|
|
جب ٹرمپ نے جنوبی افریقہ کے صدر کے سامنے یہ دعوے کیے کہ
ان کے ملک میں سفید فام کسانوں کا ’استحصال‘ کیا جا رہا ہے۔
یہ ملاقات امریکہ کی جانب سے 59 افریکانرز یا سفید فام جنوبی افریقیوں کو
پناہ دینے کے ایک ہفتے بعد ہوئی۔
امریکہ کے اس فیصلے نے جنوبی افریقہ میں بے چینی پیدا کی اور صدر سیرل
رامافوسا نے دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے امریکہ کا دورہ کیا۔
رامافوسا نے اس وقت ان افراد کو ’ڈرپوک‘ کہا تھا۔
اس کے برعکس ٹرمپ نے رامافوسا کو لائیو نیوز کانفرنس کے دوران اس وقت چونکا
دیا جب انھوں نے جنوبی افریقہ میں ’سفید نسل کشی‘ سے متعلق دعوے کیے۔ یہ
ایسے دعوے ہیں جن کی بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ یہ جنوبی افریقہ میں کس جگہ فلمائی
گئی اور اس فوٹیج کی بی بی سی کی جانب سے بھی تصدیق نہیں ہو سکی۔
بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات سے قبل جنوبی افریقہ کے رہنما نے
اس بات پر زور دیا تھا کہ امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری ان کی پہلی
ترجیح ہے۔
ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی کے مطابق جنوبی افریقہ کی جانب سے امریکہ کے لیے
برآمدات پر جولائی کے بعد سے 30 فیصد ٹیرف لگائے جانے کا امکان ہے۔ |
|
|
|
رامافوسا کو امید تھی کہ وہ ٹرمپ کو اجلاس کے دوران خوش
کر سکیں گے اور اسی لیے وہ اپنے ساتھ دو جنوبی افریقی گالفرز بھی لائے اور
انھوں نے اپنے ملک کے گالف کورسز کی تصاویر پر مبنی کتاب بھی صدر ٹرمپ کے
ساتھ شیئر کیں۔
تاہم اس پسِ منظر کے باوجود اوول آفس کی میٹنگ کا آغاز دوستانہ رہا لیکن
پھر ٹرمپ نے اچانک کمرے میں روشنیاں مدھم کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ ایک
ویڈیو پریزینٹیشن دکھا سکیں۔ اور پھر اچانک موڈ تبدیل ہو گیا۔
اس فلم میں جنوبی افریقہ کے سرکردہ اپوزیشن رہنما جولیئس مالیما کی آواز
میں یہ الفاظ سنائی دیتے ہیں: ’شوٹ دی بوئر (افریکانر)، شوٹ دی فارمر۔۔۔‘
اس ویڈیو میں پھر ایک ایسا میدان دکھایا گیا جس میں صلیبیں لگی ہوئی تھیں
جو امریکی صدر کے مطابق سفید فام کسانوں کی آخری آرامگاہیں تھیں۔
یہ صلیبیں دراصل قبریں نہیں بلکہ ایک احتجاج کا حصہ تھیں جس میں ہلاک ہونے
والے کسانوں کے ورثا اور دیگر تنظیموں کی جانب سے مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔
انھوں نے رامافوسا کو پرنٹ آؤٹس بھیجے جو مبینہ طور پر ان سفید فام لوگوں
کی تصویریں ہیں جن پر جنوبی افریقہ میں حملے کیے گئے۔
رامافوسا نے ویڈیو میں موجود اپوزیشن کے اہلکاروں کی آوازوں کے بارے میں
بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے جو دیکھا، جو تقریریں کی گئیں۔۔۔ یہ حکومتی
پالیسی نہیں۔ جنوبی افریقہ میں متعدد جماعتوں سے مل کر جمہوریت بنتی ہے جس
سے لوگوں کو اپنی رائے کا اظہار کرنے کا موقع ملتا ہے۔‘
’ہماری حکومت کی پالیسی اس کے (اپوزیشن رہنما) کے برخلاف ہے اور ان کی ایک
چھوٹی سی اقلیتی جماعت ہے جسے ہمارے آئین کے مطابق برقرار رکھا گیا۔‘
رامافوسا نے بدھ کو کہا کہ انھیں امید ہے کہ ٹرمپ جنوبی افریقہ کے لوگوں کی
آوازوں کو سنیں گے۔ انھوں نے اپنے وفد کے سفید فام افراد کا ذکر کیا جن میں
گالفرز ایرنی ایلس اور ریٹیف گوسن شامل تھے اور جنوبی افریقہ کے امیر ترین
شخص جوہان روپرٹ کا بھی۔
رامافوسا نے کہا کہ ’اگر وہاں نسل کشی ہوتی تو یہ تینوں افراد آج یہاں نہ
ہوتے۔‘
ٹرمپ نے انھیں ٹوکا اور کہا کہ ’لیکن آپ انھیں زمین خریدنے کی اجازت دیتے
ہیں اور جب وہ زمین خریدتے ہیں تو وہ سفید فام کسانوں کو ہلاک کرتے ہیں اور
جب وہ ایسا کرتے ہیں تو ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوتا۔‘
رامافوسا نے جواب دیا: ’نہیں۔‘
امریکی صدر بظاہر یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ میلیما اور ان کی پارٹی جو اس وقت
حکومت کا حصہ نہیں کہ پاس یہ طاقت ہے کہ وہ سفید فام کسانوں سے ان کی زمین
لے سکے تاہم یہ سچ نہیں۔
رامافوسا کی جانب سے رواں سال ایک متنازع قانون کی توثیق کی گئی تھی جس کے
تحت حکومت کسی بھی ذاتی ملکیت والی زمین ضبط کر سکے گی اور کچھ کیسز میں تو
معاوضہ دیے بغیر تاہم جنوبی افریقی حکومت کا کہنا ہے کہ تاحال کوئی زمین اس
قانون کے تحت ضبط نہیں کی۔
رامافوسا نے یہ ضرور کہا کہ ’ہمارے ملک میں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔۔۔ جو
لوگ جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوتے ہیں وہ صرف سفید فام نہیں، ان کی
اکثریت سیاہ فاموں کی ہوتی ہے۔‘
ٹرمپ نے صلیبوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ کسان سیاہ فام نہیں۔ میں یہ
نہیں کہہ رہا کہ یہ صحیح ہے یا غلط، لیکن یہ کسان سیاہ فام نہیں۔‘ |
|
|
|
جنوبی افریقہ کی جانب سے نسل کی بنیاد پر جرائم کے اعداد
و شمار نہیں بتائے جاتے لیکن تازہ ترین اعداو شمار کے مطابق اکتوبر اور
دسمبر 2024 کے درمیان ملک میں 10 ہزار افراد قتل ہوئے۔ ان میں سے ایک درجن
کے قریب فارمز پر کیے گئے حملوں کے دوران ہلاک ہوئے اور ہلاک ہونے والے 12
افراد میں سے ایک کسان تھا جبکہ باقی چار مزدور اور پانچ خانہ بدوش تھے جن
کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ سیاہ فام ہو سکتے ہیں۔
جنوبی افریقہ میں نسل کشی کے دعوے دائیں بازو کے گروہوں میں کئی سال سے چل
رہے ہیں۔ فروری میں ایک جنوبی افریقی جج نے یہ دعوے مسترد کرتے ہوئے انھیں
’مفروضے‘ اور ’جھوٹ پر مبنی‘ قرار دیا۔ وہ اس وقت ایک سفید فام نسل پرست
گروہ کو دی جانے والی فنڈنگ سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے تھے۔
جب ٹرمپ نے اس مسئلے پر زور دیا تو رامافوسا مطمئن نظر آئے اور یہاں انھوں
نے امریکہ کو طیارہ آفر کرنے سے متعلق ایک لطیفہ سنایا جو کام کر گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں معذرت خواہ ہوں، آپ کو جہاز تحفے میں نہیں دے سکتا۔‘
خیال رہے کہ گذشتہ روز امریکی محکمہ دفاع نے تصدیق کی ہے کہ قطر کی جانب سے
تحفے میں دیا گیا ایک لگژری بوئنگ 747 طیارہ صدر ٹرمپ کے نئے ائیر فورس ون
کے طور پر استعمال کے لیے قبول کر لیا گیا ہے۔
اپنے دورہ مشرق وسطیٰ سے قبل امریکی صدر ٹرمپ قطر سے لگژری طیارہ بطور تحفہ
قبول کرنے پر رضامند ہوگئے تھے تاہم انھیں اس حوالے سے امریکہ میں خاصی
تنقید کا سامنا ہے۔
رامافوسا نے اس ملاقات میں نیلسن مینڈیلا کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی
افریقہ نسلی مفاہمت کے حوالے سے پرعزم ہے۔
جب ایک صحافی نے ان سے پوچھا کہ اگر سفید فام کسان جنوبی افریقہ چھوڑ گئے
تو کیا ہو گا، تو رامافوسا نے یہ سوال اپنے سفید فام وزیرِ آبپاشی جان
سٹینہوئسن کی جانب موڑ دیا جنھوں نے کہا کہ زیادہ تر کسان وہیں رہنا چاہتے
ہیں۔
تاہم ٹرمپ رامافوسا پر نشتر برساتے رہے اور جنوبی افریقہ کے صدر ان کے ساتھ
کسی تکرار میں پڑنے سے گریز کرتے رہے جیسا کہ ماضی میں یوکرینی صدر
ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ فروری میں ہوا تھا۔ |
|
|
|
اس اجلاس کے بعد جنوبی افریقہ کے اپوزیشن رہنما ملیما نے
ایکس پر لکھا کہ ’یہ عمر رسیدہ افراد کی جانب سے واشنگٹن میں میرے بارے میں
کیا گیا ایک اجلاس تھا۔ سفید فام نسل کشی کے بارے میں زیادہ انٹیلیجنس
فراہم نہیں کی گئی۔‘
صدر اوبامہ کے دور کے دوران سابق امریکی سفیر برائے جنوبی افریقہ ہیلینا
ہمفری نے کہا کہ یہ اجلاس ’صحیح معنوں میں شرمندہ کرنے والا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ جنوبی افریقہ کے صدر کو شرمندہ کرنے کی نیت
سے ان کے لیے ایک جال بچھایا گیا تھا۔‘
اس بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرے کیے جا رہے ہیں۔ صارف اویس حمید نے لکھا
کہ ’افریقی صدر کے طنز پر کمرے میں قہقہہ ضرور گونجا لیکن یہ طنز دنیا میں
رائج قبیح نظام کا مرثیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔‘
’اس کا مطلب ہے کہ اگر وہ صدر ٹرمپ کو جہاز تحفے میں دے پاتے تو ٹرمپ کی
زبان بند رہتی جیسے سعودی عرب، یو اے ای اور قطر کے حالیہ دورے پر بند رہی۔
نہ ان ملکوں میں جمہوریت ہے، نہ شخصی آزادیاں اور انسانی حقوق کا ریکارڈ
بھی قابلِ رشک نہیں۔‘
ایڈم نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’ٹرمپ کو جنوبی افریقہ کی نسل کشی نظر آتی
ہے لیکن غزہ میں ہونے والی نسل کشی نظر نہیں آتی۔‘
ویوا فری نامی صارف نے ٹرمپ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’ٹرمپ باس ہیں،
انھوں نے جنوبی افریقہ کے صدر کے منہ پر مذمت کی۔‘ |
Partner Content: BBC Urdu |