انسان کی فطرت میں ایک مسلسل جستجو پوشیدہ ہے — ایک ایسا
سوال جو اسے ہر موڑ پر درپیش ہوتا ہے: "کیا میں درست سمت میں گامزن ہوں؟"
یہی سوال، شعور کی کسی نہ کسی سطح پر، ہر ذی فہم ہستی کو کسی نہ کسی لمحے
ضرور جھنجھوڑتا ہے۔ سمت کا تعین، راستے کا انتخاب، اور اس پر چلنے کی تمنا
— یہ سب اس کی فکری سرشت کا حصہ ہیں۔
زندگی ایک مسلسل سفر ہے؛ ایک ایسا سفر جو آغاز سے زیادہ انجام پر مرکوز ہے۔
ہر دن، ہر لمحہ، ایک موڑ ہے جہاں انسان کو خود فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کس
طرف جائے۔ کچھ راستے دل کو لبھاتے ہیں، کچھ عقل کو مطمئن کرتے ہیں، مگر بہت
کم ایسے ہوتے ہیں جو دونوں کو ہم آہنگی کے ساتھ منزل کی طرف لے جائیں۔ اس "درست
راستے" کی تعریف ممکن ہے، لیکن اس کا ادراک ہر فرد کے تجربے اور مشاہدے پر
منحصر ہوتا ہے۔
جب کوئی فرد شعور کی اس سطح پر پہنچتا ہے جہاں وہ اپنی انا سے اوپر اٹھ کر
کسی بلند تر حقیقت کا اعتراف کرے، تو وہ یہ بھی مان لیتا ہے کہ کچھ قوتیں
اس کی رہنمائی کے لیے درکار ہیں۔ وہ مدد مانگتا ہے — لیکن کسی ظاہری طاقت
سے نہیں، بلکہ کسی ایسی ہستی یا اصول سے جو اس کی ذات کے اندر بھی ہو اور
باہر بھی، جو محض طاقت نہ ہو بلکہ شعور بھی رکھتی ہو۔
یہاں "عبادت" ایک روایتی مفہوم سے نکل کر ایک وسیع تر معنویت اختیار کر
لیتی ہے۔ یہ خودسپردگی ہے، کسی بلند تر اصول یا مقصد کے آگے سرِ تسلیم خم
کرنا۔ یہ کہنا کہ "ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں"، محض التجا نہیں بلکہ ایک
اعتراف ہے — کہ اکیلا انسان خودکفیل نہیں، اسے سہارے، رہنمائی اور استقامت
کی ضرورت ہے۔
راستہ سیدھا ہو، تو قدم آسانی سے اٹھتے ہیں، ذہن پرسکون ہوتا ہے، اور دل
مطمئن۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ سیدھا راستہ دکھائی نہیں دیتا، بلکہ دریافت کیا
جاتا ہے۔ اور اس دریافت کے لیے سوال، تجسس، اور ایک اندرونی تڑپ ناگزیر ہیں۔
یہ راستہ ان افراد کا ہوتا ہے جو بصیرت کے حامل ہوتے ہیں، جنہوں نے خود سے
بڑی سچائیوں کو تسلیم کر کے اپنی انا کو پیچھے چھوڑا ہوتا ہے۔
اس کے برخلاف کچھ راہیں ایسی ہیں جو یا تو ضد اور غرور سے آلودہ ہوتی ہیں،
یا ناسمجھی اور فریب میں لپٹی ہوئی۔ پہلی صورت میں انسان جان بوجھ کر ایسی
اقدار کو ٹھکرا دیتا ہے جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ ہیں، اور دوسری میں وہ
بھٹک کر ایسے سرابوں میں الجھ جاتا ہے جو ظاہری طور پر خوبصورت مگر انجام
کے اعتبار سے مہلک ہوتے ہیں۔
یہ فکری بیانیہ ہمیں بتاتا ہے کہ "راستہ" صرف ایک جسمانی حرکت نہیں بلکہ
ایک اخلاقی، فکری اور شعوری ارتقاء کا نام ہے۔ اور یہ ارتقاء اس وقت مکمل
ہوتا ہے جب انسان نہ صرف خود اپنی روشنی تلاش کرے، بلکہ اس روشنی کو دوسروں
تک بھی پہنچائے۔
گویا زندگی کا سب سے بڑا سوال صرف یہ نہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں، بلکہ یہ
بھی ہے کہ ہم کس کے ساتھ جا رہے ہیں، کس کی رہنمائی میں جا رہے ہیں، اور
کیا واقعی ہمیں وہی راستہ ملا ہے جو دل، دماغ اور ضمیر تینوں کو مطمئن کرتا
ہے۔
|