عرب ممالک میں جمہوری آندھی کا سچ

دیکھتے ہی دیکھتے آنا فانا لیبیا42سالہ آمرانہ دور اقتدارسے آزاد ہوگیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ لیبیا کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی اور اتنے طویل عہد کاخاتمہ پلک جھپکتے ہی ہوجائے گا۔ تاریخ کے اندر 21اگست 2011کو کس حیثیت سے جگہ ملے گی یہ طے تو ایک مورخ ہی کرے گا ، البتہ اتنا تو طے ہو گیاکہ ہر عروج کو زوال ہے ۔ اس حقیقی تھیوری کے مطابق مرد آہن معمر قذافی رحمہ اللہ کی آمریت مٹی کاڈھیر ہوگئی اور ان کا دور اب ماضی کاحصہ بن چکاہے۔ان کی ہلاکت کاسب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ پہلے وہ زندہ پکڑے گئے پھر لاچارگی ،بے بسی کی زخمی اور قابل رحم حالت میں بھی انہیں بے دردی سے ماردیاگیاجسے کسی بھی طور انسانی عمل قرار نہیں دیاجاسکتا۔اسی پر بس نہیں بلکہ نعش کی بے حرمتی کی گئی اور تادم تحریر وہ گوروکفن سے محروم تھی،حالانکہ موت اور ہلاکت کے بعد خواہ کسی کی بھی نعش ہو ایک آمر کی ہو یا عادل کی لائق احترام ہوتی ہے۔ بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول تویہ ہے کہ جس شخص پر سنگین جرائم کا الزام ہو اس پر ممکنہ صورت میں مقدمہ چلایاجائے ۔اس سلسلے میں انسانی حقوق کونسل کابیان ” زندہ زخمی کو گولی مارنا بڑاجرم“ قابل ستائش ہے ۔ یہاں تک کہ انہوں نے موت کی جانچ کامطالبہ بھی کیاہے ، یہ تو انسانی حقوق کونسل کا اپنافرض تھا جسے رسمی ہی سمجھاجائے ۔ مگر اس کاحاصل کیا؟ ان سوالات پر مغز ماری سوائے وقت کی بربادی کے کچھ نہیں ۔ بس یوں سمجھ لیجئے کہ کرنل قذافی اگر مجرم تھے تو وہ کیفر کردار کو پہنچ گئے ، بس!جنرل معمر قذافی رحمہ اللہ کی ہلاکت سے ابتک کتنے تبصرے ، تجزیے اور ردعمل منظر عام آچکے ، کسی نے انہیں اپنی آنکھوں کاسرمہ نہیں بنایا، نہ تو ان کی تعریف میں کسی کی زبان وقلم رطب ہوئی ۔ہاں ! اتناضرور ہے کہ ازراہ انسانی ہمدردی کے ایک بڑے طبقے نے اس طرح کی موت اورزندہ گرفتاری کے بعد مارے جانے کی مذمت کی ۔ ورنہ کسی نے انہیں جانباز تاناشاہ لکھا، کسی نے ان کے دور کو آمرانہ دور سے تعبیر کیااور وہ آمروں اور ڈکٹیٹروں میں شمارہوئے۔ بلکہ بہتوں نے یہ بھی کہاکہ ایسے آمر کی موت ایسی ہی ہوتی ہے اور اس کا آمرانہ دور اقتدار اسی طرح پاش پاش ہوکر سامان عبرت بن جاتاہے۔ عالمی ردعمل کاجائزہ لیں تو یہاں ان کے بار ے میں اور بھی تشدد پایاجاتاہے ۔ بقول امریکی صدر براک اوبامہ”کرنل قذافی کی ہلاکت سے لیبیا کے لوگوں کیلئے ایک دردناک دور کاخاتمہ ہوگیا“۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون نے قذافی کی ہلاکت پر لیبیائی عوام کو خراج تحسین پیش کیا۔ فرانس کے وزیر خارجہ ایلین ژوپ ویورپی یونین کے رہنماﺅں نے قذافی کی ہلاکت کو لیبیا میں 42سالہ آمریت کاخاتمہ قرار دیا۔ امریکی ریپبلیکن سینیٹرجان مکین نے اس ہلاکت کے بارے میں کہاکہ ”یہ لیبیاکے انقلاب کاپہلامرحلہ ہے“۔یہ بیانات اور ردعمل تھے عالمی رہنماﺅں کے جو انہوں نے قذافی کی ہلاکت پر دئے۔ یہ بیانات ہیں ان عالمی رہنماﺅں کے جو یورپی یونین کالوگو لگاکر پوری دنیا پر بالعموم اور مسلم ممالک پر بالخصوص اپنی من مانی کاسکہ چلارہے ہیں ، اور ان کے ظلم واستبداد کے سامنے لفظ”آمریت “ بھی ’بونا‘دکھائی دیتاہے۔میں اگر اپنی بات میں غیر جانبدارنہیں تو فلسطینیوں پر اسرائیلیوں کے ظلم وجبر کو کونسا نام دیاجائے گا؟مہلک ہتھیار کامفروضہ قائم کرکے عراق کی تباہی کاجواز کیاہے ؟ طالبان اور القاعدہ کے نام پر افغانستان کومٹی کاڈھیر بنادیناکہاں تک بجاہے؟کیااس سے بڑی بھی کوئی آمریت ہوسکتی ہے کہ کسی کے ملک میں بغیر اس کی اجازت کے کسی شخص کے خلاف فوجی آپریشن ہو؟ مگر افسوس! ان میں سے نہ توکوئی آمر ہوتاہے اور نہ جابر ،بلکہ پوری دنیامیں بش ،ایریل شیرون اور یورپی یونین سے جڑے افرادخود کو عادل اور منصف گردانتے ہیں ، گویاپوری دنیاکی غم گساری اور غم خواری کاانہوںنے ٹھیکہ لے رکھاہو۔ اس طرح جمہوریت کے نام پر پورے عرب ممالک میں قتل وخونریزی کاایک نہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہوچکاہے اور لگتاایساہے کہ یہ اسی وقت دم لے گا جب مسلم مملکت اپنا سب کچھ کھوبیٹھی ہوگی ۔ میری مراد اسلامی تہذیب وثقافت سے نہیں اسے تو اس نے مغربیت کے رنگ میں رنگ کر بہت پہلے ہی گم کردیا،بلکہ میرا مطلوب ان ممالک میں پائے جانے والے قدرتی خزانے سے ہے۔یہاں اہم سوال یہ ہے کہ قذافی کے خلاف کاروائی اور ان کی ہلاکت کیا کوئی پہلی ہلاکت ہے؟ اس جیسی ظالمانہ کاروائی کسی پر نہ ہوئی یا اسے آخری سمجھیں کہ اس طرح کسی کو موت کے گھاٹ نہیں اتاراجائے گا؟اگر ہم واقعہ یہی سمجھتے ہیں تو یہ ہماری اور اسلامی دنیاکی بہت بڑی بھول ہے ۔ امثال بھرے پڑے ہیں ۔ عرب ممالک کے وہ حکمراں جو مغرب اور ان کے حوارییین کی نگاہوں کاکانٹابنے ہوئے تھے انہیں ہلاکت وبربادی کے اسی ہولناک انجام سے دوچار ہوناپڑا۔ اور اب تو عرب ممالک میںجمہوریت کی ہواچلادی گئی ہے ، اب امریکن اور اس کے پٹھووں کو کچھ کرنانہیں بلکہ ازراہ ہمدردی جمہور عوام کے تعاون کے حیلہ سے ملک میں حکومت کے خلاف فوجی کارروائی شروع کردینی ہے۔اور سارے عرب ممالک کاحشر عراق،افغانستان اور لیبیا جیساہونے والاہے ۔میں ایک بڑی تلخ حقیقت سے پردہ اٹھاناچاہتاہوں جسے شاید کچھ حضرات میرے ذہن ودماغ کافطور بھی سمجھیں ، مگر یہ ایسی سچائی ہے جس کامشاہدہ آج کی نسل نہیں تو آنے والی نسل ضرور کرے گی کہ جمہوریت کابلند وبانگ نعرہ یہودی برادری کاوہ فریبی منشور ہے جس کو عالمی دنیابالخصوص اسلامی ممالک پر مسلط کرکے ہی وہ اپنے ناپاک منصوبے میں کامیاب ہوسکتاہے ۔اور اس کے لیے چاہے اسے جتنی بھی جانیں لینی پڑیں پرواہ نہیں ۔ ان کے انسانیت سے گرے عقائد میں سے یہ بھی ہے کہ یہودیوں کے علاوہ کوئی بھی قوم ،ذات یاشخص لائق احترام نہیں ، اور روئے زمین پر سبھوں کے جان ومال ان یہودیوں کیلئے حلال ہیں ،بلکہ ان کی ذات کے علاوہ سارے لوگ ان ہی کی خدمت کیلئے پیداہوئے ہیں۔جس قوم اور جماعت کے عقائد ایسے ہوں بھلااس کے بارے میں خیر خواہی کاگمان رکھناخام خیالی ہی نہیں عقل کافطور ہوگا۔ اس پس منظر میں جمہوریت کو دیکھیں تو عالمی برادری پر کنٹرول کرنے کایہی وہ جال ہے جس میں وہ بہت حد تک کامیاب بھی ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ یعنی جمہوریت کی چنگاری جلاکر عوام کو حکومت کے خلاف برگشتہ کرو، عوامی تعاون کے بہانے فوجی کاروائی کرو، ان کی معیشت اور فوجی قوت کو نشانہ بناﺅ اور جب سب کچھ تہہ وبالا ہوجائے تو جمہوریت کا سبق پڑھانے اور مالی استحکام کے بہانے بڑی سبک روی کے ساتھ اپنی مرضی مسلط کردو ۔ظاہر سی بات ہے ،خانہ جنگی میں جس قوم کاسب کچھ لٹ گیاہو ، اس کی معاشی اور دفاعی قوت خاک وخون میں مل چکی ہو ،ایسی حالت میں چاروناچار اسے مالی امداد اور تعمیراتی استحکام پہنچانے والے کے شرائط میں بندھنا ہی ہوگااور غلامی کے یہی وہ شرائط ہیں جو مملکت اسلامیہ کامقدر نظر آرہاہے۔اس ضمن میں دیکھیں تو فلسطین پر مسلسل کارروائی ، عراق وافغانستان کی تباہی اور عرب ممالک میں جمہوریت کے نام پر برپاانقلابی قہر یہودی پروٹوکول کی پہلی تمہید کاخاتمہ ہے ، وہ اس لئے کہ 1950کی دہائی کے آس پاس فلسطین میں دخل اندازی اپنے منشور پر عمل کی ابتداتھی۔اور ان کی منصوبہ بندی اب اس نتیجے کو پہنچ چکی ہے کہ اسے ایک خاتمہ دے دیاجائے ، اور کیوں نہ ؟ جبکہ اس طویل مدت میں انہوں نے اپنے مکر وفریب سے یاسر عرفات ، صدام حسین ، اسامہ ، قذافی ،حسنی مبارک جیسے بڑے بڑے طاقت ور حکمرانوں پر قابوپالیا۔ اب جبکہ کچھ شیر شکار کئے جاچکے اور کچھ قید وبند کی زندگی بسر کررہے ہیں تو میدان تقریبا صاف ہی ہوچکا۔ اب نہ کوئی مغرب کے خلاف گرجنے والا ہے اور نہ ہی کوئی ان کی آنکھوں میں آنکھ ملاکر بات کرنے والاہے ۔ ایک بیچارہ پاکستان ہے جسے اسامہ کی ہلاکت کے بعد بھی نجات نہ ملی ،بلکہ اب حقانی نیٹ ورک کے نام پر گیدڑ بھپتیاں دی جارہی ہیں اور اسی پر حامد کرزئی کا رد عمل جاری ہواہے کہ ”اگر پاکستان پر حملہ ہو اتو ہم پاکستان کا ساتھ دیں گے “۔خیر !ابھی کے حالات توبھیانک اور ہوش ربا ہیں ہی البتہ آنے والے ایام عراق،افغانستان، مصر ، یمن اور لیبیا کیلئے کیسے ہوں گے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
md.shakir adil
About the Author: md.shakir adil Read More Articles by md.shakir adil: 38 Articles with 58037 views Mohammad shakir Adil Taimi
From India
.. View More