ہفتہ 4جون 2022ء
مظفر آباد سے ہمارا دو موٹرسائیکلوں اور چار سواروں پر مشتمل قافلہ جانب
نیلم ویلی روانہ ہوا۔ وادی نیلم آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے، اکثر حصہ
آزاد کشمیر اقر مضبوضہ کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر مشتمل ہے۔ کچھ مقامات پر
تو دونوں افواج بالکل آمنے سامنے موچہ زن ہیں۔ افواج پاکستان نے بہترین
کنٹرول سنبھالا ہوا ہے۔ ہر آنے والے کا اندراج چیک پوسٹ پر ہوتا ہے، اندراج
کا نمبر دیا جاتا ہے جو بعد میں واپسی پر نوٹ کروایا جاتا ہے کہ مہمان واپس
جا چکے ہیں ۔ اندراج کے وقت گھر کا نمبر بھی احتیاطی طور پر لکھا جاتا ہے
تاکہ کسی ناگہانی صورت میں مطلع کیا جا سکے۔
دریائے نیلم کے کنارے کنارے بل کھاتی سڑک شاندار تعمیر ہو چکی ہے البتہ وہ
جگہیں جہاں لینڈ سلائیڈنگ ہے وہ ابھی زیر تعمیر ہیں کام مسلسل جاری ہے۔
معروف سٹاپ گھوڑی، پٹہکہ، پنجگرائیں، پارلا، دھنی، ٹیٹوال، جگراں، اسلام
پور، کنڈل شاہی۔ اسی راستے میں مشہور زمانہ *نیلم جہلم ہائیڈرو پاور
پراجیکٹ* کا ڈیم بھی ہے جس کیلئے اخراجات نیلم جہلم سرچارج کی صورت میں ہم
سالہاسال بجلی کے بلوں میں ادا کرتے رہے۔ جدید فن تعمیر کا شاہکار ہے،
خصوصاً جھیل جس کا پانی سبز رنگ کا دکھائی دیتا بہت دلفریب نظارہ پیش کرتی
ہے۔ صرف ایک سپل کھلا تھا باقی سب بند شاید پانی آنے کی مقدار کم تھی
بہرحال ٹیکنیکل والے ہی بہتر جانتے ہم سیر سپاٹے والے بس فوٹو بازی کی اور
چلتے بنے۔
جوں جوں وادی نیلم کا سفر آگے بڑھتا ہے ویسے ویسے ہی انتہائی خوبصورت مناظر
ہر موڑ پر استقبال کرتے ہیں ۔ فلک بوس پہاڑ کہیں سرسبز کہیں مضبوط چٹانوں
کی صورت، کہیں سرمئی رنگ تو کہیں مکمل سیاہ، بسا اوقات گمان ہوتا ہے کہ
بندہ کسی اور ہی دنیا میں سفر کر رہا ہے (ان نظاروں سے لطف اندوز ہونے
کیلئے اپنی سواری ہو تو کیا ہے مزہ ہے پبلک ٹرانسپورٹ والوں کو منزل تک
پہنچنے کی جلدی ہوتی بہت سارے مناظر سے ہم درست طریقہ سے لطف اندوز نہیں ہو
پاتے)، پہلا پڑاؤ کنڈل شاہی تھا جہاں ہم 11:30 بجے پہنچے۔ مین سٹاپ سے اوپر
آبشار کی طرف راستہ اچھی خاصی چڑھائی پر مشتمل ہے نویں نویں ڈرائیور کو جب
اس چڑھائی کے عین وسط میں بریک لگانا پڑے تو سچی مچی کے تراہ نکل جاتے ہیں
شکر ہے وہاں اچھا خاصا رش اور ٹریفک جام تھی اس لیے اپنے تراہ زیادہ دور نہ
جا سکے 🤭۔
آفتاب عظیم بخاری ، شہزاد سلطانی مع اپنے ولی عہدوں کے پہلے سے آبشار پر
براجمان تھے، یہ وہی ابشار ہے جہاں 13 مئی 2018ء کو ایک یونیورسٹی کے گروپ
کے لاپرواہی سے ہولناک حادثہ پیش آیا اور کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں ،
کیوں کہ آبشار کا پل روائتی رسوں سے بنا تھا، ایک وقت میں تین سے چار افراد
کو گزرنے کی اجازت ہوتی تھی یہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا گروپ سارا اوپر
کھڑا ہو گیا اور پل کو ہلا کر لطف اندوز ہونے لگا مقامی لوگوں نے منع بھی
کیا لیکن وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پل ٹوٹ گیا اور کئی قیمتی جانیں
تیز پانی میں بہہ گئیں، مقامی افراد کچھ جانوں کو بچانے میں کامیاب بھی
ہوگئے لیکن بہت سارے تیز لہروں میں بہہ گئے۔ اب لوہے کا پل ہے پھر بھی
احتیاطی تدابیر اختیار کر نا عقل کا تقاضا ہے۔ ایک مقامی بچے صائم نے تین
لوگوں کی جان بچائی چوتھے کو بچاتے خود بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا حکومت
آزاد کشمیر نے اس بہادری پر اس کو تمغہ شجاعت سے نوازا۔
کنڈل شاہی جھیل کا منظر واقعی خوبصورت اور دلکش ہے، قریب کرسیوں پر بیٹھیں
تو ائیر کنڈیشنڈ سے زیادہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ملتے ہیں ۔ اسی مقام پر ایک
نئے ہوٹل کا افتتاح بھی تھا ان کی طرف سے بیف پلاؤ کی دعوت عام تھی۔ بھوک
پہلے ہی لگی تھی ایسے میں کوئی خلوص سے دعوت دے تو ٹھکرانا کفران نعمت سے
کم نہیں ۔ کھانے میں شریک ہوئے، فیصل آباد کے ساتھیوں نے چونکہ لوکل جانا
تھا اس لیے وہ اگلی منزل کیرن کی طرف روانہ ہو گئے ہم بھی پیچھے
موٹرسائیکلوں کے پاس پہنچے تو وہ تراہ ایک مرتبہ پھر نکل گئے جن کو بار بار
بچاتے ہوئے یہاں تک پہنچا تھا۔ اوسان ہی خطا ہوگئے جب موٹرسائیکل کی چابی
کو جیب میں نہ پایا۔ سینکڑوں لوگوں کی گہما گہمی، اونچی نیچی جگہ، بہت سارے
مقامات پر آنا جانا ہوا اللہ اللہ کہاں تلاش کریں ۔ کچھ دیر میں ایک صاحب
نے پوچھا کیوں پریشاں ہیں چابی کا بتایا تو جھٹ سے ہاتھ میں پکڑی چابی
دکھائی کہ یہی ہے۔۔۔۔الحمدللہ کہہ کے پکڑ لی ۔ اس نے کہا کہ ادھر روڈ سے
ملی میں اس دوکان والے کو دینے جا رہا تھا۔ کوئی چیز گم ہو تو قریبی
دوکانوں سے لازمی پوچھیں فی الوقت چیزوں کے گم ہونے یا چوری ہونے کا کوئی
واقعہ رپورٹ نہیں ہوا اس وادی میں ۔ اوسان بحال ہو چکے تھے، اور ہمارا سفر
پھر سے شروع ہوا اگلا پڑاؤ خوبصورت پکنک پوائنٹ کیرن تھا۔
کیرن وہ مقام ہے جہاں تیز ہوائیں ہر وقت چلتی رہتی ہیں ۔ دریا کا تیز بہاؤ
اور دوسری طرف مضبوضہ کشمیر کا گاؤں ہے۔ آر پار صاف دکھائی دیتا ایک دوسرے
کو حسرت بھرے انداز میں دور سے سلام و دعا عام معمول ہے۔ رات گزارنے کیلئے
اپر نیلم گیلانی گیسٹ ہاؤس کا انتخاب ہوا ریٹ 1500 طے ہوا۔ دوسرے گروپ
والوں کا کہنا تھا کہ رات شاردہ نکلیں ہم نے کہا کہ تھکاوٹ ہے ہم صبح آرام
سے آجائیں گے۔ کھانا عصر کے بعد اکٹھا کھایا وہ ویگن کے انتظار میں بیٹھے،
ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی ہم نے اپر نیلم کیلئے گھوڑے (موٹرسائیکل) دوڑا
دیے۔
نیٹ ورک کا یہاں بہت ایشو ہے صرف SCO کی سم چلتی یا یوفون ہو تو وہ بھی
رومنگ میں سگنل پکڑ لیتی۔ البتہ انٹرنیٹ صرف ایس کام پر ہی ملتا ہے وہ بھی
کسی کسی جگہ۔ ہوٹل پہنچے کمرے میں تین بیڈ اور ایک میٹرس ملا ابھی بیگ
وغیرہ رکھ کر ریلکس ہونے کو ہی تھے کہ آفتاب عظیم بخاری صاحب کی کال آگئی
کہ ایک اور کمرے کا پتا کریں ہم بھی آ رہے ہیں ۔ سبحان اللہ
ہوٹل والوں سے جب بات کی تو عجیب کاروباری انداز سے شناسائی ہوئی کہ کمرہ
مل جائے گا 2000 کا ایک ہوگا۔ کافی بحث کی کہ نیا 2000 پہلے والا 1500 ہی
رہنے دیں مگر مجال ہے جو یہ لوگ ذرہ برابر بھی ترس کھائیں ۔ دونوں
موٹرسائیکلیں نیچے کیرن آئیں اور چار افراد کو دو دو چکروں میں اپر نیلم
پہنچایا گیا۔ اپر نیلم پر اب کافی زیادہ گیسٹ ہاؤس بن چکے ہیں بہترین بازار
بن چکا ہے، جمعہ ، ہفتہ، اتوار بہت رش ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کیمپنگ کا مزہ بھی
لیتے ہیں جن کے پاس اپنے ہوتے ورنہ یہاں لگے لگائے بھی مل جاتے پریشانی
کوئی نہیں البتہ تھوڑی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
رات ادھر ہی گزاری علی الصبح شاردہ کیلئے روانہ ہونے لگے تو ریسٹ ہاؤس والے
باقاعدہ ناراض ہوئے کہ ہم سے ناشتہ کیوں نہیں کیا۔ ( مفت نہیں کھلانا تھا
مگر ان کے ریٹ بہت ہائی تھے اس لیے ہم نے نیچے بازار میں جاکر ناشتہ کرنے
کو بہتر سمجھا مگر یہ لوگ بہت زیادہ تپ گئے)۔ اب کی بار موٹر سائیکلوں کے
تین تین چکر لگے اور ہم آٹھ لوگ ناشتے والی دوکان پر ہہنچے۔ چائے، آملیٹ
اور پراٹھا (یہاں کا قومی ناشتہ) کیا، موٹرسائیکلوں کے شاہسوار آگے بڑھ گئے
جبکہ لوکل والے گاڑی کے منتظر تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سفر پھر سے شروع تھا اور منزل
شاردہ تھی اس کے بعد کیل پہنچنا تھا ۔ ارادہ یہ تھا کہ رات اڑنگ کیل جاکر
بسر کی جائے۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|