زندگی تندرستی میں ہی اپنا حسن نمایاں رکھتی ہے ،پرانے
وقتوں میں جڑی بوٹیوں سے علاج ہوتا تھا ،
نہ جڑی بوٹیوں کے نام ہر بندے کو پتہ تھے ،نہ ہی ہر جڑی بوٹی کا مخصوص نام
رکھ کر شاپر میں یا ڈبی میں پیک کر کے کسی حکیم کی دوکان پر لایا جاتا تھا
کہ آپ یہ جڑی بوٹی اپنے مریضوں کو دیں اور ہم سے کمیشن وصول کریں ،
دوسری طرف نہ ہی تب حکیموں کے شاگرد ایسے تھے کہ کسی حکیم نے کمیشن لینے سے
انکار کر دیا اور اس کے شاگرد نے ذمہداری لے لی ہو کہ میں حکیم صاحب کو
قائل کروں گا ۔
لیکن آج یوں ہوتا ہے کہ روز ایک نئی دوائی مارکیٹ میں آتی ہے ،روز ہی ایک
نئی کمپنی وجود میں آتی ہے اور اپنے نمائندے شہروں کے ڈاکٹروں کے پاس بھیج
دیتی ہے کہ اس دوائی کا استعمال کروانے کے لیے قائل کریں ،
پھر کئی جگہوں پر بولیاں لگتی ہیں ، اپنی ہسپتال کی کوئی ضرورت سامنے رکھی
جاتی ہے یہاں تک کہ ڈاکٹر کی دوائی لکھنے والی پرچی تک ان کمپنیوں سے
بنوائی جاتی ہے ،ڈاکٹر صاحبان کے کمرے میں اے سی تک کی فرمائش کی جاتی ہے
،جبکہ اس سے پہلے اس فارمولے کی کئی ناموں سے دوائی مارکیٹ میں موجود ہوتی
ہے ،
غریب عوام کو روٹی کی فکر ہے ،ان کو بچوں کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں اور
یہی ہماری کم بختی کی سب سے بڑی وجہ ہے ،لہذا پھر حق ہے لوٹنے والوں کا کہ
وہ نام بدل کر اپنے خزانے بھرتے رہیں ،
لیکن ڈاکٹر کو تو پتہ ہوتا ہے کہ یہ دوائی یہ فارمولا پہلے موجود ہے اور کم
قیمت میں آسانی سے مل جاتا ہے ،
لیکن یہ نئی ادویات نئے ناموں سے پھر مقرر کیے ہوئے میڈیکل سٹور سے ہی مل
سکتی ہیں کیونکہ فرمائش کی تکمیل کے لیے کمپنی نے اپنی جیب سے کچھ نہیں
لگانا بلکہ مریضوں کی جیبوں سے ہی نکال کر لگانا ہے ،
سوال یہ ہے کہ حکومت اس طرف توجہ کیوں نہیں دیتی ،جب ایک چیز موجود ہے تو
کوئی مدت تو مقرر ہو کہ کہ اتنی دیر کے بعد اسی فارمولے کی نئی دوائی
مارکیٹ میں آ سکتی ہے لیکن ساتھ کوئی وجہ بھی ہو ۔
اب وجہ دو ہی ہیں کہ
پہلے سے موجود دوائی کام نہیں کرتی ،
فارمولے میں تبدیل یا ترمیم لازم ہے ،
لیکن اگر مطلوبہ وجہ بھی نہیں اور پھر بھی روز ایک نئی دوائی اور کمپنی
مارکیٹ میں انسانی جانوں پر استعمال ہو رہی ہے اپنے منافع کی غرض کے لیے تو
اس پر سوچنا ہو گا ۔
قانون سازی تو شاید ہوئی ہی ہو گئی لیکن اس پر عمل کی ضرورت ہے تبی یہ
معاملہ بہتری کی طرف جائے گا ۔
یہ میڈیکل ورکرز کے خرچ ، ڈاکٹروں کی فرمائش ، کمپنیوں کے مالکان کی
ضروریات الغرض سب کچھ استمعال کندہ پر ہی ہے اور وہ غریب عوام ہے ،
یہاں یہ بھی سچ ہے کہ کئی میڈیکل سٹور مالکان بھی پریشان ہیں کہ کس کس
کمپنی کی دوائی پوری کریں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین
|