سبکدوش

زندگی قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ایک مقصد جس کو مقصد حیات کہا گیا ہے اس مقصد کی کامیابی وناکامی کا دارومدار خود انسان کے ہاتھوں میں ہے انسان اگر کامیاب زندگی گزار ے گا تو کامیاب ورنہ ناکام رہے گا کامیابی ہی کی اُمید وجستجو لے کر اپنے زندگی کے کیئریئر کا 14جون 1988ء کو پشاور تعلیمی بورڈ سے شروع کرنے والے ڈیرہ کو آباد کرنے والے اسماعیل خان کے قبیلہ کے چشم وچراغ حاجی فضل الرحمن خان بلوچ19مئی 2025ء کو گریڈ 17میں ڈیرہ تعلیمی بورڈ سے کامیابی کے ساتھ سبکدوش ہو گئے ہیں وہ پشاور بورڈ سے1990ء میں بنوں بورڈ کے قیام کے وقت وہاں آئے اور پھر مارچ 2006ء میں ڈیرہ تعلیمی بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی تو وہ ڈیرہ تعلیمی بورڈ کی بنیاد کے ضامن قرار پائے صوبہ خیبر پختونخواہ میں جب ڈیرہ اسماعیل خان کے عوام کا مطالبہ بڑھا کہ تعلیمی بورڈ کا قیام ڈیرہ میں عمل میں لایا جائے تو وزیر اعلی اکرم خان درانی نے اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی بنا دالی کمیٹی نے اپنی سفارشات صوبائی حکومت کو بھجوائیں مگر بد قسمتی سے یہ سفارشات عصبیت پر مبنی اورغلط اعداد وشمار اور حقائق کے منافی الفاظ کا شاخسانہ تھیں اس کا جواب جن لوگوں نے مختلف ذرائع سے دیا ان میں ایک فضل الرحمن بلوچ بھی تھے اور بروقت صحیح اعداوشماربمع ناقابل تردید ثبوت پیش کر کے انہوں نے اس مٹی کا قرض چکا دیا لیکن مٹی کا فرض ابھی باقی تھا اور وہ فرض ریٹائرمنٹ کی آخری ساعت تک نبھایا اور خوب نبھایا ڈیرہ تعلیمی بورڈ کے قیام کے بعد یہاں مشکلات پیدا ہونا فطری اَمر تھا جس سے نبر آزما جہاں دیگر لوگ تھے بورڈ کے اندر بیٹھا کوئی بھی ذی شعور شخص اس سے غافل کیسے ہو سکتا ہے جب تعلیمی بورڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تو بنوں بورڈ سے چند ٹوٹی پھوٹی کرسیاں محدودناکارہ الماریاں اور بیکار میزیں اورمخصوص رقم اور گنتی کے چند افرادشامل تھے اگر وسائل کو انصاف سے تقسیم کیا جاتا تو یہ چیزیں جو ڈیرہ تعلیمی بورڈ کے حوالے کی گئیں یہ بنوں بورڈ کے پاس بچتیں اس سب کو قبول کر کے ادارے کے قیام کی طرف توجہ مرکوز رکھنے والوں میں نمایاں حاجی فضل الرحمن تھے پہلے پہل ان کی تعیناتی تعلیمی بورڈ کے سیکریسی سیکشن میں ہو ئی کسی بھی بورڈ کا سیکریسی سیکشن اس کی اساس کا ضامن ہوتا ہے یہاں انہوں نے نہ صرف اپنے کمالات کے ہنر دکھائے بلکہ ایسے ضابطے ترتیب دئیے کہ آج تک وہ رہنماء اصول کے طور پر کارآمد ہیں اسی اثناء میں نئے سٹاف کی بھرتی کا مسئلہ درپیش ہوا تو ان کی خدمات ایڈمنسٹریشن سیکشن میں کر دی گئی یہاں بھی ان کی صلاحتوں سے بھرپور استفادہ حاصل کیا گیا محسوس یہ ہوتا تھا کہ حاجی فضل الرحمن نے تعلیمی بورڈ کے قیام کو دوام بخشنے کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے بورڈ کے داخلی محاذ پر بھی مسلسل کام کیا سٹاف کے درمیان کام کی تقسیم کے مسائل اور ایک دوسرے کا احساس کرنے اور ایک دوسرے کا دست وبازو بننے اور ا س کادرس دینے کہ آپ بورڈ کے ایمپلائی کم اور سگی اولاد ہیں ڈیپوٹیشن پر آئے آفیسرز ومخصوص سٹاف کم وقت کے لئے آتا اور چلا جاتا ہے آپ ہی اس بورڈ کے کل کی حفاظت کریں گے تو یہ ادارہ قائم ودائم رہے گا اس نظریے کو ایک توانا آواز بنا دیا اور ایسی یونٹی پیدا کی کہ زمانہ اس کی مثالیں دینا نظر آتا ہے اپنی صلاحیتوں سے انہوں نے وہ قرض بھی اتارے جو ان پر لازم بھی نہ تھے ہمارا ان سے تعلق اس زمانے میں استوار ہوا جب وہ بنوں تعلیمی بورڈ میں تعینات تھے ایک کام کے سلسلے میں استاد نیاز مرحوم ومغور کے حوالے سے ان سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے نہ صرف کام کیا خوب مہمان نوازی کی بلکہ اپنے اخلاق سے ایسا متاثر کیا کہ یہ تعلق پھر اٹوٹ تعلق بن گیا اور پھر ،،سوچ،، نے اس کو قلبی لگاو کا ذریعہ بنا دیا جی سوچ ایک رفاہی سماجی تنظیم تھی جو بنوں میں کاروبار یا نورکری کے سلسلے میں رہائش پزیر ڈیرہ والوں نے قائم کی اس کے میر کارواں نزیر احمد صاحب تھے جو ادویات کے کاروبار سے منسلک تھے اور حاجی فضل الرحمن بلوچ صاحب اس تنظیم کے روح رواں تھے سوچ نے ڈیرہ کی کیہل برادری کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے دریائے سندھ کے کنارے کیہل برادری کی عارضی آبادی ایک ٹینٹ سکول قائم کیا اس میں ایک استاد تعینات کیا اور بچوں کو کتابیں کپڑے ان کے والدین کو ایک ہر ماہ ایک مخصوص رقم تاکہ اِن سے بھیک منگوانے کی شرمناک روش کا خاتمہ ہو ایک بابر ہر دس روز بعد سکول میں آکر بچوں کی زلف تراشی کا فریضہ سر انجام دیتا یہ تمام وسائل سوچ اپنے چندے سے پورا کرتی سکول کے تنظیم کے یہ افراد جب بھی سکول کا وزٹ کرتے تو ہمیں بھی اس کار خیر میں شامل کرتے اس دوران فضل الرحمن بلوچ صاحب سے ہر ویک اینڈ پر ملاقات ہوتی اُ ن سے یہ تعلق اب تو دہائیوں پر محیط ہے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کا اس کالم میں احاطہ کرنا ناممکن ہے یقین جانیں اگر کبھی ان کو اپنے بیٹوں کے درمیان بیٹھا دیکھیں تو آپ کو محسوس ہو گا ایک بھائی اپنے چھوٹے بھائیوں کے درمیان موجود ہے دوستوں کے درمیان تسبیح کے دھاگے کی طرح ہر دانے کو دوسرے دانے اور ہر بانکے کو اپنی جگہ جوڑے رہنے کا ہنر رکھتے ہیں اگر ہم یہ کہیں کہ وہ تعلیمی بورڈ کو میسر آئے تو اپنے عزم وحوصلے سے بورڈ کوبہت سارے معاملات میں ایک مثالی ادارہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی کیا یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ اگر وہ بورڈ کو میسر نہ ہوتے تو بورڈ کی جو شکل موجودہ ہے یہ شکل نہ ہوتی اس کا اظہار ان کے کولیگ بہتر انداز میں کر سکتے ہیں ابھی چند سال بیشتر جب صوبائی حکومت نے سنٹرل تعلیمی بورڈ بنانے کا ارادہ کیا تو صوبہ بھر کے تعلیمی بورڈز میں تحریک اٹھائی گئی ڈیرہ اسماعیل خان تعلیمی بورڈ سے توانا آواز جو ملکی و قومی میڈیا کی زینت بنی حالانکہ پشاور بورڈ کے کسی پروگرام کی اتنی کوریج نہ ہوئی یہ انہی کی برپا کردہ تحریک کا اثر تھا پھر حکومت اس سے پیچھے ہٹ گئی انہوں نے بورڈ کے داخلی معاملات میں دوستی کو بھی نظر انداز کیا متعدد بار بورڈ کی خبروں کی بابت ہم بات کرتے تو بڑے مدبرانہ انداز میں بورڈ کی خامی کو اس کی خوبی بنا کر پیش کرتے ان کے اعزاز میں بورڈ ملازمین نے ایک پر تکلف اور خوبصورت تقریب کا اہتمام کیا جو کہ واقعی ان کے شایان شان تھا اور رخصت کرتے وقت ان کی محبتوں کا اجر اُن کو لوٹایا آخر کا ر وہ پشاور سے شروع ہونے والے اپنے سفر ڈیرہ اسماعیل خان میں عظیم دریائے سندھ کے کنارے اختتام پر مخصوص انداز میں بائے بائے کا ہاتھ فضا ء میں بلند کرتے اور واشگاف الفاظ میں الوداع کہتے ریٹائرمنٹ کے سفر پر روانہ ہو گئے اُن کی ایک الوداعی تصویر پر ہم نے تبصرہ کیا کہ ریٹائرمنٹ کے احساسات وجذبات کو چھپانے کے لئے کالے عدسوں کی عینک کا بر محل استعمال کوئی آپ سے سیکھے۔ اب نہ تو ہم ان سے بورڈ کے دفتر میں ان سے چائے کی فرمائش پر ملاقات کا بہانہ بنا کر ان سے مل سکتے ہیں نہ عمران ان کی رقابت میں نہ فرقان ان کی رفاقت میں نہ عالم گیر اپنی آفاقیت میں نہ ملک آصف اپنی آصفیت میں نہ شوکت اپنی شان میں نہ زاہد اپنے زُہد میں اور نہ ارشد اقبال رُشد لینے میں ان سے پہلے جیسے بورڈ میں مل پائیں گے ۔ہاں ان کے رقیب اپنی رقابت میں اور ان کے حاسدین اپنے حسد میں اپنی ہی زیست کی زیاں کاریوں پر کاربند رہیں گے یہ انسانی فطرت ہے۔زندگی قدرت کا ایک عظیم عطیہ ہے انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ایک مقصد جس کو مقصد حیات کہا گیا ہے اس مقصد کی کامیابی وناکامی کا دارومدار خود انسان کے ہاتھوں میں ہے انسان اگر کامیاب زندگی گزار ے گا تو کامیاب ورنہ ناکام رہے گا کامیابی ہی کی اُمید وجستجو لے کر اپنے زندگی کے کیئریئر کا 14جون 1988ء کو پشاور تعلیمی بورڈ سے شروع کرنے والے ڈیرہ کو آباد کرنے والے اسماعیل خان کے قبیلہ کے چشم وچراغ حاجی فضل الرحمن خان بلوچ19مئی 2025ء کو گریڈ 17میں ڈیرہ تعلیمی بورڈ سے کامیابی کے ساتھ سبکدوش ہو گئے ہیں۔

 

Usman Isra
About the Author: Usman Isra Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.