دن کی روشنی اور رات کی خاموشی۔ یہ دونوں کائناتی مظاہر
صرف مظاہر نہیں بلکہ انسانی شعور کے آئینے میں جھلکنے والے دو بنیادی
استعارے ہیں۔ روشنی بیداری کی علامت ہے، آگہی کی، گرمائش کی، امید کی۔ اور
رات، سکوت کی علامت ہے، غور و فکر کی، اندر کی طرف سفر کی، اور ان دیکھے
رازوں کو کھوجنے کی جو صرف تاریکی میں ظاہر ہوتے ہیں۔
زندگی میں جب روشنی چھن جاتی ہے، جب سکوت گہرا ہو جاتا ہے، تو انسان یہ
سمجھ بیٹھتا ہے کہ اسے ترک کر دیا گیا ہے، کہ وہ کسی عظیم ربط سے کٹ گیا ہے۔
مگر یہ خام خیالی ہے۔ ہر غروب، کسی نئے طلوع کا دیباچہ ہے۔ یہ دنیا، یہ
کائنات، کسی ایک لمحے پر ٹھہری نہیں رہتی۔ جس لمحے ہم گمان کرتے ہیں کہ ہم
تنہا ہیں، اسی لمحے ایک نادیدہ قوت ہمارے وجود کو سہارا دے رہی ہوتی ہے۔
کبھی ہم گمان کرتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں حاصل نہیں، وہ ہماری ناکامی کا ثبوت
ہے۔ لیکن جو چیزیں وقت نے ہمیں دی ہیں، وہ ہماری اصل پہچان بناتی ہیں۔ جو
ابھی نہیں ملا، وہ بھی کسی سمت سے ہماری طرف آ رہا ہے—بس وقت اور شعور کے
درمیان توازن درکار ہے۔ کائنات ہمیں وہ سب عطا کرتی ہے جس سے ہم نشوونما پا
سکیں، کبھی تحفے کی صورت، کبھی امتحان کی شکل میں۔
اکثر انسان اپنے ماضی کو دیکھ کر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا تھا۔
یتیمی صرف والدین کے نہ ہونے کا نام نہیں، بلکہ وہ کیفیت بھی ہے جہاں انسان
کسی سہارا دینے والی معنویت سے محروم ہو جائے۔ اور پھر، وقت کے ساتھ، کسی
نہ کسی طور وہ سہارا عطا ہو جاتا ہے—ایک دوست، ایک فکر، ایک خواب، یا شاید
خودی کی بیداری۔
اسی طرح، بھٹکاؤ صرف راستہ گم کر دینا نہیں، بلکہ کسی ایسی حالت میں ہونا
ہے جہاں سوال تو ہوں، مگر جوابات نہ ہوں۔ لیکن کائنات کبھی سوال چھوڑ کر
خاموش نہیں رہتی۔ ہر سوال اپنے ساتھ ایک امکان بھی رکھتا ہے، اور ہر گمراہی
کسی نئی دریافت کی دہلیز پر لے جاتی ہے۔
ضرورت اور محرومی بھی بیکار احساسات نہیں۔ یہ انسان کو جگاتی ہیں، حرکت میں
لاتی ہیں، نئی سمتوں کی تلاش پر مجبور کرتی ہیں۔ جب انسان ان محرومیوں کے
باوجود شکر کا راستہ اپناتا ہے تو وہ اندرونی طور پر غنی ہو جاتا ہے، بغیر
کسی بیرونی مال و دولت کے۔
اور جب انسان خود سہارا پا لیتا ہے، تو یہ اس کی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ
دوسرے محتاجوں اور سوال کرنے والوں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ زندگی کا حسن صرف
لینے میں نہیں، بلکہ دینے میں بھی ہے۔ اور جو کچھ ہمیں عطا ہوتا ہے، وہ صرف
ہمارا نہیں رہتا؛ وہ ایک امانت ہے، ایک آواز جو ہم سے کہتی ہے: "اب تم
بولو، اب تم بانٹو۔"
یہی روشنی ہے، جو ہمارے اندر سے ابھرتی ہے؛ خاموشی، جو ہمیں اپنے باطن سے
جوڑتی ہے؛ اور امکان، جو ہمیں یقین دلاتا ہے کہ کوئی بھی رات ہمیشہ کے لیے
نہیں ہوتی۔
|