فیصل آباد سے تاؤبٹ وادی نیلم کا سفر(وقار کا سفر نامہ) چوتھی قسط

یہ سفر ہم نے یکم جون کو شروع کیا اور وادی نیلم کے آخری گاؤں تاؤبٹ جانے کا ارادہ تھا۔ سفر جوں جوں آگے بڑھ رھا تھا ہمارا جوش و جذبہ بھی مسلسل بلند سے بلند ہوتا جا رہا تھا۔ آپ کو یہ سفرنامہ کیسا لگا اپنے رائے کا اظہار ضرور کیجئے گا۔

چکوٹھی سیکٹر ، مین سرینگر روڈ، ضلع جہلم ویلی

3 جون 2022ء بروز جمعۃ المبارک
گنگا چوٹی سر کرنے کے بعد ہم واپس بیس کیمپ پہنچے۔ راستے میں ایک جگہ رک کر چائے پی، یہاں رینٹ پر خیمے بھی مل جاتے ان کا بھی وزٹ کیا، سردی کافی زیادہ ہوتی ہے ایڈونچر کے شوقین رکتے ہونگے ورنہ صبح جائیں اور تین چار بجے تک لازمی واپسی کی راہ لیں۔ بیس کیمپ پر کچھ بچے اور بڑے کرکٹ کھیلنے میں مصروف عمل تھے ان کے ساتھ 6,6 اوور کا میچ کھیلا، واپس اپنی اپنی موٹرسائیکلوں کو سٹارٹ کیا اور سدھن گلی ہوٹل پہنچے، 3 بج چکے تھے، سامان اٹھایا اور آگلی منزل ضلع جہلم ویلی ہٹیاں بالا کی طرف سفر شروع کیا۔ یہ سفر چکار تک مسلسل اترائی ہی اترائی ہے۔ روڈ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے موٹر سائیکل کو بچت موڈ پر لگایا (انجن بند کیا) اور واپسی کا سفر شروع ہو گیا۔ بے حد خوبصورت نظارے، ٹھنڈی ہوا جگہ جگہ رک کر تصویر کشی کی اور چلتے بنے۔

خوبانی، آلو بخارہ اور چیری کا موسم ہے لیکن ایک بات کا دکھ سا محسوس ہوا کہ اتنا سرسبز اور موزوں علاقہ ہونے باوجود یہ لوگ فروٹ کے درخت نہیں لگاتے جو قدرتی ہو گئے ہو گئے یا کسی بزرگ نے کبھی لگایا تھا تو ٹھیک ہے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پوری وادی کشمیر میں فروٹ کے درختوں کی شجرکاری پر خاص توجہ دینی چاہیے اور مقامی افراد کو گلگت کے لوگوں کی طرح اس کو خشک کرنے کا ہنر سیکھایا جائے تاکہ پاکستان خشک پھلوں کی پیداوار میں مزید خود کفیل ہو سکے۔

یہ راستہ زلزال جھیل کے پاس سے گزرتا ہے اونچی جگہ ہونے کی بدولت دور سے نظارہ ہو جاتا ہے۔ یہاں پوری یونین کونسل تھی تین گاؤں 2008 ء کے ہولناک زلزلہ میں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے تینوں جیتے جاگتے گاؤں ٹنوں مٹی اور پتھروں میں دفن ہو گئے۔ پہاڑوں کا گرنا چشموں، برساتی نالوں کے راستے میں رکاوٹ بن گیا جس کی صورت میں یہاں ایک بہت بڑی جھیل معرض وجود میں آگئی۔ 2009ء میں ہم نے اس جگہ کا وزٹ کیا تھا۔ بہت افسردہ دل کے ساتھ۔۔ میرے اندازہ کے مطابق جھیل کی گہرائی 100 فٹ سے بھی زیادہ ہوگی کیونکہ جب ہم کشتی میں سوار ہوکر اندر تک گئے تو چیڑ کے درختوں کے اوپری کنارے پانی کے اوپر تھوڑے تھوڑے نظر آ رہے تھے۔ آرمی والوں نے ہیلی کاپٹر میں ہزاروں مچھلیوں کے بچے اس جھیل میں چھوڑے شاید اس لیے کہ تعفن نہ پھیلے، چھوٹی مچھلیاں ایسی گوشت خور تھیں کہ پاؤں پانی میں ڈالو تو آ کے کاٹتی تھیں۔

اب شاید کشتی رانی بند ہے ہم دوبارہ اس طرف نہیں گئے۔ زلزال جھیل سدھن گلی سے چکار کی طرف آئیں تو ہمارے دائیں طرف آتی ہے ۔ اس وقت سامنے تھی تو چشم تصور میں پورا نقشہ سامنے بن رہا تھا۔ دنیا فانی ہے کون جانتا تھا کہ 8 اکتوبر کی صبح سحری کے بعد پورے کا پورا گاؤں صفحہ ہستی سے محو کر دیا جائے گا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ فاتحہ خوانی کی اور آگے بڑھ گئے۔ ایک جگہ بچے خوبانی توڑ رہے تھے ان سے کچھ لیکر کھائیں ، مقامی زبان میں ان کو ہاڑی کہتے ہیں تھوڑی ترش ہوتی ہیں۔

چکار پہنچ کے کچھ دیر وقفہ کیا 70 موٹرسائیکل میں کچھ کھٹ پٹ کی آوازیں آ رہی تھیں وہ چیک کروائیں اور پھر اترائی کا سفر شروع کیا۔ ہم مین سری نگر مظفر آباد روڈ پر پہنچے۔ دائیں طرف مڑ گئے جو چکوٹھی بارڈر کی طرف راستہ جاتا ہے۔ روڈ شاندار بنا ہے، جگہ جگہ بورڈ لگے ہیں احتیاطی تدابیر والے، روڈ سائن الگ سے خوبصورت نظارہ پیش کرتے، ہمارا سٹاپ ندول شریف تھا جہاں گیلانی سادات کا خاندان آباد ہے یہیں ان کے آباؤ اجداد کے مزارات بھی ہیں جو مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ ہم یونین کونسل لانگلہ اور گاؤں کھانڈہ بیلہ جا پہنچے۔ ہمیشہ کی طرح سید ممتاز گیلانی شاہ جی کا ہنستا مسکراتا چہرہ سارے سفر کی تھکان دور کر گیا۔ ہم بعد نماز مغرب پہنچے تھے، بیگ رکھے، تازہ دم ہوئے تو عشاء کا وقت ہوگیا۔ عشاء کی نماز سید ممتاز گیلانی شاہ جی کی اقتدا میں ادا کی۔ یہاں رات قیام کیا تھکاوٹ کے اثرات تھے رات کے کھانے کے بعد مختصر واک کی جلدی ہی نیند آگئی اور ہم خواب خرگوش میں گم ہوگئے۔

صبح نماز فجر کے بعد ناشتہ، کچھ گپ شپ کے بعد نماز جمعہ کہ تیاری میں مصروف ہوگئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی یوتھ ونگ کشمیر کے رہنما تیمور بیگ صاحب بھی آگئے۔ موجودہ مہنگائی ، عدم اعتماد، ن لیگ کے اللے تللے اور زرداری صاحب کی مسکراہٹیں اور بلاول صاحب کی گھبراہٹیں اور ایسی صورتحال میں کوئی جگری یار ہو اور پیپلز پارٹی کا نمائندہ ہاتھ آجائے تو کیا منظر ہوگا یہ آپ سمجھ سکتے ہیں یا تیمور بھائی بتا سکتے ہیں 😉( بہت پیارے دوست ہیں ، اچھے لکھاری ہیں ، محنتی ہیں اور ملنسار بھی اللہ ان کو سلامت رکھے) ۔

نماز جمعہ کیلئے مرکزی مسجد میں پہنچے تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہے، نعت خوانی ہو رہی تھی نہایت خوبصورت آوازوں والے ثناء خوان حاضری پیش کر رہے تھے۔ ایک بج کر پانچ منٹ پر نوجوان خطیب صاحب ممبر پر براجمان ہوئے اور خطاب فرمایا جس کا عنوان رشوت ستانی اور حرام کمائی سے بچنے کے متعلق تھا۔ نماز جمعہ ادا کی صلوۃ وسلام پڑھا۔ یہاں کاظمی سادات کے مزارات ہیں وہاں فاتحہ خوانی کی، جمعہ کے بعد ہماری منزل شاریاں سے آگے جسکول آبشار تھی۔ کچھ دیر آبشار کے قرب کا لطف اٹھایا وہاں سے چکوٹھی بارڈر کی یاترا کو چل دیے۔ فوجیوں کے ناکے پر پہنچے تو ننگا چٹا جواب ملا کہ آپ آگے نہیں جا سکتے کوئی آپ کا رشتہ دار ہے تو اس کا بتائیں ورنہ جائیں ادھر سے۔ تیمور بیگ صاحب سیاسی آدمی ہیں ایک واقفیت والا بندہ ڈھونڈا اس سے ساز باز کی اس نے ہمارے اور ملٹری اسٹبلشمنٹ کے مابین افہام و تفہیم کروائی شناختی کارڈ جمع کروائے اور آگے بڑھ گئے۔ دو کلومیٹر کے بعد ایک اور چیک پوسٹ آئی ابھی ٹرمینل نہیں آیا جہاں سے ن لیگ کے دور میں بھارت سے تجارت ہوتی تھی یا دوستی بس سروس گزرا کرتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جناب بس یہیں تک انا تھا اب جائیں واپس۔ خیر واپس ہو لیے۔ شناختی کارڈ واپس لیے اور شاریاں پہنچے۔

یہاں مؤرخ مدینہ حاجی تسلیم رضا رضوی کیانی صاحب (ابھی ان کی کتاب تکمیل کے آخری مراحل میں ہے جو انہوں نے شہر مدینہ اور گنبد خضریٰ کی تاریخ پر مستند حوالہ جات سے مزین تحریر کی ہے وہ بھی مدینہ منورہ میں رہ کر وہاں کی لائبریریوں اور اہل مدینہ کی ذاتی لائبریریوں سے استفادہ کرتے ہوئے) سے ملاقات ان کی زم زم بیکری پر ہوئی۔ بہت خوشگوار ماحول میں ملاقات رہی کیونکہ ہم کو پی ٹی آئی کا نمائندہ تصور کیا گیا، کیانی صاحب ٹی ایل پی کے ذمہ دار ہیں شاریاں کے، تیمور بیگ صاحب پیپلز پارٹی۔ بس پھر خوب درگت بنی مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا اور ہم واپس ہٹیاں بالا پہنچ گئے۔ ہمارے فیصل آباد کے ساتھی سید آفتاب عظیم بخاری (سابق مرکزی صدر ATI پاکستان)، شہزاد احمد سلطانی اپنے ولی عہدوں (سید محمد عقیل گیلانی، محمد اویس سلطانی) بھی ہم سے متاثر ہوکر کشمیر یاترا پر اتر آئے ہیں اور شام تک مظفرآباد پہنچ رہے ہیں۔ ان سے معلوم ہوا کہ ہمارے دیرینہ محسن سابق طالب علم رہنما سید غلام محی الدین گیلانی بھی آج کل ہٹیاں بالا میں اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اے سی صاحب کو کال کی لیکن اٹینڈ نہ ہوئی، میسج کر دیا اس امید کے ساتھ کہ دیکھیں گے تو کچھ نہ کچھ جواب آجائے گا۔

ہٹیاں بالا سے واپسی پر تیمور بیگ صاحب کے ہمراہ لانگلہ ٹاپ پر گئے کچھ دیر رکے کیا خوبصورت نظارہ تھا گاؤں گا۔ واپسی پر تیمور بھائی نے چائے اور چکن کے ساتھ تواضع کی۔ واپس شاہ صاحب کی رہائش پر پہنچے رات کے پر تکلف کھانے میں ابلے چاول، بیف شوربہ، چکن ہانڈی، فریش سلاد، کشمیری چٹنی موجود تھی۔ کھانے کے دسترخوان پر ماجد گیلانی صاحب کے دو چاچو سید اشفاق گیلانی ( ویٹرنری ڈاکٹر) سید اقبال گیلانی ( ریٹائرڈ پاکستان آرمی) سے بھی ملاقات ہوئی، یہاں بھی پی ڈی ایم اور بالخصوص زرداری صاحب کی سیاست موضوع بحث رہی لب لباب یہ تھا کہ زرداری ہوراں چنگا ہتھ کیتا اے شہناز شریف نال۔

کھانے کے دوران اے سی صاحب کی کال آ گئی وہی محبت بھرا لہجہ اور مٹھاس بھری آواز۔ ملاقات کرنے کا حکم ہوا تو ہم نے کہا کہ حاضر ہوتے ہیں ۔ کھانے کے بعد میں اور مقصود بھائی شاہ جی سے ملنے ان کی سرکاری رہائش گاہ پہنچے۔ اے سی صاحب دروازہ پر استقبال کیلئے موجود تھے( یہ ان کا بڑا پن ہے) کشمیری قہوہ سے خاطر مدارت ہوئی، کچھ ناراض ہوئے کہ کل کے آئے ہو بتایا تک نہیں ، دوسرا یہ کہ رات کا کھانا میرے ساتھ کیوں نہیں کھایا۔ ہم نے بھی اس پر معذرت کی تو حساب برابر ہو گیا۔ 🤷🏼‍♂️ شاہ جی سے ملاقات ہمشہ کی طرح خوشگوار رہی، 45 منٹ کے بعد ہم نے اجازت مانگی کیوں کہ رات کے 11:30 ہوگئے تھے کل ہم نے نیلم ویلی نکلنا ہے اور اے سی صاحب نے وزیر اعظم صاحب کے وزٹ کو دیکھنا ہے جو صبح 9 بجے تشریف لا رہے تھے۔ واپس باہر تک چھوڑنے آئے۔

واپس پہنچے سو گئے صبح 6 بجے ناشتہ 7:30 بجے روانگی ہوئی ماجد گیلانی صاحب کے والد محترم سید ممتاز گیلانی صاحب نے رخصت کیا ڈھیروں دعاؤں سے نوازا 2008ء سے آج 2022ء تک جب بھی رخصت کا وقت آیا شاہ جی کو بہت اداس پایا یہ ان کی وہ محبت ہے جو ہم کو اتنی دور سے کھینچ کے لے آتی ہے اور کشمیر ہمیں اپنا دوسرا گھر معلوم ہوتا ہے۔

اگلی صبح دن 7:45 پر سفر شروع ہوا جانب مظفر آباد ، موٹرسائیکل کی پیٹرول گیج بتا رہی تھی کہ پیٹرول پمپ کا رخ کیا جائے۔ راولپنڈی بحریہ ٹاؤن سے ٹینکی فل کروائی تھی ابھی ریزرو لگنے والا تھا لگا نہیں تھا۔ 1800 کا پیٹرول ڈلوایا اور سفر پر روانہ ہوگئے۔ مظفر آباد میں حضرت سائیں سہیلی سرکار رحمۃ اللہ علیہ کے مزار شریف پر باہر سے فاتحہ کا نذرانہ پیش کیا اور موٹرسائیکل ورکشاپ کا رخ کیا کیونکہ رات ہیلمٹ ٹیبل سے نیچے گرا اور اس کا فرنٹ شیشہ ٹوٹ گیا۔ شیشہ نیا ڈلوایا، ساتھیوں نے سن گلاسز خریدے، گرد وغیرہ سے محفوظ رہنے کیلئے رومال خریدے اور ہم آزاد کشمیر کے سب سے بڑے ضلع نیلم ویلی کی طرف روانہ ہوگئے۔ لائن آف کنٹرول پر واقع اس وادی کا الگ ہی نظارہ ہے، پہلا پڑاؤ کنڈل شاہی تھا۔۔۔۔۔۔۔ جاری ہے
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 58 Articles with 18078 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.