تاؤ بٹ کی سہانی صبح تھی، رات اس لکڑی کے مکان میں پر
سکون رہی، کمبل بھی موسم کے مطابق کافی موٹے تازہ اور صاف ستھرے تھے۔ آف
روڈ سفر کی بدولت کپڑے بار بار کہہ رہے تھے کہ ان کو تبدیل کر لیا جائے۔
مگر یہاں ڈرائی کلینر وغیرہ نام کی کوئی شے موجود نہ تھی۔ گیسٹ ہاؤس والے
بہت بااخلاق ملے ، اپر نیلم کی بنسبت۔ ان سے استری کی بابت عرض کی تو جواب
ملا کوئلے والی استری مل سکتی ہے۔ اسی کو غنیمت جانا زندگی میں پہلی دفعہ
کوئلے والی استری سے سوٹ پریس کرنے کا بھی موقع ملا ۔ ذیشان گیلانی صاحب نے
اپنی ٹی شرٹ، میں نے اور مقصود بھائی نے شلوار قمیض استری کیے، جب واش روم
میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ پانی کی موٹر جو دریا سے پانی کھینچ کر ٹینکی
میں لاتی ہے وہ رات سے خراب ہے۔ تھوڑا تھوڑا پانی بالٹی میں ایسے نخرے سے آ
رہا تھا جیسے آج کل پیٹرول پمپ سے پیٹرول ملتا ہے۔ منہ دھویا کم اور ٹھنڈے
پانی سےمسح زیادہ کیا 🤫۔ کپڑے تبدیل کیے، اس جدوجہد کے دوران مقصود، ذیشان
اور ماجد شاہ جی موٹرسائیکلوں کودریائے نیلم میں اشنان کیلئے لے جا چکے تھے۔
شوق شوق سے بائک پانی میں ڈال تو لیے مگر جب پانی نے قدمبوسی کی تو واپس
ایسے بھاگے جیسے سیاستدان لندن بھاگ جاتے۔ اب سر عام یہ حرکت کی تھی تو
بادل ناخواستہ ان کو غسل دینا شروع کر دیا کیوں کہ تاؤبٹ کے مقامی افراد
تجسس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ جب میں نیچے پہنچا تو گرم علاقے کی موٹر
سائیکل یخ بستہ پانی سے نہا کر دھوپ میں ایسے مزے سے کھڑی تھی جیسے صبح صبح
شیر جوان تیار شیار ہوکے کالج دیکھنے کیلئے نکلتے😊۔
ناشتہ کیلئے رات والے ہوٹل کا انتخاب کیا جہاں پکوڑے اور چائے سے شکم سیری
کی تھی، اس ہوٹل کا لڑکا معروف اچھا بندہ تھا، ہنس مکھ اور اپنے کام سے لگن
رکھنے والا۔ معروف نے کل پکوڑوں کی طرح ناشتہ میں آملیٹ اچھے بنائے خیر
ماڑے ہم بھی نہیں بناتے بس کبھی کبھار جل بھن جاتے ہیں کیونکہ ہم کوئی ہوٹل
والے تھوڑی ہیں ۔😎۔
ناشتہ کے انتظار میں تھے کہ کچھ بکروال(چرواہے) بھی آدھمکے۔ عجیب مخلوق ہیں
خدا کی، ساری زندگی سفر میں ، مخصوص سیٹی بجاتے، بکریوں کو ہانکتے، برف پوش
پہاڑوں سے میدانی علاقوں تک اور پھر گرم موسم آتے ہی واپس پہاڑوں کی سمت
سفر کرتے ہیں ۔ سنگلاخ چٹانیں ہوں یا جھرنے ، خشکی ہو یا بارش ان کا سفر
جاری رہتا ہے۔ اس ٹریک پر بکروالوں کے چھ، سات گروپ ملے، جن کے پاس سیکڑوں
بکریاں، بکرے، ترکی چھترے اور بڑے گول سینگھوں والے چھترے جس کا ہم نے نام
آسانی کیلئے “ لڑائی والا بھیڈو“ ڈالا ہوا ہے اور پہاڑے بکرے بھی اچھی خاصی
تعداد میں نظر آئے ۔ ایک دو گروپ خچروں والے خانہ بدوشوں کے بھی ملے،
بکروالوں میں سے ایک فرد سے بات چیت ہوئی اس نے بتایا کہ بھارہ کہو اسلام
آباد کا رہنے والا ہے مگر بولیاں سب آتی تھیں پنجابی سے بلتت، گلگتی،
کشمیری۔ اس کا کہنا تھا کہ ہم کارگل جا رہے ہیں وہ تاؤ بٹ کے مقابلے میں
ایک جنت نظیر وادی ہے کبھی کبھار سیاحوں کیلئے کھول دیا جاتا ہے مخصوص
علاقہ۔ راستوں کا تذکرہ کیا اور ہم کو دیکھتے ہی کہا۔۔۔۔۔۔۔تساں نہیں جا
سکدے۔۔۔۔۔۔۔پنجاب والوں کے بس کی بات نہیں ۔ ایک نے کہا کہ ہم گلگت سے صبح
چلے تھے رات تاؤبٹ پہنچ گئے۔ اف اللہ روڈ بھی نہیں مگر ان کا سفر جاری رہتا۔
انہوں نے بتایا کہ آگے تاؤ بٹ بالا بھی جاؤ خوبصورت جگہ ہے۔ سب نے ایک
دوسرے کی طرف دیکھا سر کے اشاروں سے بات طے ہوئی اور بعد ناشتہ تاؤ بٹ بالا
کی طرف چل دیے۔ تاؤ بٹ تک کا روڈ تو واقعی پہاڑی آف روڈ ہے لیکن آگے کا سفر
تو روڈ کو بالکل آف کرنے والا ہے۔ ہم بھی کب ٹلنے والے تھے۔
ٹوٹی سڑک پر دوڑا دیے گھوڑے ہم نے
ہلکی بارش نے لطف دوبالا کر دیا۔ ایک بار پھر فوجیوں کے کیمپ کے پاس سے
گزرے تو دریا کی طرف موڑ دیا گیا، اب تو اس شعر کے مصداق ہوگئے تھے
انہی پتھروں پہ چل کے آ سکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں
راستہ بالکل کیمپ کے اندر سے گزرتا ہے۔ دور سے اشارہ ہوا کہ باہر سے جاؤ،
اب باہر کا مطلب تھا کہ دریائے نیلم کے کنارے کنارے، اب یہ راستہ ان گول
پتھروں کا ہے جو پہاڑی دریا کے کناروں پر ہزاروں کی تعداد میں پائے جاتے
ہیں، فور بائی فور جیپ ہوتی تو ہم بھی چھینٹے اڑاتے گزر جاتے، یہ
موٹرسائیکل تھے تھوڑا سیدھا چلائیں تو کبھی دائیں لڑھکے تو کبھی بائیں، اگر
پانی اچھل کے جوتوں کی حد سے اوپر آیا تو یخ بستہ پانی پاؤں کو بھی منجمد
کرتا چلا گیا۔ پتھروں کا ٹریک اور پتھروہ بھی پانی میں بھیگے ہوئے یعنی
نیلم دریا کے اندر بنے ٹریک پر۔اس آف روڈ رائڈ پر یہ جملہ بنتا ہے *سواد
آگیا بادشاہو* ہمارے آگے ایک جیپ والے سیاح تھے جو گیلے پتھروں پر بھی بہت
مزے سے جا رہے تھے اوپر سے ہلکی بوندا باندی بھی شروع تھی۔ دوسری طرف ہماری
موٹر سائیکلوں کو نجانے کونسی خوشی چڑھی تھی کہ ان کی اچھل کود ہی نہیں تھم
رہی تھی۔
تاؤ بٹ بالا۔۔۔۔۔۔۔ ایک نہایت خوبصورت منظر آنکھوں کے سامنے تھا۔ شاید
کیمرہ کی آنکھ آپ کو وہ منظر نہ دکھا سکے۔ خوبصورت میدان، درختوں کے سائے،
ہر طرف ہریالی، صاف شفاف ٹھنڈا ٹھار بہتا پانی، جانوروں کے گلے میں باندھی
گھنٹیوں کی کھنکھناہٹ، بکریوں کی منمناہٹ اور بہتے پانی کا شور واقعی
دلفریب منظر تھا جو کہ *ان بیان ایبل تھا* ایک لکڑی کا بنا پل اور اس کے
پاس لگا فوجیوں کا بورڈ *آپ لائن آف کنٹرول پر ہیں، اس جگہ سے آگے جانا منع
ہے، کوئی بھی اجازت نامہ قابل قبول نہیں* ۔ دل بہت چاہا کہ اس پار جا کے
دیکھیں ۔ ایک مقامی فرد پل سے گزر کر آیا اس نے کہا کہ پار چلے جاؤ بس پہاڑ
کی طرف نہ جانا میدان میں کوئی ایشو نہیں ۔ بس پھر اس پل کو کراس کیا دوسری
طرف پانی کے چشموں سے نکل کر آنے والے نالے میدان میں مختلف سمتوں سے ایسے
بہہ رہے تھے جیسے انسانی جسم میں خون کی رگیں ہوتیں۔ بہت دیر تک اس منظر کو
من میں سماتے رہے۔وقت تو بالآخر ختم ہوتا ہی ہے، ویسے بھی بقول مستنصر حسین
تارڑ *سیاح ایک جگہ رک نہیں سکتا وہ کچھ دیر کے بعد اگلی منزل کو بڑھ جاتا
ہے* سو ہم نے بھی واپس پلٹنے کا ارادہ کیا۔
بکریوں کا ایک پردیسی ریوڑ تاؤبٹ بالا پہنچا ہوا تھا بکریاں اور ان کا
بکروال اور ان کے ہیلپر کتے ایسے سوئے ہوئے تھے جیسے نیند کی گولیاں کھائی
ہوں۔ بکر وال جو خود تھکاوٹ سے دوچار تھا مگر باہوش و حواس تھا۔ ان سے
اجازت لیکر ان کے ریوڑ کے ساتھ فوٹو شوٹ کرنا چاہا۔۔۔۔۔ وہ تو سب کے سب
جانور گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ ان کا منہ پکڑ کے اوپر ٹھانا پڑتا کہ جاگو
جاگو فوٹو بنانی ہے۔ مگر وہ شاید زبان حال سے کہہ رہے تھے *ہماری طرح آپ
بھی لمبا لمبا سفر پیدل کرکے آؤ پھر معلوم ہو کہ تھکاوٹ کی نیند کیا ہوتی*۔
ایک کے سر کو غالباً مقصود بھائی یا ماجد شاہ جی نے اٹھایا گلے میں گھنٹی
تھی اس نے شور مچا دیا دیا بس پھر پورے ریوڑ سے ہلکی ہلکی میں میں کی
آوازیں آنے لگیں شاید اس ریوڑ کے ہراول دستہ کے ساتھی تھے جو نیند میں ہی
ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے *اتنی جلدی؟۔۔۔۔۔۔کچھ سونے تو دو شور کیوں کر
رہے ہو؟*۔ بھیڑوں کے بچے بھی سوئی ہوئی ماؤں کے دودھ سے استفادہ کر رہے
تھے۔ کمال منظر تھا۔ اس مخلوق کو مزید تنگ کرنا مناسب نہیں لگا کیوں کہ یہ
سب ہم انسانوں کا پیٹ بھرنے کیلئے کسی نہ کسی جگہ پہنچ کے قربان ہونے والے
تھے۔
واپسی کا سفر جلدی ہو جاتا ہے* محاورہ تو سنا ہوگا بس موٹرسائیکل کی سپیڈ
بڑھا کے رکھی، تاؤبٹ ریسٹ ہاؤس سے بیگ اٹھائے، واپسی کا سفر شروع ہو چکا
تھا، کیل پہنچے، وہاں سے شاردہ، شاردہ میں گوجرانولہ ہوٹل سے دال چاول
کھائے چائے پی، چیک پوسٹ پر فوجیوں کو بتایا کہ ہم واپس جا رہے انہوں نے
انٹری کی اور خداحافظ بولا، اگلی منزل اپر نیلم تھی۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)
|