بھارت کی آبی دہشت گردی: دریائے چناب کا پانی روکنے کی کوشش


برصغیر کی تقسیم کے بعد پانی کے مسئلے نے دونوں ممالک، پاکستان اور بھارت، کے تعلقات میں ایک مستقل کشیدگی کی شکل اختیار کر لی۔ 1960ء میں عالمی بینک کی سرپرستی میں ہونے والے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اور بھارت کے مابین دریائی پانی کی تقسیم طے پائی۔ اس معاہدے کے تحت دریائے چناب، جہلم اور سندھ پاکستان کے حصے میں آئے، جبکہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دیے گئے۔ یہ معاہدہ دنیا کا ایک منفرد بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدہ ہے، جو 65 سال سے زائد عرصے سے رائج ہے۔

حال ہی میں بھارت کی جانب سے بگلیہار ڈیم پر اسپل وے کے دروازے بند کیے جانے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ اس عمل سے دریائے چناب کا پانی روک کر پاکستان کے پنجاب کے زرعی علاقوں کو سیراب ہونے سے روکنے کی دانستہ کوشش کی گئی ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق بگلیہار ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش محض 0.32 ملین ایکڑ فٹ ہے، جبکہ مون سون سیزن میں پاکستان کو اوسطاً 15 ملین ایکڑ فٹ پانی کی آمد ہوتی ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی نہ تو گنجائش ہے اور نہ قانونی جواز موجود ہے لیکن بھارت پاکستان کی مخالفت میں اندھا ہوچکا ہے۔

بھارت نے اپنے ہی بنائے ہوئے "پہلگام ڈرامے" کو جواز بنا کر بین الاقوامی معاہدے کو توڑنے کی ایک منظم سازش تیار کی ہے۔ یہ ڈرامہ دراصل ایک خود ساختہ دہشت گردی کا واقعہ تھا جسے عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے اور اپنی آبی چالوں کو قانونی لبادہ پہنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔ بھارت کی دیرینہ نیت رہی ہے کہ وہ پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر مکمل کنٹرول حاصل کرے اور اب اس کی عملی صورتیں کھل کر سامنے آ رہی ہیں۔

بھارتی حکام کے مطابق اگلا ہدف کشن گنگا ڈیم کے ذریعے دریائے جہلم کا پانی روکنا ہے، جو کہ سندھ طاس معاہدے کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس ڈیم پر پاکستان نے پہلے بھی عالمی عدالت انصاف میں کیس جیتا تھا جس کے مطابق بھارت صرف محدود مقدار میں پانی کو موڑ سکتا ہے لیکن حالیہ بیانات اور عملی اقدامات اس فیصلے کے برخلاف ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں پانی کا انحصار دریاؤں پر ہے۔ دریائے چناب اور جہلم کے پانی کو روکنے کا مطلب پنجاب اور سندھ کی زرخیز زمینوں کو بنجر بنانا ہے۔ یہ عمل 24 کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں کو براہ راست متاثر کرے گا۔ صرف زرعی ہی نہیں، بلکہ انسانی زندگی، ماحولیاتی توازن، خوراک کی پیداوار اور پانی کی دستیابی بھی شدید بحران کا شکار ہو جائے گی۔

پاکستان پہلے ہی واضح کر چکا ہے کہ دریاؤں کا پانی روکنے کی کوشش کو اعلانِ جنگ تصور کیا جائے گا۔ یہ صرف آبی نہیں، بلکہ قومی سلامتی کا مسئلہ ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ڈیموں کی تعمیر کو ترجیح دی جائے تاکہ سیلابی پانی کو ذخیرہ کر کے زرعی استعمال میں لایا جا سکے۔ عالمی سطح پر سفارتی مہم چلائی جائے تاکہ بھارت کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کیا جائے۔ عالمی بینک اور دیگر متعلقہ اداروں سے رجوع کیا جائے تاکہ سندھ طاس معاہدے کی بحالی کو یقینی بنایا جا سکے۔

بھارت کی جانب سے دریائے چناب اور جہلم کے پانی کو روکنے کی کوششیں نہ صرف سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی ہیں، بلکہ یہ جنوبی ایشیا کے امن و استحکام کے لیے ایک خطرناک پیش رفت بھی ہے۔ پاکستان کو ہر محاذ پر، چاہے وہ سفارتی ہو یا تکنیکی، اپنا مقدمہ مضبوطی سے لڑنا ہو گا۔ یہ پانی کا نہیں 24 کروڑ پاکستانیوں کی زندگیوں کا مسئلہ ہے اور زندگی کا دفاع قوموں کی بقا کی علامت ہوا کرتا ہے۔

 

Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali
About the Author: Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali Read More Articles by Dr Rehmat Aziz Khan Chitrali: 16 Articles with 5778 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.