اسدرضا زیدیؔ کے دل کی آواز’رازِ عشق‘
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
اسدرضا زیدیؔ کے دل کی آواز’رازِ عشق‘ ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی اسد رضا زیدیؔ کا تیسرا شعری مجموعہ میرے ادبی دوست مرتضیٰ شریف کے ذریعہ مجھ تک پہنچااس فرمائش کے ساتھ کہ میں جلدی سے اس شعری مجموعہ پر اظہار خیال کروں،انکار تو ممکن ہی نہ تھا، وجہ یک نہ شد دو شد، یعنی فرمائش کرنے والے سے تعلق اورپھراسد زیدی صاحب سے قربت اور محبت جو اب کافی عرصہ پر محیط ہوچکی ہے۔مجموعہ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ رازِعشق سے قبل میں زیدی صاحب کے اولین شعری مجموعے ”کھڑکیاں“ اور اس کے بعد ”کائینات“ پر اظہار خیال کرچکا جو زیدی صاحب کی کائینات میں شامل ہے۔ کائینات کو میں نے اسد زیدی ؔ کے دل کی آواز لکھا تھا، سچ تو یہ ہے کہ پیش نظر مجموعہ رازِ عشق بھی ان کے دل کی آواز ہے جس میں انہوں نے اپنی سوچ اور احساسات کو اشعار میں بیان کردیا ہے۔ زیدی صاحب سے پہلی ملاقات ایک ادبی و شعری نشست میں ہوئی جس میں وہ اپنی جگہ اور میں اپنی جگہ خاموش بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کو وقفہ وقفہ سے دیکھ رہے تھے۔ زیدی صاحب اپنے ظاہری خد وخال سے سنجیدہ، برد بار، متین اور پرکشش لگے۔سوچوں کے مرکز دماغ نے آواز دی کہ اس خوبصورت انسان سے ربط بڑھایا جائے، دل نے اس کی تائید کی اور ہم اس تقریب کے اختتام کے بعد اپنے دل و دماغ کے فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے دوست ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ ان کا باطن بھی صاف شفاف جیسے سنگ مرمر۔ وہ ہمارے غریب خانے پر تشریف فرما ہوئے اورانہوں نے ہماری کئی بار اپنے گھر پذیرائی کی۔ اس تمہید ی کلمات کا مقصد شعری مجموعہ کے خالق سے اپنے تعلق کا اظہارہے۔ زیدی صاحب کے دو مجموعوں پر اپنی رائے تفصیل سے لکھ چکا ہوں۔ باتوں کو کیا دہرانا، کسی ادیب نے سچ کہا ہے کہ انسان یاتو شاعر ہوتا ہے یا نہیں ہوا، گویا درمیان کی کوئی صورت نہیں ہوتی، البتہ ایسا ضرور ہوا کہ کوئی شاعری کرتا ہو لیکن اس کی شاعری کتاب کی صورت میں یا سوشل میڈیا پر نہ آئی ہو۔ ایسے شاعر پائے جاتے ہیں کہ جن کی شاعری میں وزن اور موزونیت پائی جاتی ہے لیکن انہوں نے اپنی شاعری کو عام نہیں کیایا انہیں اپنے کلام کی اشاعت کا ذریعہ نہیں ملا۔ اگر ان کی شاعری عام ہوئی بھی تو ان کی عمر کے آخری حصہ میں یا ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد۔ اسد زیدی ؔ کا پہلا مجموعہ 2023ء میں ’کھڑکیا‘، دوسرا مجموعہ ’کائینات‘ دسمبر2023ء اور اب 2025ء میں تیسرا مجموعہ ہمارے ہاتھوں میں ہے۔ زیدی صاحب کو تین چار سال ہی ہوئے ہیں شاعری کرتے ہوئے،نہیں ان کی شاعری سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ عرصہ دراز سے شاعری کر رہے ہیں، یہ ممکن ہے وہ شاعری کاغذ پر بکھری ہوئی ہو۔ کچھ حالات ایسے رہے ہوں کہ وہ اپنی شاعری کو کتابی صورت نہ دے سکے، اب انہوں نے ہمت کی اور لگا تار تین مجموعے منظر عام پر آگئے۔ زیدیؔ صاحب نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا کہ ”یہ سچ ہے کہ میں نے رائج الوقت خیالات اور حالات کے پیش نظر خود کو تنہائی کی قید میں محصور کر رکھا تھا۔ میں ان واقعات کو دہرائے بغیر کہہ سکتا ہوں کہ میری اوقات تو اس پتنگ کی طرح ہے جو ہم آہنگ ہوا کے ساتھ بلند ی پر پہنچی اور ہوا کے رکتے ہی زمین بوس ہوگئی اور اب ہوا کا انتظار ہے“۔ پھر لکھتے ہیں کہ ”محبت کو پنپنے کے لیے راز داری ضروری ہوتی ہے۔ اس لیے سوچا کہ رازِ محبت کب تک مخفی رہے گا، تو میری تیسری کتاب نے اس کو اپنے چاہنے والوں پر افشاں کردیا ہے“۔ پھران کا شعر جس کے بارے میں لکھا کہ ’میں اس شعر کو اپنے چچا یعنی معروف شاعر’مصطفی زیدی‘ کی نذر کرتا ہوں‘۔ شعر ؎ زیدیؔ کا رازِ عشق نصابی کتاب ہے اس کا حوالہ عشق کا معیار بن گیا زیدی ؔ صاحب غزل کے شاعر ہیں، پیش نظر مجموعہ ان کی غزلوں سے جگ مگ کررہا ہے۔ مجموعہ کا آغاز نعت رسول مقبول ﷺ سے ہوا ہے۔ایک شعر ؎ ہوجائے عنایت تو کبھی دیکھ لوں میں بھی منظر جو مدینے کا ہے سپنوں میں سمایا شاعری کی اساس سچائی اور سہل پسندی ہے،اسد رضا زیدی کی شاعری میں درد بھی ہے، کسک بھی، غم بھی ان کی شاعری ان کے سچا ئی کی گواہی دیتی ہے۔دیکھئے ایک شعر ؎ ترے انکار سے عاجز بہت تھا بڑی مشکل سے سمجھایا گیا ہوں اسد رضا زیدی ؔ بہت ہی سنجیدگی، اعتماد، خلوص اور محنت سے اپنی غزلوں میں مختلف موضوعات پر شعر کہتے نظر آتے ہیں۔ رہا نہ ساتھ میں اس کے وہی تو وقت ہوں میں گزر گیا جو کبھی تھا وہی تو وقت ہوں میں کبھی وہ وقت تھا ہر وقت دیکھتے تھے مجھے اسی کے ساتھ میں گزراوہی تو وقت ہوں میں اسد رضا زیدی کے کلام میں سادگی، خلوص اور صداقت کا عنصر نمایاں ہے، انہوں نے فنی رموز کو سچائی کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ ایک شعر دیکھئے۔ عید اک رسم ہے دنیا میں منانے کے لیے ہم تمہیں چاہتے ہیں اِ س کو نبھانے کے لیے اسد رضا زیدی اشاروں کنایوں میں بات نہیں کرتے بلکہ جو بات کہنی ہوتی ہے اسے صاف صاف کہہ دیتے ہیں۔ یہی انفرادیت ان کی شاعری کو منفرد بناتی ہے۔ زیدی ؔ کا محفلوں میں کوئی تذکرہ نہیں یعنی کے اس کے عشق کا مزکور اب کہاں آخر میں اسد رضا زیدی ؔ کا ایک خوبصورت شعر ؎ کسک جو درد سے ہوتی ہے وہ الگ شہ ہے جو لطف ہجر میں ہے ساتھ میں نہیں ہوتا شاعری کی اساس سچائی اور سہل پسندی ہے، اسد رضا زیدی کی شاعری اس کی سچا ئی کی گواہی دیتی ہے۔دیکھئے ایک شعر ؎ اسی وجہ سے وہ غصے میں اچھی لگتی ہے کہ دن میں ہوتا ہے یہ رات میں نہیں ہوتا اپنے سے کم عمر لوگوں کو نصیحت کرنے کا انداز دیکھئے ؎ اس ملک سے زیادہ مری عمر ہے میاں سب عقل کے کچے ہیں انھیں کچھ سکھائیے اسد رضا زیدی کا ایک خوبصورت شعر ؎ سانسیں اپنی میں روز گنتا ہوں کتنی لے لیں ہیں کتنی باقی ہیں شاعری اسد زیدی کو اپنے اجداد سے ورثہ میں ملی، مصفطیٰ زیدی جس کا چچا ہو وہ بھلا شاعرکیوں کر نہیں ہوگا۔ زیدی صاحب کا تعلق یوپی کے شہر نگینہ سے ہے۔ان کے لیے راقم کا ایک شعر ؎ نگینہ سے ہے تعلق نگینہ ہے کلام ان کا لائق تحسین ہے مجموعہ ’رازِ عشق‘ ان کا ۹ مئی۵۲۰۲ء
|