نمیر مدنی صاحب ریجنل ڈاریکٹر آفاق پاکستان نے ڈاکٹر محمد
مشاق احمد مانگٹ صاحب کی دسویں کتاب’’پھر چلامسافر: انغانستا ن کے پانچ
سفر‘‘ مجھ تک جنوری ۲۰۲۵ء میں پہنچاہی تھی۔ اس کے ساتھ اس کتاب پر متوقع
تقریب رونمائی کا دعوت کا خط بھی تھا۔ اب وائس میسج اور دعوت نامہ آیا کہ
اس کتاب کی تقریب رونمائی ۲۶؍اپریل ۲۰۲۵ء کو دائرہ علم و ادب پاکستان کے
تحت ہو رہی ہے، اس میں آپ نے اس کتاب پر بات کرنی ہے۔ تین دن سے اس ۶۰۰
صفحات کی کتاب کی مندرجات دیکھتا رہا۔ کتاب صرف سفر نامہ ہی نہیں بلکہ
برادر اسلامی ملک افغانستان کی مکمل تاریخ بھی ہے۔میری برادر افغانستان ملک
سے محبت کا اندازہ آپ میری اس پر لکھی گئی کتاب’’ افغانستان سلطنتوں کا
قبرستان‘‘ سے لگا سکتے ہیں۔
’’پھر چلا مسافر، افغانستان کے پانچ سفر‘‘ کے مصنف ڈاکٹر محمد مشراق احمد
منگٹ صرف اس کتاب کے مصنف نہیں ایسے کئی سفر نامے بھی تصنیف کر چکے ہیں۔ اس
کتاب میں اِنہوں نے افغانستان کی تاریخ معیشت، معاشرت جغرافیہ ، جنگیں، خاص
کر انگریزوں روسیوں اور امریکی بمعہ نیٹو ممالک پر سیر حاصل بحث کی
ہے۔علامہ اقبالؒ اور جمال الدین افغانیؒ کاذکر بھی کیاہے۔ مجھے اس کتاب میں
دوسری’’ اینگلو افغان جنگ‘‘ جو۲۷ جولائی ۱۸۸۰ء میں لڑی گئی تھی،کی شریک
نوجوان ہیروعورت’’ ملالہ‘‘ کاذکر پڑھ بڑی خوشی ہوئی۔یہ مغرب کی ڈمی کسی
ملالہ یوسف زئی نہیں، ہماری بچیوں کی آئیڈل ’’میمند کی جنگ‘‘ کی ہیرو ملالہ
کا ذکر ہے۔ افغانیوں کو میمند کی ملالہ کی بہادری کی وجہ سے اس جنگ میں فتح
ملی تھی۔
مصنف نے افغانستان کا پہلا سفر روسی جارحیت کے زمانے۱۹۷۹ء تا ۱۹۸۹ء میں کیا
تھا۔جہاد افغانستان میں حصہ بھی لیا تھااورزخمی بھی ہوئے تھے۔صفحہ ۲۸۴ پر
لکھتے ہیں’’سچ کا تقاضا یہ ہے کہ میں وہ باتیں جو آج تک کسی انہونے خوف کی
وجہ سے نہ بتا سکا اور دنیا کے سامنے پیش نہ کر سکا، اسے دنیا کے سامنے پیش
کروں، تا کہ یہ بھی تاریخ کا ایک حصہ بنے‘‘راقم جہاد افغانستان کے کئی
مجاہدین کے واقعات ان سے ملاقاتیں کر کے اور خود سن کر اپنے کالموں اور خاص
کر اپنی کتاب ’’افغانستان سلطنتوں کا قبرستان‘‘ میں بیان کر چکاہے۔ مصنف
جماعت اسلامی، جودنیا کے مسلمانوں کی پشتی بان ہے، کے ر کن ہیں۔ شہادت کی
تمنا دل لے کر ۲۴ جون ۱۹۸۹ء اپنے بچوں کو چھوڑ کر فیصل آباد کے مقامی امیر
جماعت اسلامی کے امیر کے خط کے ساتھ پشاور اور پشاور کے امیر کا خط لیے
دیگر مجاہدین کے ساتھ افغانستان میں حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمت یار
ہیں، جو سید مولانامودودیؒ کی فکر سے متاثر ہیں ،کے افغانستان خوست میں
قائم، پہاڑ کی چوٹی پر ایک جہادی کیمپ جا پہنچے۔کلاشنکوف اور راکٹ چلانے
اور مونگی برج کی تربیت حاصل کی۔پہلی دفعہ رات ایک گھنٹے پہاڑ کی پر
کلاشنکوف لوڈ کر کے اکیلے پہرہ دیا۔تیسرے دن اسی کیمپ پر روسی اسکڈ
میزائلوں کا جھنڈ اپنی صرف آتے دیکھا۔ایک میزائل کیمپ سے ایک کلومیٹر دور
گرا۔ جہاں روس نے پہلے پختہ مورچے قائم کئے ہوئے تھے جو پاکستان کے لیے
خطرہ تھا۔لہٰذا حزب مجاہدین روس سے سخت جنگ کر روسیوں کو جہاں سے بگانے پر
مجبور کر یہ علاقہ صاف کیا تھا۔منگی برج ٹیرینگ کے دوران پندرہ فٹ سے گر کر
زخمی ہوئے۔ کولہے کی ہڈی کے چارٹکڑے اور ٹانگ ٹوٹ گئی ۔مصنف کو زخمی حالت
میں پارا چنار اور پھر پشاورپہنچایا گیا۔۵ جولائی کو آپریشن ہوا۔۱۰ جولائی
کو ٹوبہ ٹیک سنکھ روانہ ہوئے۔کتاب کے اس حصہ کے آخر میں مصنف نے جہاد
افغانستان کے بارے، اپنی جماعت سے کچھ اہم سوال کئے ، جس کاان کوجواب ملانا
چاہیے۔
مصنف کا دوسرا سفر ۱۹۹۹ء میں کندھار شہر میں روس کی طرف سے بنائی ہوئی ایک
ٹیکسٹائل کے اِرد گرد گھومتا ہے۔ جو افغانستان حکومت کے ایک مشیرکے ساتھ
ایک گروپ کی شکل میں کیا گیا۔ ٹیکسٹائل چلانا تو ناممکن ہوا، مگر اس دورے
میں امیر المومنین ملا عمرؒ کی حکومت کے بارے میں معلومات اکٹھی کی گئیں
ہیں۔ مثلاً ملا عمرؒ نے افغانستان میں خانہ جنگی ختم کی۔ امن و امان قائم
کیا۔ پوسٹ کی کاشت ختم کی۔محسن ملت اسلامیہ ملا عمرؒ ان دنوں کندھار میں
قیام پذیر تھا۔جس نے فرعون وقت، امریکا کی دھمکیوں کے باوجود، اپنا ملک
تباہ ہونے دیا مگر ایک مسلمان مجاہدشیخ اُسامہ بن لادنؒ مہمان کو دشمن کے
حوالے نہیں کیا۔
مصنف کاتیسرا سفر ۲۰۰۸ ء میں اس وقت ہوا جب افغانستان میں امریکی پٹھو حامد
کرزئی کی حکومت تھی۔یہ روٹری کلب پاکستان کے گورنر رؤف روہیلہ صاحب کی وجہ
سے ممکن ہوا۔جس سے مصنف کی کابل شہر جانے کی پرانی خواہش پوری ہوئی۔یہ
زمانہ کابل میں دھماکوں کا تھا۔راستہ میں ہری سنگھ نلوا کا بنایاہوا قلعہ
جمرود کا ایک واقعہ لکھا۔ رنجیت سنگھ کے بیٹے کی لاہور میں شادی میں ہری
سنگھ نے اپنی پوری فوج کو بھیج دیا۔ جب انگریزوں افغانوں کو پتہ چلا توہری
سنگھ پر حملہ کر کے وزیروں سمیت ہلاک کر دیا ۔افغانستان کے شہر جلال آباد
کے ذکر میں مصفف نے لکھا کہ مغلوں کے دور حکومت میں جلال آباد کی مغل
شہنشاہ جلاالدین اکبرکی خدمات پر پرانے نام آوینہ پور سے جلال آباد پڑا۔اسی
شہر میں قوم پرست لیڈر خان عبدالغفار خان کی نصیحت پر دفنایا گیا۔مصنف نے
تنگ غار سرنگ اور سرادار داؤد کی بنائی ہوئی ’’پل چرخی‘‘ جیل کا ذکر کیا۔
افغانستان روٹری کلب کی دیکھ بال کا ذمہ پاکستان روٹری کلب پاکستان کالگایا
گیا تھا۔ کابل پہنچ کر دوسرے دن روٹری کلب کی میٹنگ میں شریک ہوئے۔ پہلے دن
کابل کے ہوٹل بازار، دیائے کابل کے نظارا کیا۔کابل شہر بنیاد تین ہزار سال
قبل رکھی گئی تھی۔ اس سفر میں کابل شہر محل وقوع، تاریخ، بیرونی طاقتوں کے
قبضے،قرغہ ڈیم، کابل یونیورسٹی،صدارتی محل ،بالاحصار، گورا قبرستان تیمور
شاہ کا مقبرہ کی سیر کا ذکر ملتاہے۔
مصنف کاچوتھا سفر۲۰۲۲ء میں ہوا۔مصنف نے اس کے تین مقاصد بتائے۔ پہلا الخدمت
فاؤنڈیشن پاکستان کی طرف سے لگائے امدادی کیمپ میں شریک ہونا، دوسرااپنی
فیکڑی کے لیے کوئلہ خریدنااور تیسراطالبان کے دوسرے دور حکومت کو دیکھنا۔
امریکا شکست کھا کر افغانستان میں بہت کچھ چھوڑ کر نکلا تھا۔دوسرے دور میں
فاتح طالبان نے مولانا ہیبت اﷲ کی سربرائی میں افغانستان کو امارت اسلامیہ
افغانستان کے نام سے اسلامی حکومت بنائی۔لکھتے ہیں کابل میں چار دن گزارنے
میں ۱۹۸۱ء کے دن یاد آئے جن میں میجر طارق کی شہادت، اسلامی جمعیت طلبہ کے
اہم رکن اسلم خان کی پیپلز پارٹی کے غنڈے ٹیپو کے ہاتھوں شہادت کے واقعات
ہیں۔ الذالفقار تنظیم مرتضےٰ بھٹو نے اپنے باپ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی
کا بدلہ ینے کے لیے بنائی تھی۔ ٹیپو کے پاکستانی جہاز اغوا کرنے کی روداد
بیان کی۔لکھتے ہیں افغانستان میں سو سال پہلے ریلوے کاا نتظام تھااور ٹرام
بھی چلتی تھی ۔افغانی کوئلے کی کوالٹی، جو بلیک گولڈ ہے، کی کانیں اورکوئلہ
کی خریداری کیلئے ملاقاتوں کا بھی ذکر کیا۔نور ہسپتال میں پیما کے آنکھوں
کے آپریشن کے لیے کیمپ کی رودا بیان کی۔ اس کے علاوہ شہر مزار شریف،
نورستان ،بگرام جیل، جس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کوقید رکھا گیا جو اب بھی
امریکہ میں ۸۶ سالہ قید کاٹ رہی ہے،چاریکار،بدھ مت کا عظیم اسٹوپا،سالگ
سرنگ،بغلان ،قندوز،ایبک ایک تاریخی قصبہ،بلغ، غزنی،جلال آباد میں عبدالغفار
خان کی قبر،طالبان حکومت کی پالیسیاں، دنیا کاطالبان حکومت کو آج تک تسلیم
نہ کرنا، طالبان کابیرونی اور بیرونی قرضہ نہ ہونا اور بجٹ بنانے کی مکمل
تفصیل سے بیان کی۔
مصنف کا آٹھ دن کا پانچواں سفر۲۰۲۳ء میں ہوا۔یہ سفر افغانستان کے باقی رہ
جانے والے شہروں کی سیر کی وجہ سے ہوا۔لکھتے ہیں طور خم کے راستے کابل ،پھر
حماد فصیح بھائی کے ساتھ مزار شریف گئے۔ایک دن بعد بلخ میں مولانا جلاالدین
رومیؒ کا مدرسہ دیکھنے پہنچ گئے۔بامیان اوربندِ میر جھیل بھی دیکھی۔پھر
ہرات گئے، حماد فیصح واپس کابل اور خود چمن کے ذریعے کوئٹہ آ گیا۔اس سفر
میں مزار شریف،بلغ، مغلیہ سلطنت کابانی بابر کے باغِ بابر مین بغیر چھت کے
مقبرہ،امان اﷲ کا تعمیر کردہ دارالامان محل، محمد نادر شاہ اور ظاہر شاہ کے
مقبرے، بامیا ن کے طالبان کے پہلے دور حکومت تباہ کردہ بدھا کے مجسمے
،موجودہ دور میں روس ترکی اور ایران کی مدد سے بحالی کا تفصیلی ذکر
ہے۔لکھتے ہیں زابل جس میں ملا عمرؒ دفن ہے،دریائے ہلمند، تین ہزار سال
پرانا شہر فراہ جسے ایرانیوں نے آباد کیا۔خراسان میں یہودیوں کا ذکر، اب
افغانستان میں یہودی نہیں رہے۔امارات ہرات اور آخری حصہ میں ملکہ گوہر شاد
دریائے دجلہ سے چین تک کی سرحد تک پھیلی ایک عظیم سلطنت پر حکمران کا ذکر
ہے۔ ملکہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے نام
سے۲۰۱۰ء میں کابل میں گوہر شاد یونیورسٹی اور یران میں تہران یونیورسٹی
قائم ہے۔
یہ کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ مصنف کا یہ دسواں سفر نامہ ہے۔اس سے اپنی پڑوسی
مسلمان ملک افغانستان کی تاریخ اور معلومات ملتیں ہیں۔ کتاب کے آخر میں
مصنف نے کتاب پر تبصرے کا کہا ہے۔میں اپنی پسندیدہ کتابوں پر تبصرے لکھتا
رہتا ہوں ۔ ان تبصروں پر مشتمل کتاب’’کتابیں اپنے آبا کی‘‘ شایع کی ہے۔
کبھی اس کتاب کے اگلے ایڈیشن میں مصنف کی اس کتاب پر اس تبصرہ کو شامل کروں
گا۔ انشاء اﷲ۔
|