فیصل آباد سے تاؤ بٹ ، وادی نیلم کا سفر (وقار کا سفرنامہ) چھٹی قسط

وادی نیلم کا سفر جاری تھا اور ہم کنڈل شاہی آبشار، اپر نیلم اور کیرن دیکھنے کے بعد شادرہ ، کیل اور اڑنگ کیل کا عزم لیکر روانہ ہوچکے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ اگلی قسط ملاحظہ کریں۔ امید ہے قارئین پسند فرمائیں گے

وادی نیلم کا خوبصورت راستہ جو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے

5جون 2022ء بروز اتوار
جوں جوں وادی نیلم کا سفر جاری تھا توں توں قدرت کے نظارے ایسے کہ ہر موڑ پر بے ساختہ سبحان اللہ نکلتا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ سڑکوں کی حالت زار پر ایسا ہوتا ہرگز نہیں ۔ شاردہ سے تھوڑا پیچھے تک بہترین روڈ بن چکا ہے جو رہتا ہے اس پر دھڑا دھڑ کام جاری ہے۔ سوزکی مہران اور آلٹو، کورے، کلٹس، بلکہ ہنڈا سوک تک گاڑیاں لوگ لے کر پہنچے ہوئے تھے۔ اور تو اور ہم بھی لائلپور سے موٹرسائیکل لیکر آ دھمکے تھے یہ کوئی معمولی بات نہیں نہ ہم کسی کی فور ویل سے متاثر نہ اپنی بائیک سے شرمندہ۔

ایک جگہ دریا تک ٹریک بنا نظر آیا تو بلا ساختہ ساتھیوں کو رکنے کا اشارہ کر دیا اور موٹرسائیکل جا نیچے دریا کے کنارے روکے۔ سبحان اللہ کیا منظر تھا، صاف شفاف پانی دیکھا تو رہا نہ گیا فورآ جوتے اتارے، جرابیں اتاریں اور ایک بچھڑے ہوئے یار کی طرح بھاگے دریا کی طرف کیونکہ پانی کافی زیادہ لہروں کی صورت میں باہر تک پہنچا ہوا تھا۔ جیسے ہی پانی نے ہمارے قدم چھوئے جس سپیڈ سے دریا کی طرف گئے اس سے ڈبل پر *او تیری خیر ہووے* کہتے واپس پلٹے۔ پانی اتنا ٹھنڈا جتنے ہماری فریج میں کچی برف کے پیالے ہوتے ہیں۔

پاؤں تھے کہ سن ہوکر رہ گئے۔ دل تو چاہ رہا تھا کہ غسل کریں گے پر اب تو منہ دھونے سے بھی پرہیز کر رہے تھے۔ بڑے چھوٹے رنگ برنگ پتھر پانی کے اندر سے بھی دلکش نظارے پیش کر رہے تھے، بڑے پتھر پر بیٹھ کر کافی دیر تک اس منظر کو من میں سمونے کی کوشش کرتے رہے، چونکہ ابھی دوسرے چار جی (چار افراد) کو گاڑی ملی تھی مطلب ہم سے 45 منٹ پیچھے تھے(یہاں کسی سے سفر کا پوچھیں کہ فلاں سٹاپ کتنا رہتا تو وہ وقت بتاتے ہیں ایک گھنٹہ لگ سی، دو گھنٹے لگسن) کچھ وقت بیتانے کے بعد آگے کا سفر شروع کیا موٹرسائیکلوں کو بھی ریسٹ مل چکا تھا۔

شاردہ پہنچے تو قیام حسن اتفاق سے گیلانی ہوٹل پر ہوا۔ تفتیش سے پتا چلا کہ اپر نیلم والوں کے عزیز ہیں مگر ان کے اور اپر نیلم والوں کے مزاج میں اتنا ہی فرق پایا جتنا وادی نیلم اور لائلپور کے موسم میں ۔ قریب ایک گھنٹہ انتظار کیا ساتھیوں کے پہنچنے کا کیونکہ وہ لوکل آ رہے تھے۔ اسی انتظار میں ایک ایک کپ چائے اور کیک کھا بیٹھے۔ بخاری صاحب کا قافلہ پہنچا تو ابلے چاول اور لوبیا(یہاں کی مرغوب غذا) کی پلیٹیں منگوائیں اور کھا پی کے چل دیے شاردہ کی تاریخی یونیورسٹی کا وزٹ کرنے۔ شہزاد سلطانی صاحب نے خواہش کا اظہار کیا کہ موٹر سائیکل 🏍️ چلانا چاہتا ہوں ان کو چابی تھمائی اور باقی افراد کے ساتھ پیدل مارچ کرتے دریا کے پل کی طرف چل دیے۔ پولیس اور آرمی والوں نے پل کی کراسنگ کو اچھا مینج کیا ہوا ہے کیونکہ اس سے سنگل گاڑی گزر سکتی اس لیے ایک سائڈ روک کر ایک کو گزارا جاتا ہے۔ گزشتہ دورہ کے موقع پراس پل کی تصویر بنانا منع تھی اس بار ازن عام تھا سو خوب فوٹوگرامی پر ہاتھ صاف کیے۔

دریا عبور کر کے پیدل مارچ کرتے شاردہ یونیورسٹی کی طرف چل دیے۔ قبلہ بخاری صاحب کی شگفتہ گفتگو سفر کا لطف دوبالا کر دیتی ہے فرمانے لگے کہ جلدی چلو کہیں لیکچر کا وقت نہ ختم ہو جائے😁۔ یونیورسٹی کی مختصر عمارت کافی اونچی جگہ بنی ہے۔ قریب تیس پینتیس سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جانا ہوتا ہے ۔ سیڑھیوں میں استعمال ہونے والے پتھر اس پہاڑ کے نہیں ہیں بلکہ کسی دور کے پہاڑ کے ہیں ۔ اگلا سوال کہ یہ اتنے بڑے بڑے پتھر آج سے 1900 سال پہلے اس جگہ کیسے لائے گے، بغیر سیمنٹ یہ اپنی جگہ فٹ ہیں ، یونیورسٹی کی عمارت بھی بہت بڑی بڑی سلوں پر مشتمل ہے اوپر تلے رکھے ہیں مجال ہے نیچے گرے ہوں۔ البتہ عدم توجہ کی بدولت لوگوں کے آنے جانے اور دیواروں پر چڑھنے کی بدولت کچھ حصہ شکست و ریخت کا شکار ہو چکا ہے۔ ایریا مکمل فوج کے زیر کنٹرول ہے، ارد گرد کی فوٹو بازی منع ہے چار دیواری کے اندر بنا سکتے۔ اس جگہ کے بارے بہت ساری دیومالائی داستانیں ہیں جو اس کی ہیت دیکھ کر لکھی گئیں کہ اتنے بڑے پتھر کوئی انسان نہیں لا سکتا نہ ایسے جوڑ سکتا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ شاردہ اور ناردہ دو بہنیں تھیں اور ان کے پاس ایک جن بھی تھا۔ (یہ جن کے قبضے میں تھیں یا جن کے ان کے قبضے میں؟ پرانے دور کو دیکھیں تو یہ جن کے قبضے میں ہونگی، نئے دور کو دیکھیں تو ایک جن کیا بہت سارے جن خواتین سے پناہ مانگتے نظر آتے ہیں)۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ نے لکھا کہ بدھ مت کی سب سے عظیم درسگاہ سری نگر سے فلاں سائڈ پر برف پوش پہاڑوں پر ہے شدید برفباری کی بدولت میں وہاں نہیں جا سکا۔ مزید مؤرخ لکھتے کہ یہ کسی دور میں ہندووں کی مقدس جگہ رہی ہے یہاں پر آنے والوں کو ریاضی، فلکیات ، ارضیات جیسے علوم بھی روحانیت کے ساتھ ساتھ سکھائے جاتے تھے۔( واللہ اعلم), ہمارے خیال میں یونیورسٹی وہ ہوتی جس میں کئی بلاک اور ہر بلاک میں کئی کمرے ہوں جبکہ یہ صرف ایک عمارت اور چاردیواری ہے۔ تو جناب اس دور میں اس جگہ پہنچنا بھی ایک ناممکن کام تھا جو پہنچ جاتا تھا کچھ نہ سیکھ کے جاتا۔ ویسے بھی 90 کی دہائی سے پہلے استاد کی قدر کیا ہوتی تھی کسی پرانے استاد سے پوچھ کے دیکھیں طالب علم تو دور ان کے والد بھی استاد کے سامنے سائیکل پر سوار ہو کر گزرنا توہین سمجھتے تھے، بسا اوقات طالب علم لمبا سفر طے کر کے استاذ کے پاس پہنچتے تھے اور کبھی استاذ طالب علم کی تعلیم مکمل کروانے آجایا کرتے تھے ۔

جیسا کہ میری روحانی نسبت سیال شریف کے چوتھے سجادہ نشین شیخ الاسلام حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ علم کے حصول کیلئے اجمیر شریف مولانا معین الدین اجمیری کے پاس پہنچے۔ والد گرامی کا وصال ہوا تو خانقاہی ذمہ داریوں کی بدولت واپس نہ جا سکے تو استاذ محترم بنفس نفیس سیال شریف تشریف لائے اور تعلیم مکمل کروائی (اس کی تفصیل کیلیے کتاب فوزالمقال فی خلفاء پیر سیال کو پڑھا جا سکتا ہے)۔

یونیورسٹی سے واپسی پر آٹا کی پن چکی دیکھی جسے مقامی زبان میں *جندر* کہتے ہیں۔ پانی سے چلتی ہے اور گندم، مکئی 🌽 کا آٹا بناتی ہے۔ ابھی واپسی کا سفر شروع تھا کہ موسلادھار بارش شروع ہو گئی۔ سلطانی صاحب تو بائک لیکر ہوٹل پہنچ گئے، ہم چار لوگ آفتاب عظیم بخاری صاحب مع ولی عہد، مقصود اور راقم رہ گئے۔ کشتی رانی کیلئے عارضی شیڈ بنا ہے اس کے نیچے پناہ لی مگر تیز بارش کے آگے وہ بھی عاجز آگئی جیسے آئی ایم ایف کے آگے ہماری حکومت بے بس۔ جگہ جگہ سے ٹپک رہی تھی، دریا کا کنارہ اور موسلادھار بارش سردی اچھی خاصی ہو گئی تھی۔ قریب چالیس منٹ بارش جاری رہی۔ تھمنے پر ہوٹل پہنچے تو پہلی خبر یہی ملی کہ میرا بیگ جو بائک کے پیچھے باندھا تھا مکمل ساز و سامان سمیت غسل فرما چکا ہے😒 کیونکہ جب ہم آئے تھے تو موسم بالکل صاف تھا، اچانک بارش آئی تو اس کو واٹرپروف میں نے ہی کرنا تھا یا کھول کے ہوٹل کے اندر لے آتا (خیر جو ہوا سو ہوا)

چائے کا ایک دور اور چلا، اور قافلہ اگلے پڑاؤ *کیل* کیلئے پر تولنے لگا۔ ابھی چائے پہنچی نہیں تھی کہ گاڑی آگئی، سلطانی صاحب مع دیگر تین افراد بھاگم بھاگ بیگ اٹھا کے بس میں سوار ہو گئے، ہم نے تسلی سے چائے پی، بادل دیکھ کر احتیاطی طور پر برساتیاں زیب تن کیں، منہ اور کانوں پر رومال لپیٹے ، ہیلمٹ چڑھائے، گلاسز لگائے، بیگ اٹھا کر جب بائک کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا کہ بائک کی چابی تو سلطانی صاحب ہمراہ کیل لے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.