جلتا ہوا بچہ، سسکتی ماں، ملبے تلے دبی لاشیں، اور روتی
آنکھیں... یہ کوئی فلمی منظر نہیں، یہ حقیقت ہے۔ یہ فلسطین ہے، جو کئی
دہائیوں سے ظلم، بربریت، اور بے حسی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ وہاں نہ رات
محفوظ ہے نہ دن، نہ گھروں کی چھت سلامت ہے نہ بچوں کی ہنسی۔ وہاں صرف بارود
بولتا ہے، اور سناٹا چیخوں سے ٹوٹتا ہے۔
فلسطین کے مظلوم چہرے، سسکتے وجود، اور شہید ہوتے معصوم بچے جب ہماری ٹی وی
اسکرین پر آتے ہیں تو ہم تھوڑی دیر کو "افسوس" کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہم
میں سے کوئی نہیں رکتا، کوئی نہیں چیختا، کوئی نہیں جھنجھوڑتا ان ضمیروں کو
جو مردہ ہو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے: کیا ہم واقعی زندہ ہیں؟ یا صرف زندہ لاشیں
بن چکے ہیں جو اپنی ہی بے حسی کے قبرستان میں دفن ہو چکے ہیں؟
جب القدس پکار رہا ہے، تو ہم خاموش کیوں ہیں؟ جب بیت المقدس کی فضاؤں میں
اذانیں خون میں لپٹی سنائی دیتی ہیں، تو ہمارا ایمان کیوں نہیں جاگتا؟ ہم
جو صلاح الدین ایوبی کو اپنا ہیرو کہتے نہیں تھکتے، کیا ہم نے اس کی غیرت،
اس کی جرأت، اور اس کے خوابوں کو دفنا دیا ہے؟ شاید ہاں، کیونکہ صلاح الدین
ایوبی کے بعد یہ اُمّت صرف تقریریں کرتی آئی ہے، عملی اقدام سے کوسوں دور۔
آج فلسطین میں بچوں کے جسم کے پرخچے اُڑ رہے ہیں، مگر مسلم دنیا کے حکمران
صرف بیانات دے رہے ہیں۔ کہیں مذمت، کہیں تشویش، کہیں "شدید الفاظ" میں
احتجاج—بس اتنا ہی۔ ان کے پاس جدید اسلحہ ہے، میزائل ہیں، ڈرونز ہیں، اور
وہ فخریہ بتاتے ہیں کہ یہ فلاں عظیم مسلمان شخصیت کے نام پر رکھے گئے ہیں،
مگر وہ معصوم فلسطینی بچوں کے تحفظ کے لیے نہیں، صرف تقریبات میں نمائش کے
لیے رکھے گئے ہیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبردار کہاں ہیں؟
اقوامِ متحدہ، انسانی حقوق کی تنظیمیں، اور مغرب کے "مہذب" ممالک کیوں
اندھے، بہرے اور گونگے ہو چکے ہیں؟ یہ سب اُس وقت تو حرکت میں آ جاتے ہیں
جب کسی جانور کو تکلیف پہنچے، مگر جب فلسطین میں انسانوں کو جانوروں سے
بدتر سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تب سب چپ کیوں ہو جاتے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ ہم سب مجرم ہیں—مسلمان عوام، حکمران، علما، دانشور، اور وہ
میڈیا بھی جو اصل تصویر دکھانے سے قاصر یا قصداً غافل ہے۔ ہم سب نے قدس کو
تنہا چھوڑ دیا ہے۔ ہم نے فلسطین کے بچوں کی چیخوں کو سنا مگر کان بند کر
لیے، ہم نے ان کی لاشیں دیکھیں مگر آنکھیں پھیر لیں۔
ہم سب کو سوچنا ہو گا کہ ہماری خاموشی، ہماری بے عملی، اور ہمارے خالی
دعوے، دراصل دشمن کی مدد کر رہے ہیں۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ بیت المقدس صرف
فلسطین کا نہیں، یہ ہر مسلمان کا ہے۔ یہ ہماری غیرت، ہماری پہچان، اور
ہمارے ایمان کی علامت ہے۔
اگر آج بھی ہم نہ جاگے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ ہماری آنے والی
نسلیں ہمیں لعنت کریں گی۔ اور جب ہم روزِ محشر بیت المقدس کے شہداء کے
سامنے پیش ہوں گے تو ہمارا سر جھکا ہو گا۔
اے القدس! ہم شرمندہ ہیں، کیونکہ ہم نے تمہیں تنہا چھوڑ دیا۔
|