دل کا بےقرار موسم

یہ دل، یہ دل جو کبھی خوشبوؤں سے مہکتا تھا، اب ویران سا کیوں لگتا ہے؟ کبھی امید کے چراغ جلتے تھے، اب مایوسی کے اندھیرے کیوں آ گۓ؟ کبھی لمحے پلکوں پر مسکرا کر ٹھہرا کرتے تھے، اب وہی لمحے آنکھوں میں آنسو بن کر تھمے رہتے ہیں۔ جو دن کبھی تیز دھوپ میں بھی خوشگوار لگتے تھے، اب بادلوں کی چھاؤں میں بھی اداسی کی مہک ہوتی ہے۔ دل جیسے رُک سا گیا ہو۔ جیسے کچھ کھو گیا ہو۔ جیسے کسی نامعلوم سمت سے کوئی صدا آتی ہو، لیکن سنائی نہ دیتی ہو۔ اندر ایک شور ہے، ایک بےچینی، ایک الجھن، جس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آتا۔ ایک تکلیف ہے، جو سمجھ میں نہیں آتی۔ دل جانا چاہتا ہے، مگر کہاں؟ سمجھ میں نہیں آتا۔

محبت، یہ وہ جذبہ ہے جو دل کو زندگی دیتا ہے، جو روح کو بے دار کرتا ہے، جو پلکوں کو خواب عطا کرتا ہے، جو سانسوں میں روشنی بھرتا ہے۔ لیکن جب محبت ہو کر بھی نہ ہو، جب دل کسی کی طرف بڑھے اور وہ سامنے ہو کر بھی دور ہو، تو یہ محبت نہیں رہتی، یہ اذیت بن جاتی ہے۔ وہ اذیت جو نہ مکمل جدائی کی ہوتی ہے، نہ مکمل قرْب کی۔ بس ایک لٹکا ہوا سا لمحہ، جو ہر گھڑی کو کھا جاتا ہے۔ جو نہ جینے دیتا ہے، نہ مرنے، جو نہ چلنے دیتا ہے، نہ رکنے، نہ بولنے دیتا ہے، نہ چپ رہنے۔

کوئی ہوتا ہے جو ہر وقت دل میں رہتا ہے، مگر اُس سے بات ممکن نہیں۔ کوئی ایسا، جسے دیکھے بنا بھی دل اُس کی تصویر بناتا ہے، اور جس سے بچھڑ کر بھی دل اُس کے قدموں کی چاپ سنتا رہتا ہے۔ لیکن پھر ایک دن احساس ہوتا ہے کہ یہ سب صرف اپنے دل کا کمال ہے، دوسرا تو کہیں اور مصروف ہے، کہیں اور آباد ہے۔ وہ تو بےخبر ہے، اور شاید بےنیاز بھی۔ ایک ہم ہیں جو خواب بُنے چلے جا رہے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ انجام کیا ہو گا۔

یہ دل، جو کبھی چاہتوں کی گلیوں میں گم ہو کر مسکرایا کرتا تھا، اب خود کو گمشدہ محسوس کرتا ہے۔ کوئی دھیما سا درد ہے جو ہر لمحے کے ساتھ بڑھتا جا رہا ہے۔ آنکھوں کے پیچھے ایک منظر ٹھہرا ہوا ہے، زبان پر ایک بات اٹکی ہے، دل میں ایک خواہش دبی ہے، مگر سب بےاثر ہیں۔ کوئی سننے والا نہیں، کوئی سمجھنے والا نہیں۔ مگر میں کیا کروں، کچھ بھی تو میرے اختیار میں نہیں، سب اُس کے ہاتھوں میں ہے۔

کبھی دل کرتا ہے سب کچھ چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں، بہت دور، سب سے دور، ایسی جگہ جہاں یادیں پیچھا نہ کریں، جہاں نام نہ آئیں، جہاں لمحے آزاد ہوں، جہاں تمناءیں نہ ہوں، جہاں سانسیں صرف سانسیں ہوں، جہاں درد بھی ہو تو کوءی پوچھنے والا نہ ہو، جہاں موت بھی آے تو خیال کے بغیر، محبت کی قید نہ ہو۔ مگر کہاں جائیں؟ دل تو وہ قیدی ہے جو اپنی ہی دیواروں سے ٹکرا کر لہو لہان ہوتا ہے، نکلنا چاہے تو بھی مجبور ہے، بھاگ کر کہاں جاے، وہ جانے ہی نہیں دیتا۔

کہتے ہیں، وقت ہر زخم کو بھر دیتا ہے، لیکن وقت کا حساب تو صرف گھڑی جانتی ہے، دل نہیں۔ دل تو اُسی لمحے میں قید رہتا ہے، جب اُس نے پہلی بار کسی کے لیے دھڑکنا شروع کیا تھا۔ وہی لمحہ اُس کی دنیا بن گیا، اور وہی لمحہ اب اُس کا قفس ہے۔ وہی اُس کی زندگی ہے، اور وہی اُس کی موت۔ اُسے یہ موت بھی عزیز ہے، یہ موت بھی قبول ہے۔

اب محبت بھی ہے اور خلاء بھی۔ امید بھی ہے اور ویرانی بھی۔ دل کی زمین بنجر ہو چکی ہے، بارشیں بھی بےاثر لگتی ہیں۔ ہنسی بےسبب ہو گئی ہے، اور خاموشی معنی خیز۔ کسی سے کچھ کہا نہیں جا سکتا، اور خود سے چھپایا بھی نہیں جا سکتا۔ ایک بےنام جنگ ہے، جو روز جیتنی بھی ہے اور ہارنی بھی ہے۔ ایک ایسی عزیت جس کا کوءی علاج نہیں، جس کی کوئی دوا نہیں۔

اور دن گزرتے جا رہے ہیں، خاموشی میں لپٹے، سائے جیسے، گزر رہے ہیں۔ کسی پر کچھ ظاہر نہیں، چہرے وہی، باتیں وہی، مگر اندر کا موسم بہت بدل چکا ہے۔ دل کے اندر ایک خالی کمرہ ہے، جہاں کبھی ایک خوبصورت خواب رہتا تھا، اب وہاں خامشی گونجتی ہے، ایسی گونج جسے کوئی اور نہیں سن سکتا، مگر وہ شخص جو تنہا بیٹھا ہے، وہ روز سنتا ہے، لمحہ لمحہ سہتا ہے۔ خاموشی کے ساتھ، عزیت کے ساتھ۔

اکثر ایسا لگتا ہے جیسے سانس لینا بھی خود پر ظلم ہے۔ دل خود سے سوال کرتا ہے کہ جب وہ پاس نہیں، نہ ہونا چاہتا ہے، نہ ہو سکتا ہے، تو یہ جذبہ کیوں باقی ہے؟ یہ تڑپ کیوں کم نہیں ہوتی؟ یہ امید، جو امید بھی نہیں، صرف ایک خواہش کا دھواں ہے، یہ کیوں جلتی رہتی ہے؟ اسے بجھ جانا چاہیے، اسے ختم ہو جانا چاہیے۔

کبھی سوچتا ہوں، اگر سب کچھ بیان کر دیتا، اگر وہ سن لیتی، تو کیا کچھ بدل جاتا؟ یا شاید سب کچھ مزید بگڑ جاتا۔ تب یہی سوچ کر چپ رہا، اور اب بھی یہی چپ، میرے وجود کی زنجیر ہے۔ یہ چپ نہ ٹوٹتی ہے، نہ سنبھلتی ہے، بس دل میں اُترتی ہے، اور درد کو اور گہرا کر دیتی ہے۔ اور اب؟ اب یہ چپ، تھی، ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

کچھ لوگ روشنی بن کر آتے ہیں، اور پھر سایہ بن کر ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ یادیں خوشبو کی طرح آتی ہیں، مگر پھر ہر سانس میں زہر گھول جاتی ہیں۔ اور کچھ محبتیں، جو کبھی ملی ہی نہیں، مگر پھر بھی ہر جدائی سے زیادہ تکلیف دیتی ہیں۔ اور یوں، یہ دل، ایک بےچین قیدی کی طرح، روز سوچتا ہے کہ آخر کب؟ آخر کب ختم ہوگا یہ سفر؟ اور پھر اگلے لمحے، ایک نئی سانس، ایک نئی ہچکی، ایک نئی یاد، اور سب کچھ وہیں سے پھر شروع ہو جاتا ہے۔ کاش کوئی طریقہ ہوتا، اس بےوجہ محبت کو دل سے نکالنے کا، کاش کوئی راستہ ہوتا، جہاں دل جا کر خود کو چھوڑ آتا۔ لیکن نہ راستہ ہے، نہ طریقہ، نہ اختیار، بس ایک ادھورا احساس ہے، جو پورے وجود پر طاری ہے۔

بس یہی سب کچھ سوچتے سوچتے دل یہ سوال کرتا ہے، کہ اب زندگی کس طرح گزرے گی، جب دل کا لگاؤ، دل کا ہی بوجھ بن چکا ہو؟
 

Shayan Alam
About the Author: Shayan Alam Read More Articles by Shayan Alam: 19 Articles with 6987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.