صحابہ کرام ؓ کے واقعات میں
تحریر ہے کہ حضرت عمر ؓ کی خلافت کا زمانہ تھا ایک روز ایک چور کو آپ کی
خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے پوری طرح چھان بین کی تو اس شخص کا جرم ثابت
ہوگیا حضرت عمرؓ نے شرع کے حکم کے مطابق اس چور کا ہاتھ کاٹنے کا حکم صادر
فرمادیا یہ چو رایک نوجوان شخص تھا
سزاکے متعلق سنتے ہی رو رو کر حضرت عمر ؓ سے معافی مانگنے لگا اور عرض کرنے
لگا
”اے امیر المومنین ! یہ میری پہلی چوری ہے ،میں وعدہ کرتاہوں کہ آئندہ کبھی
چوری نہیں کروں گا “
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا
”تم جھوٹ بولتے ہو ،تم نے اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ چوری کی ہے “
وہ نوجوان بولا
”نہیں امیرالمومنین ،میں نے آج سے پہلے کبھی چوری نہیں کی “
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی یہ بات ماننے سے انکار کردیا اور
پورے یقین سے فرمانے لگے تم جھوٹ بولتے ہو تم اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ
چوری کرچکے ہوکافی دیر تک بحث کرنے کے بعد آخر اس شخص کو یہ بات تسلیم کرنی
پڑی کہ واقعی وہ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ چوری کرچکاہے مگر اسے اس بات پر
حیرت تھی کہ حضرت عمرؓ کو اس کی پہلی چوریوں کے متعلق کس طرح پتہ چلاہے
حالانکہ پکڑاتو وہ پہلی مرتبہ گیا تھا اس نے بڑی حیرت سے حضرت عمر ؓ سے
دریافت کیا اے امیر المومنین میری پہلی چوریوں کا علم سوائے میرے اور اللہ
تعالیٰ کے کسی او رکو نہیں تھا آپ کو ان چوریوں کے متعلق کس طرح سے پتہ چل
گیا حضرت عمر ؓ نے ارشادفرمایا
”اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس وقت تک زلیل وخوار نہیں کرتا جب تک کہ وہ برائی
کی حد سے آگے نہ بڑھ جائے “
قارئین آج کے اس واقعے کو اگر ہم موجودہ حالات پر منطبق کرکے دیکھتے ہیں تو
حکمت اور بصیرت بھری اس روایت کی حقیقت پر دل حیران ہوجاتاہے آج پاکستان
میں پی آئی اے ،ریلوے ،سٹیل مل ،احتساب بیورو ،آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ
اتھارٹی ،کراچی پورٹ ٹرسٹ ،وزارت حج سے لے کر ہر شعبے سے برآمدہونے والی
کرپشن کی داستانیں اور چوریوں کے قصے یہ ثابت کررہے ہیں کہ جناب پانی سر سے
گزرچکاہے اورموج خوں کے چڑھ جانے اور ہاتھوں اور سروں کی فصل کے کٹنے کا
موسم آچکاہے عجیب بات ہے کہ صدر پاکستان او روزیر اعظم یہ بیانات دینے سے
باز نہیں آتے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی ہیں اور ترقی کا
پہیہ جس رفتارسے آج چل رہاہے کسی دور میں نہیں چلا اور دوسری جانب مہنگائی
،بیروزگاری ،غربت ،بدامنی دیگر حالات کی ستائی ہوئی قوم خودکشیاں کررہی ہے
اور جس کسی کو توفیق ہے وہ اپنے جوتے چھوڑ کر اس ملک سے اپنا بوریابستر گول
کررہاہے اس سب سے پتہ چلتاہے کہ یاتو یہ حکومت ہی چوروں کی ہے اور یاپھر
حکومتوں کی چوریاں اعتدال اور حد سے گزرچکی ہیں ۔
قارئین یوٹیوب پہ آج بھی وہ تصویر موجودہے جس میں 1960ءکی دہائی والے
پاکستان کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان امریکی صدر کے گال کو کسی بچے
کی طرح تھپتھپا رہے ہیں اور امریکی صدر کسی معصوم بچے کی طرح مسکرارہے ہیں
اسی طرح بھٹو شہید کی وہ تصویر یں اور ویڈیو ز بھی یوٹیوب پر دستیاب ہیں جس
میں وہ ایک شیر کی طرح اقوام عالم میں ایک غیرت مند پاکستانی قوم کی
انتہائی بہادری سے ترجمانی کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری جانب آج کا
پاکستان دیکھ لیجئے کہ ہلیری کلنٹن امریکہ سے تشریف لاتی ہیں اور پورے
پاکستان کی سیاسی قیادت ایک بھیگی بلی کی طرح ”میاﺅں میاﺅں “کرتی ان کے
قدموں میں لوٹ رہی ہے ۔
او آنکھوں والوں تم عبر ت کیوں نہیں پکڑتے ؟
قارئین کسی بھی غیرت مند اور درددل رکھنے والے پاکستانی اور کشمیری کے لیے
یہ ازیت اورصدمے کا مقام ہے کہ آج ہماری چورحکومتوں کی وجہ سے ہمارا عالمی
مقام ایک ”روگ سٹییٹ “والا بن چکاہے پاکستان کے متعلق عالمی برادری انتہائی
منفی خیالات رکھتی ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول کے مطابق
اللہ تعالیٰ کسی کو بھی اس وقت تک رسوا نہیں کرتا جب تک وہ حد سے نہ
گزرجائے یقینا ہم حد سے گزر ے ہیں اور اس کے بات اس زد میں آئے ہیں کہ آج
پوری دنیا میں کوئی ہم پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
قارئین آزادکشمیر کا 64واں یوم تاسیس 24اکتوبر 2011ءکو منایا جارہاہے بانی
صدر آزادکشمیر سردار ابراہیم خان اس انقلابی عبوری حکومت کے پہلے سربراہ
مقررہوئے تھے جس نے یہ حلف لیا تھا کہ پورے کشمیر کو آزادکروا کر ایک
آزادحکومت اور ریاست کا قیام عمل میں لایاجائے گا وقت گزرتاگیا اور کارواں
کے دل سے احساس ِزیاں بھی جاتارہا 64سالوں کا یہ سفر لاکھوں کشمیریوں کے
خون سے تحریرہے اور یہ داستان اپنے دامن میں لاکھوں کشمیری شہداءکے خون کے
ساتھ لٹی ہوئی عصمتوں او ربکھرتے ہوئے خوابوں کے شیشوں کی کرچیاں لیے ہوئے
ہے وہ کشمیر کہ جس کے لیے اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل سے لے کر دنیا کے
ہر فورم نے قراردادیں پاس کیں اور بھارت کو اس بات کا پابند کیا کہ وہ
کشمیریوں کی رائے کے مطابق اس ریاست کا فیصلہ کرے آج وہ کشمیر ”یتیم
“ہوچکاہے چونکہ اس کے بڑے بھائی پاکستان نے ”سب سے پہلے پاکستان “کی ڈفلی
بجانے والے ڈکٹیٹر مشرف کے احکامات کے مطابق کشمیریوں سے منہ موڑ لیا ہے
بقول اقبال ؒ
نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا ،نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا
میں ہلاکِ جادو ئے سامری ،تو قتیل ِ شیوہ آذری
مراعیش غم ،مرا شہدسم ،مری بودھم نفس ِ عدم
ترا دل حرم ،گرد ِعجم ،ترادیں خریدہ ءکافری
تری خاک میں ہے اگر شر رتو خیال فقر میں دغنا نہ کر
کہ جہاں میں نان ِ شعیرپر ہے مدارِ قوت ِحیدر ی
گلہ ءجفائے وفانما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے
کسی بتکدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی ”ہری ہری “
قارئین راقم یوم تاسیس کے موقع پر آزادکشمیر ریڈیو ایف ایم 93پر ایک تاریخی
پروگرام کرنے جارہاہے اتوار کی رات 8سے 10بجے ہونے والے اس تاریخی انٹرویو
میںوزیر امور کشمیر میاں منظور وٹو ،مجاہد اول سابق صدر ووزیر اعظم
آزادکشمیر سردار عبدالقیوم خان ،سالار جمہوریت سردار سکندر حیات خان ،جموں
کشمیر محاذرائے شماری اور خود مختار کشمیر کے نظریہ کے بانی عبدالخالق
انصاری ایڈووکیٹ ،برطانوی ہاﺅس آف لارڈز کے تاحیات رکن لارڈ نذیر احمد
،برطانوی صحافی جولی پیٹر ،جموں کشمیر پیپلزپارٹی کے سربراہ سردار خالد
ابراہیم اور سابق وزیر اعظم آزادکشمیر سردار عتیق احمد کے صاحبزادے سردار
عثمان عتیق اس پروگرام میں مدعوہیں اس تاریخی موقع پر ہم اس تمام قیادت سے
یہ سوال ضرورکریں گے کہ جناب آخرایسا کیاہوا کہ آج کشمیر بین الاقوامی
ترجیحات کے فرنٹ پیج سے اتر کر اس کتاب سے ہی باہر نکلنے والاہے جس میں بین
الاقوامی برادری کے سنجیدہ مسائل درج ہیں ۔
قارئین وقت سب سے بڑا منصف ہے آج تاریخ کی کتابیں اور تاریخ دان ہزاروں سال
پر مبنی انسانی ہسٹری کا جب تجزیہ کرتاہے تو پتہ چلتاہے کہ وہ لوگ اور
لیڈرز جو سچے ،امین ،دیانت دار اور اپنی اپنی قوموں کے ساتھ مخلص تھے الفاظ
کے آئینہ خانے میں ان کے چہرے سچائی کے نور سے دمک رہے ہیں اور وہ لوگ جو
جھوٹے ،چور ،دغا باز ،بدمعاش اور کمینے تھے ان پر رہتی دنیا تک لعنتیں
برستی رہیں گی ہماری پاکستان اور آزادکشمیر کی سیاسی قیادت سے اپیل ہے کہ
وہ اپنے آپ کو اس تاریخ کا حصہ بنائیں کہ جو اچھے لوگوں کا باب ہے ورنہ
یہاں بھی ذلت اور آخرت میں بھی رسوائی ان کا مقدر ہوگی
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
دادی اماں نے پوتے سے پوچھا
بیٹا تم امتحان میں فیل کیوں ہو گئے
گڈو دادی اماں میں بھول گیا تھا کہ برطانیہ ،مصر ،امریکہ اور کشمیر کہاں
کہاں ہیں
دادی اماں ”بیٹا اسی لیے تو کہتی ہوں کہ اپنی چیزیں سنبھال کررکھا کرو“
قارئین پاکستانی اور کشمیری حکمران اور سیاسی قیادت نجانے اپنی غیرت ،عزت
،خوداری اور ”کشمیر “ کہاں رکھ کر بھول گئے ہیں ۔۔۔؟ |