میں جی رہا ہوں

میں جی رہا ہوں، ہاں، بس جی رہا ہوں۔ نہ جینے کا کوئی جواز ہے، نہ کوئی خاص وجہ، نہ ہی دل میں کوئی امید بچی ہے، پھر بھی سانسیں چل رہی ہیں۔ جیسے کوئی اندر ہی اندر خالی ہو گیا ہو، مگر جسم اب بھی زمین پر سایہ بنائے پھرتا ہو۔ وہ جو خواب کبھی آنکھوں میں اترتے تھے، اب بس نیند کی دہلیز پر سسک کر لوٹ جاتے ہیں۔ کوئی بھی نہیں سمجھتا، شاید میں خود بھی نہیں سمجھتا کہ میں جی کیوں رہا ہوں، مگر میں جی رہا ہوں۔

اک زمانہ تھا، جب دل میں ایک خیال آباد ہوا، خاموش سا، نازک سا، ان کہی سی چاہت۔ وہ چاہت جو کسی تک پہنچی ہی نہیں، وہ جذبات جو لفظوں میں ڈھل ہی نہ سکے، وہ جذبے جو دھڑکنوں کے شور میں بھی گم رہے۔ کسی کی مسکراہٹ سے امید جوڑ بیٹھا، کسی کی خاموشی کو رضا سمجھ لیا، اور اپنی ہی دنیا میں محل بناتا چلا گیا۔ پر میں بھول گیا تھا کہ یکطرفہ تعلق، یکطرفہ سزا ہوتا ہے۔ اور اب یہ سزا پوری کر رہا ہوں، لمحہ لمحہ، سانس سانس۔ وہ کبھی نہیں جان پائے گی، کہ اُس کی ایک مسکراہٹ میرے دل میں کتنی روشنی بکھیر دیتی تھی، یا اُس کی ایک نظر میرے کتنے دن روشن کر دیتی تھی، وہ کبھی نہیں سمجھے گی کہ میرا سکون کہاں گم ہو گیا، کیونکہ میں نے کبھی کچھ کہا ہی نہیں، اور اب، کہنا ممکن نہیں رہا۔

نہ خوش ہوں، نہ پرسکون، نہ مطمئن، پھر بھی سانسیں چل رہی ہیں۔ جیسے کوئی ٹوٹا ہوا کھلونا ہو جس کی گھڑی پھر بھی چل رہی ہو۔ میں اندر سے بکھر چکا ہوں، برباد ہو چکا ہوں، لیکن لوگوں کی نظروں میں اب بھی زندہ ہوں۔ شاید اس لیے کہ مجھے چیخنا نہیں آتا، رونا نہیں آتا، اور سب سے بڑھ کر، کسی سے کہنا نہیں آتا۔

نہ میں کسی کو الزام دے سکتا ہوں، نہ شکایت کر سکتا ہوں۔ سچ کہوں تو جس دل کو چُپکے سے کسی کے نام کر دیا تھا، اُسے معلوم ہی نہیں، اور شاید اب کبھی نہ ہو۔ یہ قصہ جو صرف میرے اندر شروع ہوا، میرے اندر ہی دم توڑ رہا ہے۔ کوئی اور نہیں، میں ہی خود کو ڈسا ہوا زہر پلائے جا رہا ہوں۔ ہر دن، ہر رات، ایک نیا زخم، ایک نیا ماتم، اور پھر بھی کہتا ہوں: میں جی رہا ہوں۔ مگر یہ جینا صرف جینے جیسا نہیں۔ یہ تو جیسے ایک سزا ہے جو ہر لمحہ مجھے میرے اندر سے نوچتی ہے۔ ایک وقت تھا جب میں جینے کے مفہوم کو جانتا تھا، خوشی کا ذائقہ محسوس کرتا تھا، کسی بےنام سی روشنی میں سانس لیتا تھا، لیکن اب، اب تو جیسے ہر سانس ایک قرض ہے، ہر دھڑکن ایک بوجھ، ہر دن ایک بےمقصد مسافت۔

میں نے اُسے کبھی نام لے کر نہیں پکارا، نہ کبھی اقرار کیا، نہ سوال کیا، نہ جواب مانگا۔ بس ایک خاموشی میں اُس کے گرد اپنی دنیا بُنی، ایک خاموش عقیدت میں، ایک سادہ امید میں۔ اور پھر وہ وقت بھی آیا جب میں نے خود کو اُسی خاموشی میں دفن کر دیا۔ کسی خواب میں اُس کا چہرہ دیکھنا اب بھی ایک قرب ہے، اور جاگ کر اُس کی حقیقت کو جاننا، وہ مستقل سزا ہے جس سے میری صبح ہوتی ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں، کاش یہ سب ایک خواب ہوتا۔ کاش صبح آنکھ کھلے تو دل ہلکا ہو، ذہن پرسکون ہو، اور وہ دکھ جو روز رات کے سائے میں میرے اندر جاگتا ہے، کہیں مٹ چکا ہو۔ مگر یہ خواب بھی مجھے نصیب نہیں۔ میں خود کو بہلانے کی ہزار کوششیں کرتا ہوں، ہر دن کو نئے رنگ دینے کی جھوٹی تسلی دیتا ہوں، لوگوں کی باتوں میں، چہروں میں، ہنسی میں پناہ ڈھونڈتا ہوں، لیکن کہیں سکون نہیں ملتا، کہیں بھی نہیں۔

اکثر لوگ پوچھتے ہیں، ”خیریت ہے؟“ میں مسکرا دیتا ہوں، کیونکہ اس سے آسان کوئی جواب نہیں۔ نہ ان کے پاس وقت ہے سننے کا، نہ میرے پاس ہمت ہے بتانے کی، کہ کیسے میں ایک کھنڈر میں جاگتا ہوں، کیسے ہر صبح خود کو چھُپانے کے لیے نقاب پہنتا ہوں، کیسے ہر رات اُس چہرے کا خیال مٹی کی طرح آنکھوں میں بھر جاتا ہے، اور کیسے میں بستر پر لیٹ کر اپنی شکست گنتا ہوں۔
اُس کا ذکر زبان پر کبھی نہ آیا، اور اب بھی نہیں آتا، لیکن دل کے ہر کونے میں وہ موجود ہے۔ میں نے خود کو جلتے دیکھا ہے، اندر ہی اندر راکھ ہوتے ہوئے، اور کسی کو خبر بھی نہیں ہوئی۔ شاید لوگوں نے کبھی غور ہی نہیں کیا، شاید میں نے انہیں موقع ہی نہ دیا۔ اور اب عادت بن چکی ہے، خود کو چھپانے کی، ہنستے چہرے کے پیچھے درد کی دیوار کھڑی کرنے کی۔

لوگ کہتے ہیں کہ وقت سب کچھ بھلا دیتا ہے، پر وقت نے تو بس زخم گہرے کیے ہیں۔ اب میں چلتا ہوں، ہنستا ہوں، لوگوں کے ساتھ باتیں کرتا ہوں، جیسے سب کچھ ٹھیک ہے، لیکن جب رات آتی ہے اور سب شور تھم جاتا ہے، تب میرا اصل چہرہ جاگتا ہے، تب میری رگوں میں خالی پن دوڑتا ہے، اور میری آنکھیں اُس عکس کو ڈھونڈتی ہیں جو کبھی میرا تھا ہی نہیں۔

کبھی آئینہ دیکھتا ہوں تو وہ شخص نظر آتا ہے جو کسی اور زمانے میں کھو گیا ہے۔ جس کی آنکھوں میں اب چمک نہیں، صرف انتظار ہے، بےمقصد، بےنام، بےانتہا۔ میری یہ زندگی، ایک سستا سا ناٹک بن گئی ہے، جس کا اختتام کسی کو معلوم نہیں، یہاں تک کہ مجھے بھی نہیں۔ بس ایک بات جانتا ہوں: میں جی رہا ہوں، چاہے یہ جینا زخموں کی ایک لمبی زنجیر کیوں نہ ہو، چاہے اس میں ہر لمحہ اُس ایک لمحے کی کمی کیوں نہ ہو، میں پھر بھی جی رہا ہوں، کہ شاید، کہیں کسی روز، کوئی دعا، کوئی کرم، کوئی نظر، میرے وجود کے اس اندھیرے میں روشنی ڈال دے، اور اگر نہ بھی ڈالے, تو کم از کم یہ خاموش اذیت، میرے جینے کی گواہ تو رہے گی۔

میں کسی کو کچھ نہیں بتاتا، کیونکہ یہ درد نہ سننے والا سمجھ پائے گا، نہ سمجھنے والا سہہ پائے گا۔ میں جی رہا ہوں، خاموشی کی چھاؤں میں، تماشہ بن کر بھی تماشا دیکھتے ہوئے۔ لوگوں کے بیچ ہو کر بھی تنہائی اوڑھ کر۔ ہنستے چہروں کی بھیڑ میں خود سے نظریں چُراتے ہوئے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں، محبت کے بغیر جینا، صرف جینا ہوتا ہے، زندگی نہیں۔
میں جی رہا ہوں، ایک ایسے رستے پر جس کا نہ کوئی کنارہ ہے نہ روشنی، ہر قدم بھاری ہے، ہر لمحہ بوجھ، اور جب میں اپنے دل کے اندر جھانکتا ہوں تو وہاں کچھ نہیں ہوتا، بس ایک ادھورا سا نام، ایک ساکت سی یاد، ایک ٹھنڈی سی سانس، کاش میں اتنا کمزور نہ ہوتا، کاش دل کو سمجھا سکتا کہ وہ جسے چاہتا ہے، اُس کا ہونا ضروری تو نہیں، لیکن دل، وہ تو دل ہے، اور میری سزا یہ ہے کہ میں اسے سہتا رہوں، خاموش، اکیلا، اور زندہ۔

میں سزا کاٹ رہا ہوں، اپنی ہی حماقت کی۔ میں نے دل دیا، دیوانگی دی، خاموشی دی، سب کچھ دے دیا، اور بدلے میں کچھ نہ مانگا، مگر شاید یہی میری بھول تھی، کہ جو کچھ نہ مانگے، اُسے کچھ نہیں ملتا، نہ تسلی، نہ تسکین، نہ اپنا آپ واپس۔ بس رہ جاتی ہے ایک خالی سی سانس، اور وہی سانسیں اب میری زندگی ہیں۔ کیونکہ میں، جی رہا ہوں۔ اور یہ جینا، میری بےآواز چیخ ہے، میری بےصدا محبت کی سزا ہے، میری اپنی ہی خامشی کی قیمت ہے، جو میں ہر دن، ہر رات، چکا رہا ہوں۔

میرے لیے اب زندگی ایک معمول ہے، نہ کوئی نیا دن، نہ کوئی نئی خوشی، بس ایک ہی دکھ، ایک ہی یاد، ایک ہی گم سم چیخ! اور اُس کے ساتھ جُڑی ہر بات جو صرف میرے دل میں ہے، میں اُس کے بعد ایک لمحہ بھی ویسا نہیں رہا جیسا پہلے تھا، میں بکھر چکا ہوں، پر لوگ کہتے ہیں: میں جی رہا ہوں۔ یہ جینا، جیت جیسا نہیں، یہ صرف وقت کی زنجیروں میں قید ہونا ہے، کہ کوئی دن بدلے، کوئی منظر بدلے، اور شاید، کبھی کچھ نہ بدلے۔ پھر بھی میں خود سے کہتا ہوں: صبر کر، جی لے، جیسے بھی ہو۔ کیونکہ یہ جو تم نے دل کے اندر ایک چراغ جلایا تھا، وہ بجھا نہیں، بس چھُپ گیا ہے، اور شاید، کبھی، کسی روز، وہ پھر جل اٹھے، شاید۔

اور شاید یہی زندگی ہے، ایک شخص جو ایک خواب کو، ایک خیال کو، ایک خاموش عشق کو اپنی رگوں میں بہا کر، خاموشی سے ہر دن کاٹے، بغیر کسی بدلے کے، بغیر کسی صلے کے، اور پھر بھی ہنس کر خود سے یہ کہتا رہے: میں جی رہا ہوں۔
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 15 Articles with 5173 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.