جامعہ ملیہ اسلامیہ اور اس جیسی
ملک کی دیگر کئی یونیورسٹیوںمیں طلباءیونین کی بحالی کے مطالبے اور عام
آدمی کے اس میں دلچسپی لینے کے عمل نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آج ہمارے ملک
میں ہر کسی کو ایک ایسے لیڈر کی تلاش ہے ، جو عوام کے مفاد کا خیال رکھتے
ہوئے حکومت کو بہتر ڈھنگ سے چلا سکے اور جمہوریت کے مقاصد کے حصول کے لئے
پختہ عزم ،مضبوط قوت ارادی اور مثبت طرز فکر کاحامل ہو۔عوام کوامید ہے کہ
موجودہ سیاسی منظرنامے میں بڑھتی سرمایہ پرستی ، نسل پرستی اور مافیا کی
طرح کام کرنے والے عناصر کو چیلنج کرنے میںجمہوریت کے مختلف مکتب فکر اور
تعلیمی اداروں سے تربیت یافتہ نیز پڑھے لکھے لوگ ہی اہم کردار ادا کر سکتے
ہیں۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ملک کی زیادہ تر یونیورسٹیوں میں
طلباءیونین کے انتخابات پر پابندی عائدکر دی گئی ہے۔اس بابت اگر یہ کہا
جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اس پابندی کے پیچھے طلبا کو ملک کے مسائل سے لا
علم رکھنے کی حکمت عملی کام کر رہی ہے۔کیونکہ آج ملک میں بڑے کارپوریٹ
گھرانوں اور کثیر ملکی کمپنیوں کا بول بالا ہو گیا ہے اور ہمارے سیاستداں
بھی انھیں کے اشاروںپر کام کر رہے اور انھیں کے مفادات میں فیصلے لئے جارہے
ہیں،جیسا کہ وکی لیکس،ٹوجی اسپکٹرم،سوئز بینک میں ناجائزپیسوں کا حاصل جمع
اورراڈیا ٹیپ جیسے انکشافات نے حقیقت واضح کر دی ہے۔ظاہر ہے ایسے میں جب بے
خوف اوربا خبر تعلیم یافتہ رہنما قومی سیاست میں آئیں گے تو وہ سوال پوچھیں
گے، تحریک چلائیں گے اور ان کا قلع قمع کرنے کی کوشش کریں گے، جس سے یقینا
بد عنوانوں کے مفاد متاثر ہوں گے اور ان کے کاز کو زک پہونچے گی اور وہ
اپنی روش بدلنے پر مجبور ہونگے ۔
لیکن اسے ہمارے ملک کا المیہ ہی کہا جائے گا کہ یہاں ناخواندہ نوجوان
توپارلیمنٹ میں اپنا نمائندہ منتخب کر سکتے ہیں ، لیکن تعلیم یافتہ طلبہ
کیمپس میں اپنا نمائندہ نہیں چن سکتے۔ہم فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہندوستان
کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، لیکن جمہوریت کی پہلی
سیڑھی کو ہی ہم منہدم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ طلبہ
یونین جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط کرتا ہے ۔اس کے ذریعہ طلباءکی سیاسی تربیت
اوران کے اندر قیادت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔لیکن یہ بدقسمتی ہے کہ آج ملک
کے تقریبا تین سو یونیورسٹیوں اور پندرہ ہزار کالجوں میں سے 80 فیصد
یونیورسٹیوں میں طلباءیونین نہیں ہے۔کئی ریاستوں نے طلبہ یونین انتخابات
پرکلیتا قدغن لگا رکھی ہے۔جوطلباءکے جمہوری حقوق پر حملہ اور ملکی مفاد کے
لئے بھی خطرناک ہے۔ یہ اپنے آپ میں بھی متضاد امر ہے کہ ایک طرف تو آپ 18
سال کی عمر کے نوجوانوں کو عوامی نمائندہ منتخب کرنے کے لئے ووٹ دینے کا حق
دیتے ہیں، وہیں دوسری جانب طلبہ یونین الیکشن پر پابندی لگا دی جاتی ہیں۔
یہ کہاں کا انصاف ہے....؟ کہ ملک کاایک طالب علم پارلیمنٹ اور لوک سبھا کے
لئے عوامی نمائندے انتخاب کر سکتا ہے لیکن اپنے کالج میں اپنے لئے نمائندہ
نہیں چن سکتا۔اس کی دلیل میں حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ یہ مفروضہ پیش
کرتے ہیں کہ اس سے یونیورسٹیاں سیاست کا اکھاڑا بن جاتی ہیں اور غنڈہ گردی
و منفی رویوں کوفروغ حاصل ہوتاہے،جس سے لاءاینڈ آرڈر کو برقرار رکھ پانا
مشکل ہو جاتا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسی خامیاں قومی سیاست میں
نہیں ہوتیں؟ کیا اسمبلی اور پارلیمنٹ میں کرسیاں نہیں اچھالی جاتیں ؟شور و
ہنگامہ آرائی نہیں ہوتی ؟کیا وہاں ممبران کے درمیان زور آزمائی اور ہاتھا
پائی نہیں ہوتی ؟کیا آئے دن ملک میں ہندو مسلم کے نام پر فسادات اور جھوٹی
سیاست کی خاطر لا ءاینڈ آرڈر کا معاملہ پیش نہیں آتا تو کیا ایسی صورت میں
حکومت ہمیشہ کے لئے انتخابی نظام کو ختم کر دیتی ہے ؟نہیں ایسا نہیں ہوتا
تو پھر صرف طلبہ یونین کے انتخابات پر ہی ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ بیماری دور
کرنے کے بجائے مریض کو مارنا کہاں تک منصفانہ عمل ہے؟
یہاں بات صرف جامعہ ملیہ اسلامیہ کی ہی نہیں ہے بلکہ حالت یہ ہے کہ ملک کی
زیادہ تر ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبہ یونین کے انتخابات
نہیں ہو رہے ہیں۔یہاں تک کہ مرکزی حکومت کی جانب سے لنگدوہ کمیٹی کی
سفارشات کو نافذکرنے اور سپریم کورٹ کی ہدایات کے باوجود زیادہ تر ریاستی
حکومتوں اور یونیورسٹی انتظامیہ نے سست روی سے کام لیا ہے اور حقیقتا طلبہ
یونین بحال کرنے اور ان کا انتخاب کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھا ئی
ہے۔طلباءیونین اور طلبائی سیاست کے تئیں یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے
ایسے رویوں کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ دنوں راہل
گاندھی کے میمورنڈم پر فروغ انسانی وسائل کے وزیر کپل سبل کی فوری انتخابات
کرانے کی ہدایت کوجامعہ سے لے کر بی ایچ یو تک کے تمام وائس چانسلروں نے
انگوٹھا دکھا دیا، لیکن اس کے باوجود اس پر مکمل خاموشی چھائی رہی اور کسی
نے اس بابت کوئی اقدام نہ کیا ۔
اس معاملہ میں طلباءکی یہ شکایت بالکل بجا ہے کہ کوئی بھی وائس چانسلر،
یونیورسٹی انتظامیہ اور اس سے منسلک اعلی افسران طلبہ یونین نہیں چاہتے۔سچ
تو یہ ہے کہ وہ کوئی یونین نہیں چاہتے ، چاہے وہ ٹیچر یونین ہو ملازم یونین
،نن ایجوکیشن یونین یا پھر طلباءیونین لیکن یونیورسٹی حکام ان سبھی میں سب
سے زیادہ طلبہ یونین سے ہی خار کھاتے ہیں۔اس سلسلہ میں یونیورسٹی انتطامیہ
کا یہ الزام کہ طلبہ یونین کیمپسوں میں غنڈہ گردی ، لاقانونیت ، توڑ پھوڑ ،
ذات برادری ،علاقہ پرستی کا فروغ ہوتا ہے اور طلباء غیر تعلیمی
سرگرمیوںپرزیادہ توجہ دینے لگ جاتے ہیں۔ جس سے پڑھائی لکھائی کے ماحول پر
اثر پڑتا ہے۔ اوریہ شکایت بھی کہ اس سے کیمپسوں میں سیاسی ماحول بڑھتا ہے۔
اس سے طلباء، اساتذہ اور ملازمین میں کھینچ تان اوررسہ کشی شروع ہوجاتی ہے
نا درست نہیں ہے اور یہ کہ ان الزامات اور شکایات میں دم نہیں ہے۔ یقینا ان
کا فرمایا ہوا مستند ہے اور بہت حد تک سچائی پر مبنی بھی کہ گزشتہ کچھ
دہائیوں میں طلباءسیاست سے سماج اور نظام میں تبدیلی کے خوابوں ، امیدوں ،
خیالات اور عزائم کے کمزور پڑنے کے ساتھ مجرمانہ ذہنیت ،فرقہ واریت اور اس
جیسے دوسرے سماج مخالف رویوں کا رجحان بڑھا ہے اور اس کی وجہ سے طلباءیونین
کا بھی زوال ہوا ہے۔ اس سے عام طالب علموں کی طلباءیونین اور سیاست سے نفرت
بھی بڑھی ہے۔اور یہ بھی کہ زیادہ تر یونیورسٹیوں میں طلباءیونین کے خاتمہ
کا پیش لفظ خود طلباءنے ہی لکھا ہے اور وہی غیرسماجی عناصر سے ملکر تخریبی
افعال انجام دئے ہیں ۔اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ
زیادہ ترکیمپسوں میں انہی وجوہات کی بنا پر عام طالب علم ، استاد اور
ملازمین بھی سیاست سے خوف کھانے لگے ہیں۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ
یونیورسٹیوں کے اہلکاروں نے اس کا ہی فائدہ اٹھا کر کیمپسوں میںطلباءسیاست
کا شیرازہ بکھیرا اوریونینوں کاخاتمہ کیا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ طلبائی
سیاست اوریونین کے اس زوال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس میں اعلی اخلاقی
اقدار کے دعوے دار سیاستدانوں ، افسران اور یونیورسٹیوں کے عہدے داروں کا
کوئی کردار نہیں ہے؟سچ یہ ہے کہ طلبہ سیاست کو بدعنوان ، موقع پرست ، گندی
ذہنیت اورغنڈہ گردی کا اکھاڑا بنانے کی سب سے زیادہ ذمہ داری کانگریس ، بی
جے پی اور مین اسٹریم کے دیگر سیاسی جماعتوں کے ذیلی تنظیموں،این ایس یو
آئی ، اے بی وی پی،ایس ایف آئی اور اس جیسی دوسری طلباءتنظیموں کا ہے جنھوں
نے ایسے عناصرکو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ یہ کھلے سانڈ کی طرح دندناتے پھر
رہے ہیں ،جو کبھی رام راج کے نام پر لاٹھی ڈنڈا چلاتے تو کبھی نو نرمان کے
نام پر عام شہریوں کو نشانہ بناتے تو کبھی کشمیر و ایودھیا کے نام پر عام
افراد کی زندگی اجیرن کرتے ہیں ابھی حال ہی میں معروف وکیل پرشانت بھوشن پر
کشمیر کے ایک معاملہ کو لیکر بیان دینے پر جان لیوا حملہ بھی اسی کھلی چھوٹ
اور سرپرستی کا نتیجہ ہے ۔یہاں پر میں یہ بھی کہونگا کہ ان طلبہ تنظیموں
اور ان کے لیڈروں کو یونیورسٹیوں کے افسران اوروائس چانسلروں نے بھی
بدعنوان بنایاہے تاکہ ان کے کالے کرتوتوں پر پردہ پڑا رہے اوران کی
بدعنوانیوں اور بے ضابطگیوں پر طلبہ یونین انگلی نہ اٹھائے۔کئی یونیورسٹیوں
کو قریب سے دیکھنے کی بنیاد پر دعوی کے ساتھ کہاجا سکتا ہے کہ طلباءسیاست
اوریونینوں کو بدعنوان بنانے میں یونیورسٹیوں کے بدعنوان افسروں کا بہت
بڑاکردار رہا ہے تو اس میں وہ سیاستداں بھی پیچھے نہیں ہیں ،جنہوں نے طلبہ
یونین عہدیداروں کو”کھلاؤ پلاو ، بدعنوان بناؤ ، بدنام کرو اور نکال
پھینکو“کی حکمت عملی کا شکار بنایاہے۔اس حکمت عملی کے تحت طلبہ یونین
عہدیداروں کو افسروں نے ہی پیسے کھلائے ، ان کی غنڈہ گردی کو نظر انداز کیا
، انہیں من مانی کرنے کی چھوٹ دی ، پھر ان سب کے لئے انہیں طلبا کے درمیان
بدنام کرنا شروع کیا اور جب یہ لگا کہ یہ لیڈر طلباءولن بن گئے ہیں تو
انہیں دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینکا۔اس میں وہ اس لئے بھی کامیاب ہوئے
کیونکہ طلباءسیاست کے ایجنڈے سے جب اعلٰی منزل کا ہدف ، مثالی کردار
،اورمستقل جدوجہد غائب ہو گئی تو طلبہ تنظیموں اور طلبہ لیڈروں کو بدعنوان
بنانا آسان ہو گیا۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ طلباءیونین کے ختم ہو جانے کے باوجود کیمپسوں میں رام
راج آ گیا ہے یا امن اور سلامتی قائم ہو گئی ہے ۔مثال کے طور پر جامعہ ملیہ
اسلامیہ کو ہی لے لیجئے جہاں گزشتہ دس گیارہ سالوں سے یونین کے انتخابات
نہیں ہو ئے ہیں۔سچائی یہ ہے کہ یونین کے ختم ہونے کے بعد سے ان یونیورسٹیوں
نے نہ تو تعلیمی برتری کا کوئی ریکارڈ بنایا ہے اور نہ ہی وہاں بدعنوانی
اور بے ضابطگیاں ختم کی ہیں،بلکہ زیادہ تر یونیورسٹیوں میںطلباءکے جذبات کو
اس قدر کچلا گیا ہے کہ وہاں پڑھائی لکھائی کے علاوہ باقی سب کچھ ہو رہا ہے۔
ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت والی ریاست بہار کی کسی بھی یونیورسٹی میں
گزشتہ 25 برسوں سے طلبہ یونین کے انتخابات نہیں ہوئے ہیں اس کے کیا نتائج
بر آمد ہو رہے ہیں اسے جاننے کے لئے جے این یو ، ڈی یو اوراے ایم یو وغیرہ
جوملک کی کئی بہترین یونیورسٹیوں میںشامل ہیں کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں
طلبہ یونین ہیں اوریہ وہاں کے تعلیمی ماحول کے لازمی حصے ہیں۔ ان کے ہونے
سے ان کیمپسوں میں دانشورانہ بحث اور غورو فکراور صلاح و مشورہ کا ایسا
ماحول بنا رہتا ہے جس سے سیاسی اور شعوری طور پر آگاہی اورشہریوں کی نئی
نسل تیار کرنے میں مدد ملتی ہے۔یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ کیمپسوں
میںطلباءسیاست اوریونینوں کا ہونا نہ صرف ضروری ہے بلکہ اسے قانونی طور
پرعملی جامہ پہنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
آخر یونیورسٹیوں اور کالجوں کے منصوبوں میں طالب علموں کی شرکت کیوں ہونا
ضروری نہیں ہے؟ ، طلباء کی سیاسی تربیت میں برائی کیا ہے؟ کیا انہیں ملکی
سماج کی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لینا چاہئے؟تصور کیجئے !سیاست سے عاری
نوجوانوں کی جو کل ملک کے شہری ہوں گے ، وہ کیسے جمہوریت چلائیں گے؟ ان
نوجوانوں کی سیاست سے بد ظنی کل اگر عام سیاست سے بدظنی میں بدل جائے تو
کیا ہوگا ؟ صاف ہے کہ طلباء یونین کی مخالفت ، نہ صرف غیر جمہوری بلکہ تانا
شاہی کی وکالت ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ صرف اساتذہ اور ملازمین ہی نہیں بلکہ
طلبہ کو بھی یونیورسٹی کے پالیسی طئے کرنے والے تمام منصوبوں میں حصہ داری
دی جائے۔ اس سے کیمپسوں میں موجودہ بدعنوان نوکر شاہوں کی جگہ صاف شفاف
اورہر ایک کی حصہ داری پر مبنی نظام بن سکے گاجیسا کہ ہندوستانی نشاة ثانیہ
کے نقیب رابندر ناتھ ٹیگور نے کہا تھا ،”جہاں دماغ بغیر خوف کے ہو ، جہاں
سر اونچا ہو ، جہاں علم آزادہو، اسی آزادی کے جنت میں ، میرے رب !میرا ملک
(یا یونیورسٹی) آنکھیں کھولے“۔اس آزادی کے بغیر کیمپسوںمیں صرف پیسہ
جھونکنے یا انہیں پولیس چوکی بنانے یا غیر ملکی یونیورسٹیوں کے سپرد کرکے
پلہ جھاڑ لینے سے بات بننے والی نہیں ہے۔ |