فیصل آباد سے تاؤ بٹ،وادی نیلم کا سفر (وقار کا سفرنامہ) آٹھویں قسط

فیصل آباد سے چلنے والے مسافر بالآخر تاؤ بٹ پہنچ چکے تھے جو وادی نیلم کا آخری گاؤں ہے۔ کیل سے تاؤ بٹ کے سفر نے واقعی نظارے کروا دیے، آف روڈ بھی ایسا کہ ہر موڑ پر دم نکلے، منظر ایسا کہ پرستان کا گمان ہو۔ امید ہے یہ قسط بھی آپ کو محظوظ کرے گی۔

تاؤبٹ کا یہ منظر جب بھی دیکھو دل ودماغ کو تروتازہ کر جاتا ہے

اڑنگ کیل سے واپسی پر دلی کیفیت ملے جلے رجحان والی تھی ہائیکنگ کا شوق رکھنے والے تو لازمی جائیں خوبصورت لینڈ اسکیپ، چشمے، دیسی قدرتی ماحول دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن جو چل نہیں سکتے ان کو ہرگز نہ لے جائیں ورنہ بندہ اچھا خاصہ اس سفر سے بور ہو جاتا۔ دوسرا یہ کہ اس چڑھائی میں اپنا آپ بھی سنبھالنا مشکل ہوتا چہ جائیکہ آپ شیر خوار بچوں، بڑے بڑے بیگز اور پہلے سے چلنے پھرنے سے عاری بزرگوں کو ساتھ لیکر چلنا واقعی مشکل بات ہے۔ مزید باتیں اس سفر نامے کے بعد حسب سابق الگ سے لکھ کر شیئر کروں گا تاکہ سب کیلئے کچھ آسانی پیدا ہو سکے۔

ہم نے کیل میں اپنی موٹرسائیکلیں پارکنگ میں لگائی تھیں جنہوں نے 50 روپے فی موٹرسائیکل وصول کیے، ہیلمٹ بھی ادھر ہی جمع کروا دیے۔ واپسی پر وصول کیے اور دن ایک بجے ہم تاؤ بٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اگر میں کہوں کہ اصل ایڈوینچر یہاں سے شروع ہوتا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ لوکل کوسٹر بھی اس ٹریک پر چلتا ہے مگر یہ راستہ فور بائی فور جیپ کا ہے۔ یا پھر 150 سی سی سے زائد پاور والی موٹر سائیکل کا۔ ہم تو 125 سی سی لیکر روانہ ہو چکے تھے۔۔۔۔۔ *اللہ دے آسرے تے۔۔۔۔توکلت علی اللہ*۔ کچا سنگل روڈ، وہ بھی کھڈوں سے بھرپور، بہت مقامات ایسے آتے کہ بندہ رک کے باقاعدہ سوچتا ہے کہ کیا موٹرسائیکل یہ چڑھائی چڑھ سکے گی؟ کچھ مقامات پر پانی جمع ہونے کی بدولت کیچر ایسا زبردست کہ نکلنے کا راستہ ہی نہیں ملتا سوائے اس شعر کے مصداق

یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

اب تو جانا ہی تھا اور ہم بھی آئے تھے اس راستہ کی اخیر دیکھنے تو جان جوکھوں میں ڈالنا لازمی امر تھا۔ اس سب کے باوجود کیل سے تاؤ بٹ کا سفر واقعی پرستان کا سفر ہے، اگر کسی دور میں اس ایریا کو کوہ کاف کہا جاتا رہا ہے تو وہ حق بجانب تھے، مناظر ایسے کہ جو لکھنے سے باہر، اور کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ اب تک کے کشمیر کے سفر میں یہ دوسرا علاقہ ہے جو مجھے پسند آیا پہلا نون بگلہ جو چکار سے اوپر واقع ہے اس کا بھی نہایت کچا راستہ ہے، دوسرا تاؤ بٹ۔ قدرت کے حسین نظاروں سے بھرپور وادی الگ ہی نظارہ دیتی ہے۔ تین گھنٹے کے سفر کے بعد ہم تاؤبٹ پہنچ گئے۔ ہوا میں خنکی تھی، بادل آ اور جا رہے تھے، دریائے نیلم ایک نالے کی شکل میں بہہ رہا تھا مگر پانی کی سپیڈ اب بھی بہت تیز تھی۔

تاؤ بٹ کے گاؤں کو ماڈل گاؤں کا درجہ دے کر نئی بے ہنگم تعمیرات سے روکا ہوا ہے، پورا علاقہ نیشنل پارک قرار دے کر شکار پر پابندی عائد ہے۔ جنگلی حیات اس علاقہ میں کافی پائی جاتی ہے رہائشی علاقہ میں تو پالتو جانوروں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا البتہ سب مقامی افراد نے تصدیق کی کہ ان پہاڑی جنگلات میں تیندوے ، ریچھ، سمیت بہت سارے جانور رہتے ہیں ۔ تاؤبٹ مشہور زمانہ ٹراؤٹ مچھلی کا بھی گھر ہے۔ مگر حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کسی بھی دوکان پر بورڈ نظر نہیں آیا کہ ٹراؤٹ دستیاب ہے، شروع شروع میں سمجھ نہیں پایا کہ معاملہ کیا ہے یا کیا ٹراؤٹ کا کوئی موسم بھی ہوتا ہے جبکہ تاؤبٹ میں جون کے مہینہ میں جیکٹ پہننا پڑتی ہے۔ سنا تھا کہ یہاں تاؤبٹ میں ٹراؤٹ مچھلی کا فارم بھی ہے۔

پل کراس کرکے گاؤں جانے والی سڑک سے دریائے نیلم پر پہنچے اس کے ساتھ ساتھ چلتے جائیں تو مچھلی فارمنگ کا بورڈ ملا۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ فارم تو بند ہے۔ عملہ مچھلیوں سمیت غائب تھا۔ یا شائد مچھلیاں ناراض ہوکر بھاگ گئی تھیں 😃 ۔ با دل نخواستہ واپسی کی راہ لی ارادہ تو یہی تھا کہ ٹراؤٹ مچھلی 🐟 کھائیں کہ وہ کیسی ہوتی ہے مگر ہماری قسمت ۔ ایک دوکان والے سے پوچھا تو بولا کہ 3500 روپے کلو میں لا دیتا ہوں عام نہیں ملتی شکار پر پابندی ہے😒۔ اس سے مزید پوچھا تو معلوم ہوا کہ گاؤں کے بچے دریا سے پکڑکر گھروں میں لے آتے ہیں ایک یا دو گھروں میں ڈیپ فریزر ہے اس میں جمع کرتے جاتے پھر وہاں سے حسب ضرورت فریز مچھلی خریدی جاتی ہے اور نہایت رازدارانہ انداز میں پکا کے خدمت میں پیش کر دی جاتی ہے۔۔ ۔ ہمارا ایشو یہ تھا کہ ٹراؤٹ کی لائیو زیارت نہیں کی تھی کہیں سادہ مچھلی کو ٹراؤٹ کہہ کے ہم کو چونا نہ لگا دیا جائے جیسے ہمارے ہاں لیچی کو رنگ لگا کے فروخت کیا جاتا ہے🤫۔

ہم نے بھی فل کاروباری انداز میں ایک شرط رکھی کہ پہلے ٹراؤٹ مچھلی دیکھیں گے پھر خریدیں گے۔ وہ کسی کے پاس ہو تو دکھائیں ۔ واپس گیسٹ ہاؤس کی طرف چل دیے جو 1000 روپیہ پر چار افراد کیلئے کمرہ حاصل کیا تھا ۔ ایک اور دوکان والے سے بات کی ساتھ دیکھنے کی شرط رکھی تو وہ مان گیا۔ کچھ دیر کے بعد کپڑے کے تھیلے میں چھپا کر واپس آیا جیسے پرانے دور میں لوگ وی سی آر چھپا کر لایا کرتے تھے 🫣، برف جمی ہوئی تھی چار چھوٹی چھوٹی مچھلیاں ایک کلو میں آئی تھیں ۔ برف میں منجمد ہو چکی تھیں، ہم خوش تھے کہ چلیں ٹراؤٹ کی زیارت تو ہوئی لیکن فریز مچھلی کو نارمل کرنا وہ بھی تاؤ بٹ کے سرد موسم اور دریائے نیلم کے یخ بستہ پانی میں یہ بھی ایک بڑا کام ہے۔ پانی میں ڈالی تو پانی پہلے سے یخ بستہ تھا۔ آدھے گھنٹہ سے زیادہ وقت لگا۔ ایک کلو کا آرڈر 4 چھوٹی چھوٹی مچھلیاں پورے 3000 روپے میں ملیں۔ ایک گھنٹہ وقت دیا گیا تیار کرنے کا ساتھ شرط تھی کہ ادھر ہی بیٹھ کے کھائیں گے ورنہ نیشنل پارک والے پکڑ لیتے جرمانہ الگ سے۔ مچھلی نہ ہوئی ممنوعہ شئے ہوگئی۔

خیر صبر شکر کر کے ایک دوکان پر جا کر پکوڑوں کا آرڈر دیا، نوجوان با اخلاق لڑکا تھا *معروف* نام بتایا تھا شاید اس نے، تازہ گرما گرم چپس نما پکوڑے ۔ اچھا ٹیسٹ تھا اس کے ہاتھ میں ۔ اسی دوران ایک چھوٹا لڑکا تازہ ٹراؤٹ فش پکڑ کے لے آیا وہ بھی چھوٹی سی تھی۔ اس سے پوچھا کتنے میں بیچو گے؟ اس نے مسکرا کر کہا آپ مہمان ہو ویسے ہی رکھ لو۔ مقامی لوگ واقعی مہمان نواز ہیں ۔ (اگر ہم سیاح لوگ ان علاقوں کو شہر کی جدید آلائشوں سے آلودہ نہ کریں تو)۔ وہ گفٹ ملنے والی مچھلی بھی ساتھ پکنے کو دے دی۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد مچھلی تیار ہوئی۔ تلی ہوئی ٹراؤٹ مچھلی جس گھی میں یہ تلی جائے وہ دوبارہ کسی استعمال میں نہیں آتا پورا کلو گھی تھا۔ گھی بھی آج کل 540 روپے کلو ہے اور تاؤ بٹ میں پہنچتے پہنچتے 580 تک چلا جانا عام بات ہے۔ مچھلی کے ٹکڑوں میں تازہ مچھلی کا ذائقہ ہی الگ تھا۔ بغیر روٹی مچھلی چٹ کر گئے۔

سردی بھی کافی تھی مچھلی کے بعد کچھ بہتری ہوئی۔ اپنے کمرے میں چل دیے کیوں کہ دن بھر کا تھکا دینے والا سفر اس بات کا متقاضی تھا کہ ریسٹ کیا جائے۔ یہ تاؤ بٹ میں ہماری زندگی کی پہلی رات تھی۔ سارا ہوٹل مکمل لکڑی کا بنا تھا فرش، دیواریں ، چھت، سیڑھیاں سب لکڑی کے بنے تھے۔ ایک بھینی بھینی خوشبو ہر سو پھیلی تھی اتنے لکڑی شناس تو نہیں لیکن چیڑ، دیار یا ساگوان کی تھی(جو جو نام آتے ہیں سب لکھ دیے کوئی تو ہوگی) ۔

یقیناً ایسا مکان پنجاب میں اس لکڑی کا بنانا ہو تو بلاشبہ کروڑوں میں بنے مگر یہاں کنکریٹ کا مکان بنانا مشکل ہے۔ ہوٹل میں صاف ستھرے بستر ملے اور کمبل واقعی موسم کے مطابق بہترین موٹے تازے تھے۔ لیٹتے ہی نیند آگئی اگلے دن کا فی الوقت کوئی پلان نہیں تھا سوائے واپس نکلنے کے۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
 

محمد قاسم وقار سیالوی
About the Author: محمد قاسم وقار سیالوی Read More Articles by محمد قاسم وقار سیالوی: 63 Articles with 19132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.