تعارف:
میں جس موضوع پر بات کرنے جا رہی ہوں، وہ صرف ایک سماجی مسئلہ نہیں بلکہ
ایک گہرا جذباتی پہلو بھی رکھتا ہے۔ یہ صرف عورت کے حقوق یا اس پر ہونے
والے مظالم کا بیان نہیں، بلکہ اس کے اندر کے جذبات، اس کی تربیت، اور
معاشرتی سوچ کا عکس ہے۔ موضوع کا نام ہے: "بنتِ حوا"۔
اصل بات:
جب بھی "بنتِ حوا" کی بات ہوتی ہے، لوگ فوراً سمجھتے ہیں کہ اب بات عورتوں
کے حقوق یا ان پر ہونے والی ناانصافیوں پر ہوگی، لیکن میری بات کچھ مختلف
ہے۔ میری بات ایک ایسی بچی سے شروع ہوتی ہے جو ابھی اس دنیا کی رنگینیوں،
چالاکیوں اور حقیقتوں سے ناآشنا ہوتی ہے۔
اس کے ہاتھ میں گڑیا تھما دی جاتی ہے اور ذہن میں یہ تصور بٹھا دیا جاتا ہے
کہ ایک دن کوئی راجکمار آئے گا اور اسے لے جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہم کیوں
بچپن سے بچیوں کو یہ خواب دکھاتے ہیں؟ کیوں ان کی تربیت یوں کرتے ہیں کہ ان
کی مکمل زندگی کا مرکز ایک آنے والا شخص بن جائے؟
معاشرتی الجھنیں:
جب وہ راجکمار نہیں آتا، تو وہ خود تلاش کے سفر پر نکلتی ہے۔ بعض اوقات یہ
تلاش اسے غلط راستوں پر لے جاتی ہے۔ وہ نادانی میں فیصلے کرتی ہے، غلطیاں
کرتی ہے۔ اور جب وہ دنیا کی ٹھوکریں کھا کر خود کو سنبھالتی ہے، تب تک
معاشرہ اس پر شک کرنا شروع کر دیتا ہے۔
ہم نے اسے کچھ اور سکھایا ہی نہیں ہوتا، نہ اسے خود اعتمادی دی، نہ اسے یہ
بتایا کہ اصل طاقت اس کے اپنے کردار میں ہے، نہ کہ کسی راجکمار کے خواب
میں۔
حل اور اصلاح:
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی بیٹیوں کو بچپن سے یہ سکھائیں کہ ان کی عزت
سب سے اہم ہے۔ ہر شخص ان کا محرم نہیں، ہر شخص سے بات کرنا درست نہیں۔
انہیں یہ سکھائیں کہ اگر کوئی نہ بھی آئے، تو وہ خود اپنی زندگی کو خوبصورت
اور باوقار بنا سکتی ہیں۔
شوہر صرف نکاح کے بعد کا رشتہ ہے، جس کے ساتھ محبت، عزت اور خلوص ہو سکتا
ہے — اس سے پہلے کوئی وعدہ، کوئی خواب، کوئی دعویٰ قابلِ اعتبار نہیں۔
نتیجہ:
میری یہ باتیں شاید تلخ لگیں، لیکن یہ سچائی ہیں۔ اگر کسی کے دل میں پاکیزہ
جذبہ ہے، تو وہ کسی کی زندگی کو برباد نہ کرے۔ عورت کوئی کھلونا نہیں، کہ
جسے وقت گزارنے کے لیے استعمال کیا جائے۔
ہر بیٹی، ہر عورت کو یہ جان لینا چاہیے کہ عزت سب سے پہلا ہار ہے، جسے
ہمیشہ سنبھال کر رکھنا چاہیے۔ "بنتِ حوا" کو صرف خواب بیچنے کی بجائے حقیقت
دکھائیے، علم دیجئے، کردار دیجیے، اور خوداعتمادی دیجیے۔
|