فیصل آباد سے تاؤ بٹ، وادی نیلم کا سفر (وقار کا سفرنامہ) ساتویں قسط

ایک بار پھر موٹرسائیکل کی چابی سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا، اچھی نصیحت ہوئی کہ کم از کم دو چابیاں ہمراہ لازمی رکھنی چاہیے، اگر رابطہ نہ ہو رہا ہو تو اسی مقام پر انتظار کریں جہاں سے آپ کے ساتھی الگ ہوئے ہوں۔ ہمارے ساتھ کیا ہوا پڑھنے کیلئے سفر کا اگلی قسط ملاحظہ کریں

اڑنگ کیل کے سرکاری سکول میں صبح اسمبلی کا منظر

ایک تو نیٹ ورک کا ایشو دوسرا مشکل راستے سفر میں یہ سب نہ ہو تو ایسے محسوس ہوتا جیسے سالن میں مرچیں ڈالی ہی نہیں۔ ایسے واقعات ہی تو زندگی کے یادگار لمحات ہوتے ہیں ۔ مسلسل رابطہ کی کوشش کی لیکن کال لگ نہیں رہی تھی شاید 30 مرتبہ سے زیادہ بار کوشش کی گئی۔ تھک ہار کے فیصلہ کیا کہ ایک موٹرسائیکل روانہ ہو جائے، بائک کی چابی لے کے کسی آنے والی گاڑی کے ڈرائیور کو دے دیں۔ ماجد گیلانی اور ذیشان گیلانی روانہ ہو گئے میں اور مقصود بھائی انتظار میں بیٹھ گئے۔ یہ جون 2022ء کی بات ہے اس وقت کیا زمانہ تھا جب دنیا موبائل ، پکی روڈ، موٹر گاڑی وغیرہ سے بالکل نابلد تھی اور وہ سب لوگ ہم سے زیادہ تندرست اور خوشحال تھے۔ بالاآخر رابطہ ہو گیا، ایک موٹرسائیکل سوار کو دی گئی جو 40 منٹ تک شاردہ پہنچ گیا۔ اور ہم روانہ ہو گئے۔ ایک تو موسم ابر آلود تھا اور ہلکی بارش دوسرا یہ کہ راستہ بھی ابھی زیر تکمیل تھا۔ پہلی بار خود بائک چلا کے جا رہا تھا، الحمدللہ سفر بخیر رہا اور ہم کیل پہنچ گئے۔

کیل پہنچتے ہی کیبل کار کی طرف بڑھ گئے، دیسی ساختہ مضبوط سٹریکچر کی بنی کیبل کار جس میں آٹھ سواریاں بیٹھانے کی گنجائش ہے۔ کیل سے اڑنگ کیل تک کا یہ آسان ذریعہ ہے۔ ورنہ پہلے اوپر سے نیچے دریا کی طرف پھر پل کراس کر کے تھکا دینے والی چڑھائی کا کٹھن مرحلہ ہم میدانی علاقوں کے باشندوں کیلئے بغیر پیراشوٹ جہاز سے چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ کیبل کار کے ذریعے یہ سفر تقریباً تیسرا حصہ رہ جاتا ہے۔ کیبل کار کا کرایہ 250 روہے فی کس ہے۔ جاتے وقت ٹکٹ لیا جاتا ہے۔ آرمی کے کاؤنٹر پر گروپ لیڈر کا شناختی کارڈ جمع کر لیا جاتا ہے، افراد کی تعداد، نام، رابطہ نمبر وغیرہ لکھ لیا جاتا ہے تاکہ سیاح سیر کر کے لازمی واپس آئیں۔ ٹکٹ لیکر انتظار گاہ میں بیٹھا جاتا ہے۔ کیبل کار پر صبح سے شام تک مسلسل رش لگا رہتا ہے، اڑنگ کیل کے رہائشیوں کیلئے، آرمی پرسنز کیلئے یہ مفت سہولت ہے۔ سیاح حضرات سے ٹکٹ وصول کیا جاتا ہے۔ کیل سے روانگی کے وقت ٹکٹ لینا لازمی ہے واپسی پر کوئی نہیں پوچھتا۔ کچھ شیر جوان جاتے پیدل ہیں واپسی کیبل کار پر کرتے ہیں 🤪

بہت زیادہ اونچائی اور اچھی خاصی لمبائی کا سفر یہ تقریباً ڈیڑھ سے دو منٹ میں کرتی ہے، پوری نیلم وادی میں جس سے بھی بات ہوئی ایک ہی سوال ہوتا۔۔۔۔۔ کیل گئے ہیں اور اڑنگ کیل نہیں گئے؟ وہی تو اصل جگہ ہے۔ ہم بھی اصل جگہ کیلئے نکل چکے تھے۔ ٹکٹ لیکر انتظار گاہ میں بیٹھ گئے۔ باری آئی تو گویا پک اپ ویگن کو ہی اڈن کھٹولا بنادیا گیا تھا۔ کیبل کار پہنچی ہم سوار ہوئے، کیبل کار چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔اف اللہ۔۔۔۔۔ چنگے بھلے آدمی کے اوسان خطا ہو جاتے نیچے 400 میٹر (شاید کم و بیش) دریا اوپر یہ کیبل کار، لوگوں کی انکھوں میں آنسو آجاتے نہیں پتا کہ ڈر کے ہوتے ہیں یا خوف کے البتہ وہ کہتے نظر آتے ہیں ہوا بہت تیز تھی🤫۔

اصل امتحان کیبل کار سے اترنے کے بعد شروع ہوتا جب ہائیکنگ شروع ہوتی۔ عام رائے ہے کہ دس، بیس منٹ کا پیدل رستہ ہے ( ان کیلئے جو مقامی ہیں) جو ہمارے جیسے پہاڑوں سے دور اور سبزی لینے جانے کیلئے بھی موٹرسائیکل کا آسرا لیتے ہوں ان کیلئے اس چڑھائی پر جانا پل صراط سے گزرنے کے مترادف ہے۔ شومئی قسمت کہ بارش کچھ دیر پہلے رکی تھی سارا ٹریک گیلا ہو چکا تھا۔ کیبل کار سے پہلے راستے میں ہائیکنگ سٹکس کا انتظام ہوتا ہے جو 30 روپے رینٹ پر مل جاتی ہے واپسی پر جمع کروا دیں ۔ یا اپنی ذاتی خرید لیں ہائیکنگ کیلئے یہ بہترین سہارا ہے۔ ٹریک پر کچھ حصہ سیمنٹ کا بنایا گیا ہے اس پر بھی کیچڑ کی تہہ جمی تھی، پھسلن بھی تھی اور اوپر والا ٹریک بالکل کچی مٹی کا اس پر پھسلنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ بہت سارے لوگ واپس نیچے آ رہے تھے کیونکہ عصر کا وقت تھا۔ کچھ ہمارے جیسے نئے شوقین اڑنگ کیل دیکھنے کیلئے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے ہم تو اتنا اوپر جلدی نہیں جاتے تھے جتنی جلدی ہماری سانس اوپر چڑھ جاتی تھی۔

ہر دس قدم کے بعد *تھوڑا ساہ لے لئیے رکو ایتھے* کی آواز آجاتی۔ اوپر سے نیچے آتے افراد کے ڈگمگاتے قدم الگ سے الرٹ کیے ہوئے تھے، ہر موڑ کے بعد آنے والے سے پوچھنا۔۔۔۔۔۔کتنا اوپر جانا ہے؟ جواب ملتا جتنا آگئے او🥰۔ اگر آپ کے پاس بیگ ہے تو ہیلپر ہر موڑ پر ملیں گے بیگ اوپر چھوڑ آؤں؟ کتنا خرچہ؟ جتنا مرضی دے دیں۔ بتاؤ تو سہی؟ پانچ سو دے دینا۔ ۔۔۔۔ اللہ معاف کرے یار کچھ کم کرو۔۔۔ آپ چار سو دے دینا۔۔۔۔ نہیں بھائی آدھا سفر تو طے کر لیا ہے کچھ کم کرو۔ جناب تین سو سے کم نہیں ہونگے باقی آپ کی مرضی۔ آپ آگے بڑھ جائیں گے وہ پیچھے ہی ہوگا کیونکہ ان کو معلوم کہ ممی ڈیڈی ماحول کے بندے اوپر بیگ سمیت جا ہی نہیں سکتے۔ پھر وہی سو پیاز اور سو چھتر والی مثال بن جاتی، آدھا راستہ بیگ بھی اٹھایا اور پیسے پورے راستے کے۔ اسی طرح کچھ امداد باہمی والے بھی ملیں گے کہ ہاتھ پکڑ کے اوپر چھوڑ آتے ہیں یا نیچے چھوڑ آتے پانچ سو دے دینا۔ لوگ دونوں سے ہیلپ لیتے لیکن اپنی نوجوان بیٹیوں کا ہاتھ ایسے ہیلپروں کے ہاتھ میں تھما دینا بالکل مناسب نہیں لگا۔

القصہ مختصر تقریباً ایک گھنٹہ کے بعد اڑنگ کیل پہنچے رک رک کے۔ شاید آخری آنے والے ہم ہی تھے۔ اوپر پہنچے تو ایک الگ ہی جہان آباد تھا۔ لا تعداد بے ترتیب گیسٹ ہاؤسز بنے تھے، اوپر پہنچتے ہی بے شمار نمائندے راز داری سے پوچھتے ملیں گے۔ کمرہ چاہیے، میرے ساتھ آجائیں ، 1000 سے 4000تک کمرہ مل جاتا۔ یہاں ہمارے جیسے چھڑے چھانڈ کو کونسا لگژری روم چاہیے بس سونے کیلئے جگہ چاہیے، مدینہ گیسٹ ہاؤس میں جگہ بنی، آٹھ افراد کا ہال نما کمرہ ملا، میزبان بٹ صاحب تھے جب ان کو پتا چلا کہ فیصل آبادی آئے ہیں تو کہتے بسم اللہ آپ جو بھی دو گے قبول ہے آپ بہت زندہ دل لوگ ہو۔ 😳 واقعی انہوں نے کمرے کا 1500 روپیہ لیا ۔

رات کا کھانا آرڈر پر تیار کروایا، مکمل مرغی ذبح ہوئی ہاف سے پلاؤ ہاف سے شوربہ تیار ہوا۔ رج کے کھایا۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ فیملیز بون فائر کا لطف اٹھا رہی تھیں ہم تھکے ماندے رضائیوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ صبح ناشتہ انڈہ آملیٹ ، چائے، پراٹھا ۔ انڈہ املیٹ 50 روپے، چائے کا کپ 80 روپے اور پراٹھا 50 روپے۔ رات چاول اور سالن بھی 3000 کے قریب بل بنا تھا شاید۔ ناشتہ کے بعد اڑنگ کیل کی سیر کیلئے پیدل نکلے۔ اڑنگ کیل پر واقع سکول کی طرف مقامی بچے جوق در جوق پہنچ رہے تھے، اسمبلی کا منظر دیکھا تو اپنا بچپن اور سکول یاد آگیا۔ بچے مل کر نظم پڑھ رہے تھے
ہو میرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت
جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت
کافی تعداد تھی طلباء کی، نظم کے بعد ملی نغمہ نے بھی خوب سماں باندھا
اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا اللہ اکبر

اس کے بعد ایک طالب علم نے تجوید کے بہترین اصولوں پر چھے قلمے سب کو پڑھائے۔ اس کے بعد انسپکشن کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ کے کان کم اور کچھ کے چنگی طرح مروڑ کے سیٹ کیے جا رہے تھے، طالبات کی انسپکشن لیڈی ٹیچر اور طلباء کے میل ٹیچر چیک کر رہے تھے۔ آگے بڑھے تو شاندار منظر منتظر تھا۔ چشموں کا پانی ایسے وادی میں بہہ رہا تھا جیسے جسم کی رگوں میں خون کی گردش۔ مرنڈا کی ڈیڑھ لیٹر بوتل 180 کی ملی، ایک DSLR کیمرہ والے بھائی صاحب آ دھمکے، بچوں نے شوقیہ فوٹو بنوانی شروع کیں۔ بعد میں پتا چلا کہ 60 فوٹو کا جب اس نے 1200 مانگا۔ 1000 میں بات ختم ہوئی نہایت برا سا منہ بنا کے اس نے پیسے لیے تصاویر موبائل میں کاپی کروائیں اور یہ جا وہ جا۔ ہم کاروباری دیکھ رہے تھے کہ صرف 10 منٹ میں 1000 کمانے کا طریقہ اچھا ہے۔ دن 11 بجے واپسی کے ارادہ سے سامان اٹھایا اور کیبل کار کی طرف اترائی اترنے لگے۔ بے شمار افراد پورے ٹریک پر پوچھتے ملے۔۔۔۔۔بھائی اڑنگ کیل کتنا رہتا ہم کہتے جتنا آگئے ہو تو وہ گھور کے ہم کو دیکھتے پھولی سانسوں سے وہ بیچارے جھگڑا کرنے سے تو رہے بس بے سُرے منہ بنا کے ہی گزارہ ہوگیا۔

بہت سارے لوگ بوڑھے افراد اور شیر خوار بچوں کو لیکر اڑنگ کیل یاترا کو نکل پڑتے ان سے التماس ہے تصاویر دیکھنے پر ہی اکتفا کریں یا کیبل کار پر آر پار آجا کر گزارہ کر لیں ۔ ورنہ دو گھنٹے کی ہائیکنگ پکی۔ کیبل کار پر پہنچے تو شیڈول ملا کہ کون کون سا وقت سیاحوں کیلئے کونسا وقت فوجیوں کیلئے اور کونسا بچوں کیلئے اور مقامی افراد کیلئے ہے۔ سیاح حضرات کیبل کار والوں سے الجھتے بھی نظر آئے کہ پہلے میں جانا وہ کہتے کہ بھائی مقامی افراد نے بھی جانا۔ واپس کیل پہنچے، دوپہر کا کھانا کھایا، فیصل آباد سے شامل ہونے والے چاروں ساتھیوں کا سفر یہاں اختتام پذیر ہوا وہ واپسی کا فیصلہ کر چکے تھے جبکہ ہم شاہسوار کیل سے تاؤبٹ کیلئے پر تول رہے تھے۔ بغلگیر ہوئے اجازت لی اور ہم اپنی منزل تاؤبٹ اور وہ شاردہ کیلئے لوکل گاڑی پر روانہ ہوگئے۔ کیوں کہ وہاں سے شام 5 بجے ڈائریکٹ پنڈی کا ٹائم نکلتا ہے اس پر سوار ہوں گے۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 60 Articles with 18478 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.