ایک روشن دماغ تھا نہ رہا

(Malik Zeeshan Abbas, Islamabad)

زندگی کے سفر میں، کسی نہ کسی مقصد کے تحت، کئی اجنبی لوگ ملتے ہیں، مقصد ختم ہو جانے کے بعد وہ ہمیں بھول جاتے ہیں اور ہم انہیں. جبکہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن سے بار بار ملنے کو جی چاہتا ہے، ہر ملاقات کے بعد تشنگی باقی رہتی ہے، دوبارہ ملاقات کا اشتیاق پہلے سے زیادہ، بڑھ جاتا ہے. یہی وہ چند لوگ ہوتے ہیں جو، دوست کہلاتے ہیں، استاد کہلاتے ہیں، مرشد کہلاتے ہیں. میری زندگی میں علامہ گُل محمد سیالوی صاحب انہی چند لوگوں میں سے ایک تھے.

علامہ صاحب، میرے والد صاحب کے استاد بھی تھے اور دوست بھی. 2019 کی ایک رات، والد صاحب کے ہمراہ میری تلہ گنگ میں سرگودھا روڈ پر، ملکوال میں، علامہ صاحب کے مدرسے میں اُن سے پہلی ملاقات ہوئی. گو کہ یہ ملاقات، تعارف سے آگے نہیں بڑھی تھی لیکن علامہ صاحب کی شخصیت نے دل پر نقش ضرور چھوڑ دیے.
ایف ایس سی مکمل ہو چکی تھی، کالمز، میں کالج کے زمانے سے ہی لکھتا تھا. کالج چھوڑ دینے اور یونیورسٹی جوائن کرنے کے مختصر سے درمیانی وقفے میں، میں نے اپنے علاقے کی نامور شخصیات کے انٹرویوز ریکارڈ کرنے کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا.

علامہ گُل محمد سیالوی صاحب سے دوسری ملاقات، اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی. لہٰذا جولائی 2019 کی ایک دوپہر، ہم علامہ صاحب کے مدرسے میں پہنچ گئے. علامہ صاحب، مدرسہ سے ملحقہ گھر میں رہائش پذیر تھے. ہم اُن کے مدرسہ میں قائم اُن کی لائبریری میں اُن کا انتظار کرنے لگے. تھوڑی ہی دیر میں علامہ صاحب بھی وہیں تشریف لے آئے. تعارف ہوا ، انہوں نے ہمیں نہایت محبت اور شفقت سے خوش آمدید کہا. اُس روز ہم نے تقریباً ایک گھنٹہ فرقہ واریت اور انتہا پسندی و شدت پسندی سمیت دیگر موضوعات پر علامہ صاحب کی گفتگو سنی اور ریکارڈ کی. علامہ صاحب، معاشرے میں مسلکی اختلافات کے حوالے سے انتہا پسندی اور شدت پسندی کی وجہ، عام آدمی کی مطالعے اور تحقیق کی کمی کو قرار دیتے تھے اور علامہ صاحب کے مطابق یہ صاحبانِ منبر کی کمزوری اور شاید غلطی ہے کہ وہ عام آدمی کو مطالعے اور تحقیق کی جانب راغب نہیں کرتے.

کچھ عرصے کے بعد دوبارہ ایک شام علامہ صاحب کے مدرسے میں ہی اُن کی لائبریری میں ملاقات ہوئی. علامہ صاحب کی لائبریری میں متنوع موضوعات پر کتب کا بہت بڑا ذخیرہ موجود ہے. اُس روز گپ شپ کے دوران علامہ صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس گاڑی نہیں ہے. مجھے دور دراز علاقوں میں مذہبی اجتماعات میں شرکت کیلئے جانا پڑتا ہے تو میں اپنے میزبانوں سے کہتا ہوں کہ گاڑی بھجوا دیں، تو میں آ جاؤں گا. اس میں شرمندگی بھی ہوتی ہے، لیکن اگر میں یہ ساری کتابیں جو یہاں موجود ہیں، بیچ دوں، تو کیا میں کوئی مناسب سی گاڑی نہیں خرید سکتا جو میری یہ ضرورت پوری کر سکے؟ میں نے کہا، بلکل خرید سکتے ہیں، کہنے لگے؛ پھر میرے پاس کیا رہ جائے گا؟؟؟

پھر 2020 میں محرم الحرام کے دوران، یوم عاشور کے حوالے سے ایک پروگرام کرنا تھا. اس پروگرام میں بھی میں نے علامہ صاحب کو بطور مہمان شرکت کی دعوت دی. پروگرام کی ریکارڈنگ سٹوڈیو میں ہونا تھی. لہٰذا ہم علامہ صاحب کو لینے کے لیے، ان کے مدرسے میں پہنچ گئے، انہیں لے کر سٹوڈیو آئے، سٹوڈیو میں سانحہ کربلا کے متعلق تقریباً آدھے گھنٹے کا پروگرام ریکارڈ کیا. علامہ صاحب نے جب اجازت چاہی تو میں بھی ان کے ہمراہ چل دیا کہ علامہ صاحب کو اُن کے گھر تک چھوڑنا ہے. اُس وقت سٹوڈیو میں چند شعرا بھی موجود تھے کیونکہ میرے پروگرام کے بعد، ہمارے بھائی جناب حسنین عاکف مرحوم کی میزبانی میں، محفل مسالمہ کی ریکارڈنگ ہونی تھی. سٹوڈیو میں دیگر لوگ بھی دیکھ کر علامہ صاحب نے مجھے کہا کہ آپ یہیں ٹھہرو، آپ کے مہمان بیٹھے ہیں اور مہمانوں کی موجودگی میں میزبان کی غیر موجودگی، مناسب بات نہیں ہے. لہٰذا میں نے علامہ صاحب کی بات مانتے ہوئے، انہیں سٹوڈیو کے باہر سے ہی رخصت کیا اور چھوٹے بھائی کو اُن کے ہمراہ بھیج دیا.

علامہ صاحب سے آخری ملاقات نومبر 2021 کی ایک شام اُن کے مدرسے میں ہوئی. یہ ملاقات بھی تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی.اُس ملاقات میں فن تقریر کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی تو علامہ صاحب کہنے لگے کہ اچھے مقرر یا اچھی گفتگو کرنے والے کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ سامع یا سامعین کی ذہنی سطح کو مدنظر رکھتے ہوئے گفتگو یا تقریر کرے، نہ کہ اپنی دھاک بٹھانے کے لیے پرجوش انداز میں ہاتھوں کو بے مقصد اِدھر اُدھر حرکت دے یا لفظوں کو بھنبھوڑے، اور ویسے بھی ایسی حرکات کی ضرورت اُسے ہوتی ہے جس کے پاس علمی مواد کی کمی ہو، لیکن پھر وہ مقرر نہیں کہلاتا، مسخرہ کہلاتا ہے. میں جب بھی کہیں خطاب کرنے کے لیے جاتا ہوں تو پہلے سے طے شدہ موضوع تک محدود رہنے کے بجائے اپنے سامعین کا جائزہ لیتا ہوں، مشاہدہ کرتا ہوں اور پھر یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا؟؟؟
یعنی
سامنے کس کے؟ مجھے کہنا ہے کیا؟
اتنا کچھ تو یاد ہونا چاہیے

وقت گزرتا گیا اور پھر 28 اپریل 2025 کی دوپہر مجھے یہ خبر ملی کہ علامہ گل محمد سیالوی صاحب رحلت فرما گئے ہیں.

علامہ صاحب، علم دوست، امن دوست، انسان دوست، خوش لباس، خوش گفتار، خوش الحان، با وضع، با اصول، مہمان نواز اور ڈیرے دار، عالم تھے. میری یہ خوش قسمتی ہے کہ لوگوں نے جس شخصیت کو، کسی محفل میں، مجمع کی صورت میں کسی ایک موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے سنا، مجھے اُس کے ساتھ، آمنے سامنے بیٹھ کر ، کئی بار سوال و جواب کی نشستوں کی صورت میں فیض یاب ہونے کا شرف حاصل ہوا. مجھے جب کبھی ضرورت پڑی یا ملنے کو جی چاہا، کہیں آتے جاتے اُن کے مدرسے کے قریب سے گزرا، تو میں بغیر کسی جھجھک، بغیر کسی تکلف کے، اٗن کے پاس جا پہنچا اور انہوں نے ہمیشہ خندہ پیشانی اور شفقت سے خوش آمدید کہا. علامہ صاحب کی محبت، شفقت، خلوص بھری محفل میں علم اور تجربے کے موتی چننا، مجھے ہمیشہ یاد رہے گا. میرے خیال میں علامہ صاحب کی رحلت کے بعد، اب میرے لیے سرگودھا روڈ پر سفر کرتے ہوئے، ملکوال میں کچھ دیر ٹھہرنے کی کوئی خاص وجہ باقی نہیں رہی.

ایک روشن دماغ تھا، نہ رہا
شہر میں اک چراغ تھا،نہ رہا
 

Malik Zeeshan Abbas
About the Author: Malik Zeeshan Abbas Read More Articles by Malik Zeeshan Abbas: 5 Articles with 1982 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.