دن بھر غضب کی گرمی تھی۔
سورج جیسے آگ کے گولے برسا رہا تھا۔
کمرے میں پرانا اے سی ہلکی ہلکی گھڑگڑاہٹ کے ساتھ سانسیں بھر رہا تھا،
اور پلنگ پر ماموں جی پوری شان سے نیم دراز تھے —
رنگ برنگی دھوتی پہنے، بنیان کو اوپر اٹھائے انگلیوں سے موٹی توند سہلا رہے
تھے اور سوچوں میں گم۔
سفید داڑھی اور برف جیسے بالوں میں عمر کی داستان چمک رہی تھی۔
مگر جسم ایسا کہ پلنگ کا ہر پایہ فریاد کرتا نظر آئے!
قریب ہی ممانی جان بھی پلنگ پر نیم دراز تھیں۔
چہرے پر محبت بھری جھریاں اور آنکھوں میں برسوں کی سجی اداسی۔
دروازہ چرچرایا —
اور اندر سے فروٹو نمودار ہوا۔اصل نام تو شاید کچھ اور تھا مگر سب بچپن ہی
سے فروٹو کہتے تھے
کالے کالے بال، چھریرا بدن، آنکھوں میں ہلکی سی شکوے کی نمی سست قدموں سے
چلتے ہوئے پاس ہی صوفے پر بیٹھ گیا
ماموں جی نے چونک کر آنکھیں اٹھائیں،
ممانی جان نے پلکیں جھپکائیں، اور جیسے ہی فروٹو پر نظر پڑی،
خوشی سے ہاتھ کانپ گئے اور ریموٹ ہاتھ سے چھوٹ کر دھڑام سے زمین بوس ہو
گیا۔
ممانی جان جھوم کر بولیں:
"ارے میرا لالا فروٹو۔۔۔! اللہ کی رحمت آئی آج ہمارے آنگن میں۔۔۔"
آواز گلوگیر تھی اور آنکھیں برستی بارش کی طرح۔
"ہم نے تو رو رو کے اپنی آنکھوں میں موتیا اتار لیا رے ۔۔۔!
گٹے گوڈے بیٹھ بیٹھ گئے ہمارے تو جسم کا تیل نکل گیا۔۔۔
تُو نہ آتا تو میں تو سوچ بیٹھی تھی کہ اب کے مدرسے سے مصلی بلا کر نیاز
دلاؤں گی۔!"
ماموں جی نے مسکرا کر فروٹو کی طرف ہاتھ بڑھایا:
"آؤ بیٹا۔۔۔ دل کا بوجھ ہلکا کرو۔۔۔ ہمیں تمہاری بہت یاد آئی ہے۔"
فروٹو کی آنکھوں میں بھی نمی تیرنے لگی۔وہ کچھ دیر بیٹھا ماموں جی کی موٹی
توند کو دیکھتا رہا ۔اسکو بچپن کی کہانی یاد آگئی جسمیں لالا جی کی توند پر
چوہے ناچتے تھے۔
فروٹو مسکرایا اور قدم بھر بھر کے ماموں جی اور ممانی جان کی طرف بڑھا۔
ممانی جان جھوم جھوم کر بولیں:
"میرے جگر کے ٹکڑے فروٹو۔۔۔ تُو آیا تو میرے تو آنگن میں روشنی ہوگئی۔!
نہیں تو میں تو سوچ بیٹھی تھی کہ اب تو شاید میرے تیجے پر ہی پلاؤ قورمہ
کھانے آئے گا !"
ماموں جی نے نرمی سے کہا:
"بیٹا، رشتے وقت مانگتے ہیں۔۔۔
خفا ہونا آسان ہے، مگر محبت کو سنبھالنے والے ہی اصل بڑے ہوتے ہیں۔معاف
کرنے ہی میں بڑائی ہے "
فروٹو لپک کر ماموں جی کے سینے سے لگ گیا،
ممانی جان نے بھی لپک کر اسے اپنی باہوں میں دبوچ لیا،
ایسے جیسے برسوں کا بچھڑا ہوا خزانہ واپس مل گیا ہو۔پان کی پچکاریوں سے
فروٹو کو منہ گل و گلزار ہوگیا
کمرہ قہقہوں، آنسوؤں اور محبت کی خوشبو سے بھیگ گیا۔
اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں دلوں کی گرمی گھل گئی۔
اور پلنگ کی چرچراہٹ میں بھی جیسے سرگوشی سنائی دی:
"صبح کا بھولا شام کو گھر اجائے تو اسے بھولا نہ سمجھو۔۔۔"
|