی اخیر دیکھنا چاہتے تھے ہماری بھی اخیر ہو گئی۔ اس ٹاور کے اس مقام پر ہونے کا مقصد پوچھا تو فیصل آبادی سٹائل میں جواب ملا۔۔۔۔۔۔پہاڑ کی اونچائی 10 فٹ کم ہو رہی تھی اس لیے اوپر 20 فٹ کا ٹاور لگا دیا تاکہ یہ سب سے اونچی چوٹی بن جائے 😃😳🤭
(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 66 Articles with 23600 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.