جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے
کے بھارتی رویے کی ایک اور واضح مثال حالیہ ایام میں اس وقت دیکھنے میں آئی
جب مودی کی حکومت نے رات کی تاریکی میں بزدلانہ حملہ کرتے ہوئے پاکستانی
خودمختاری کو چیلنج کرنے کی ناکام جسارت کی۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی بھارت
نے پاکستان کی جغرافیائی یا نظریاتی حدود کو چیلنج کرنے کی کوشش کی، اسے
پاکستان کی عسکری، عوامی اور سفارتی سطح پر مؤثر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
بھارت کی جنگی جنون کی تاریخ کوئی نئی نہیں۔ 1965، 1971 اور 1999 کی جنگیں
اس کی واضح مثالیں ہیں جن میں بھارتی حکومت نے بار بار پاکستان کو زیر کرنے
کی کوشش کی، لیکن ہر بار اسے منہ کی کھانی پڑی۔ خاص طور پر کارگل جنگ کے
بعد عالمی برادری کو اس حقیقت کا ادراک ہو چکا ہے کہ بھارتی جارحیت محض
داخلی سیاست چمکانے کا ذریعہ ہے، جہاں جنگی ہیجان کو انتخابی مقاصد کے لیے
استعمال کیا جاتا ہے۔ وہ دن مودی سرکار کو یاد ہوگا جب ہمارے ہیرو لالک جان
اور کیپٹن کرنل شیر خان نے بھارت میں گھس کر ان کی فوجیوں کو جہنم رسید کیا
تھا۔
اسی تاریخی تسلسل کا حصہ مودی سرکار کا حالیہ جارحانہ اقدام بھی تھا جس کا
مقصد بھارت میں اپنی گرتی ہوئی سیاسی ساکھ کو سہارا دینا، اقلیتوں پر مظالم
اور داخلی خلفشار سے عوام کی توجہ ہٹانا اور ایک بار پھر پاک دشمنی کو
عوامی جذبات بھڑکانے کے لیے استعمال کرنا تھا۔
اس کا پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دے کر مودی کا غرور خاک میں ملا دیا۔ مودی
سرکار کے اس بزدلانہ حملے کا پاک فضائیہ نے نہایت پیشہ ورانہ، جرات مندانہ
اور موثر جواب دیا۔ پانچ بھارتی جنگی طیاروں اور سات ڈرونز کی تباہی محض
ایک عسکری کامیابی ہی نہیں، بلکہ ایک نظریاتی اور قومی پیغام بھی تھا کہ
پاکستان اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
یہ جوابی کارروائی نہ صرف عسکری اعتبار سے کامیاب تھی بلکہ اس نے دشمن کو
عالمی سطح پر شرمندہ اور داخلی طور پر خوفزدہ کر دیا۔ 25 بھارتی ایئرپورٹس
اور کرتارپور راہداری کی بندش اس خوف کا عکاس ہے جس نے بھارت کو جھنجھوڑ کر
رکھ دیا۔
پاکستانی قوم نے قومی یکجہتی کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے اور ہر دل کی یہ صدا
ہے کہ پاک فوج قدم بڑھاو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ پاک فضائیہ کے کامیاب جوابی
وار کے بعد ملک بھر میں کراچی سے لے کر چترال تک، بلوچستان سے لے کر کشمیر
اور گلگت بلتستان تک جس طرح یکجہتی، حب الوطنی اور عسکری اداروں سے والہانہ
وابستگی کا اظہار کیا گیا، وہ قومی شعور اور ذمہ داری کی اعلیٰ مثال ہے۔
پارلیمان سے لے کر گلی کوچوں، گاؤں گاؤں، شہر شہر "پاک فوج زندہ باد"،
"پاکستان پائندہ باد" اور "نعرۂ تکبیر" اور نعرہ حیدری کی گونج سنائی دی۔
عوامی ریلیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستانی قوم اپنی افواج کی پشت پر
سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہے۔
سرحدوں پر کشیدگی کے باوجود پاکستان میں معمولات زندگی رواں دواں ہیں۔
پاکستان سپر لیگ کے میچز شیڈول کے مطابق ہو رہے ہیں، جس سے یہ پیغام دیا
گیا کہ پاکستان ایک پرامن اور مستحکم ریاست ہے، جو جارحیت کا منہ توڑ جواب
دینے کے ساتھ ساتھ زندگی کو جاری رکھنے کا ہنر بھی رکھتی ہے۔
آج کا بھارت مودی سرکار کے ہاتھوں انتہا پسندی، اقلیت دشمنی اور داخلی
خلفشار کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں اور دیگر اقلیتوں پر
مظالم نے بھارت کی سیکولر شناخت کو داغدار کر دیا ہے۔ مودی نے سیاسی ہتھیار
کے طور پر پاک دشمنی کو استعمال کرتے ہوئے ایک خطرناک کھیل شروع کر رکھا ہے
جو نہ صرف خطے بلکہ خود بھارت کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی میڈیا، صحافی، کالم نگار، سول سوسائٹی اور حکومتی
اداروں نے بھی قومی وقار کے تحفظ کے لیے بہترین کردار ادا کیا۔ میڈیا نے
جذباتیت سے ہٹ کر ذمہ دارانہ رپورٹنگ کی، کالم نگاروں نے پاکستان اور پاک
فوج کے حق میں کالم لکھے ، صحافیوں نے عوامی شعور کو جلا بخشی اور دنیا کو
بتایا کہ پاکستان ایک پرامن، مہذب اور دفاعی طور پر مضبوط قوم ہے۔
پاکستانی قوم اور عساکر نے جس عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا ہے وہ تاریخ کا
سنہری باب بن چکا ہے۔ بھارتی جارحیت کو فضاؤں میں راکھ کرنے والا یہ لمحہ،
ایک نیا حوصلہ، نیا اتحاد اور نئی توانائی لے کر آیا ہے۔ یہ پیغام ہے کہ
پاکستان ایک طاقتور ایٹمی ملک ہونے کے باوجود نہ صرف دشمن کے ناپاک عزائم
کو خاک میں ملا سکتا ہے بلکہ اپنی قومی خودمختاری، آزادی اور نظریاتی
سرحدوں کا دفاع کرتے ہوئے اقوامِ عالم میں باوقار مقام رکھتا ہے۔ |