قابل رشک شہادت

محمودالرشید حدوٹی

دنیا بھر کے لکھاریوں نے قذافی کی موت کو عبرت ناک قرار دیا ہے، کیا مسلم کیا غیر مسلم سب ہی نے عبرت ناک موت لکھا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسے ایسا ہی لکھاتھا، وہاں سے عرب اور اردو اخبارات کے کالم نویسوں نے ریزہ چینی کی، جو کچھ لکھا گیا وہ ان کرائے کے قاتلوں کے زہریلے الفاظ تھے جو انہوں نے کرنل معمر القذافی کی لاش کے پاس کھڑے ہو کر عالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے اپنی زبانوں سے صادر کیے تھے، کرائے کے قاتلوں اور صیہونی و استعماری ایجنٹوں نے قذافی کی زخموں سے چور، خون کی رنگینی سے لالہ زار بنی لاش پر رقص کیا، ناچے اور خوشی، مسرّت کا اظہار کیا، کئی نوجوان ان کی لاش کو مخاطب ہو کر گالیاں نکالتے رہے، نیٹو کی خوفناک ترین بمباری، سمندر اور فضاﺅں سے بھیانک حملوں کے باعث سرت سے نکل کرنا معلوم مقام کی سمت رخت سفر باندھے مجاہدوں کے قافلے کو سخت نقصان اٹھانا پڑا، تمام گاڑیاں کوئلے کا ڈھیر بن گئیں، زندہ مجاہدین گاڑیوں کے اندر کوئلہ بن گئے، قذافی اور ان کے چند ساتھیوں کو اتنی مہلت مل گئی کہ وہ اس بمباری میں صرف زخمی ہوئے، تابڑ توڑ فضائی حملوں کے باعث وہ سرت کے ایک پل کے نیچے پناہ لینے پہ مجبور ہو گئے، جسے سازشی و شرارتی دماغوں نے غلط رنگ دے کر یوں کہا کہ وہ ایک سیوریج پائپ لائن میں چھپے تھے، حیرت و استعجاب کا مقام ہے کہ سیوریج لائن میں کوئی ذی شعورو عقل آدمی کیسے ٹھہر سکتا ہے؟

قذافی پل کے نیچے تھے، استعماری ایجنٹ ملیشیا کے ایک دستے نے اچانک اس وقت قذافی کو دیکھا جب وہ پیش قدمی کر رہا تھا، اس دستے نے پل کے ایک گوشے سے فائرنگ کی، پھر سبک رفتاری سے مصراتہ کا ایک نوجوان آگے بڑھا، جس نے زخموں سے نڈھال و بے حال قذافی کو دبوچ لیا، اتنے میں غیران اور بُوسنا نامی دستے نے ان پر حملہ کیا، توہین آمیز سلوک کیا، قذافی نے مزاحمت شروع کر دی، انہیں کہا کہ میں تمہارے باپ کی جگہ ہوں،شرق الاوسط اخبار کے مطابق ان نوجوانوں میں اکثریت لیبیائی بدوﺅں کی تھی، جو اپنے خاندان، بیوی بچوں اور رشتہ داروں سے ہٹ کر رات قذافی، اس کے بیٹوں اور اس کے ہمرازوں کے آرام وہ محلات میں گزارتے تھے، ان کی قذافی کے ترجمان موسیٰ ابراہیم کے ساتھ علیک سلیک تھی، اسی تعلق کے باعث وہ دن بھر قذافی پر فتح پانے کی باتیں کرتے تھے۔

جب قذافی کو خونخوار انقلابیوں، باغیوں، استعماری ایجنٹوں نے اپنے حصار میں لیا تو ان کے درمیان اس بات پہ تکرار اور تو تکار شروع ہو گئی کہ اب انہیں کہاں لیجایا جائے، کچھ نوجوانوں کا اصرار تھا کہ انہیں استعماری انقلاب کی جائے پیدائش بن غازی پہنچایا جائے، مصراتی نوجوانوں نے بیک آہنگ کہا کہ نہیں، نہیں انہیں مصراة لیجایا جائے، اتنے میں ایک نوجوان نے ان کے سر میں گولی ماری کہ ان کی جان نکل گئی، پھر ان کی لاش کو گھسیٹتے اور مغربی دنیا کو خوش کرتے رہے، قذافی شہادت سے پہلے شہادت کے لیے تیار ھوئے اور سلحہ ساتھ لیا اور مقابلہ جاری رکھنے کا عزم کیا۔

قذافی کے پاس سیل فون تھا، جو سیٹلائٹ کے ذریعے چلتا تھا، عین اس مرحلے پہ اس فون پہ آخری کال ان کی بیٹی عائشہ کی آئی جب قذافی کی روح قفس عنصری سے پرواز کر چکی تھی، استعمار کے حمایت یافتہ ایک باغی نے فون اٹینڈ کیا تو دوسری طرف عائشہ بول رہی تھیں، جنہیں اس نے خبر دی کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں، اس روح فرسا خبر دینے پر اس ظالم شخص کو بھی پچھتاوا اور افسوس ہوا کہ مجھے کم از کم ان کی بیٹی کو اس طرح کی اطلاع نہیں دینا چاہیے تھی۔

20اکتوبر2011ءکی صبح جمعرات کے دن کرنل معمر القذافی کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کی لاش کو سرت سے مصراتہ پہنچایا گیا، جہاں سبزی منڈی کے ایک کولڈ اسٹوریج میں رکھ دی گئی، اتوار کو مصراتہ کے ایک ڈاکٹر نے پوسٹ مارٹم کیا جس سے پتہ چلا کہ انہیں سر پر گولی ماری گئی تھی، اتوار کی رات کو استعماری ایجنٹوں کے گڑھ بن غازی کے ملبے کے ڈھیر پر لیبیا کی فتح اور مکمل آزادی کا جشن منایا گیا، کرنل معمر القذافی کی میت ان کے خاندان کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جب کہ ان کی تدفین کے بارے میں لیبیا کی ٹرانزٹ کونسل سخت پریشانی کا شکار ہے، لیبیا کے ایک ٹی وی پہ باقاعدہ رائے شماری کرائی گئی کہ ان کی لاش سمندر کے سپرد کر دی جائے، مصراتہ میں دفن کیا جائے یا سرت میں ،تینوں آپشنوں پر رائے موجود ہے، عبوری حکمران اس بات پر بھی خائف ہیں کہ اگر کسی معروف جگہ پہ ان کی تدفین کی گئی تو لوگ ان کی قبر کو کہیں مزار نہ بنا دیں۔

لیبیا کے مرد حُر اور مرد میدان معمر القذافی نے بقائمی ہوش و حواس دس نکات پر مشتمل وصیت بھی تحریر کر دی تھی، جس میں صراحةً موجود ہے کہ انہیں ان کے آبائی قبرستان سرت میں دفنایا جائے، انہیں غسل نہ دیا جائے، انہیں اسلامی و شرعی تعلیمات کے مطابق دفنایا جائے، ان کے خاندان خصوصاً بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے، لیبیائی لوگ اپنی پہچان اور شناخت کی حفاظت کریں، اپنی بہترین آزادانہ پالیسیاں کسی کے سپرد نہ کریں، ان کے مرنے کے بعد مقابلہ جاری رکھا جائے، لیبیا کے درپے ہونے والی بیرونی طاقتوں کا مقابلہ کرنا چاہے آج، کل یا جب کبھی بھی ہو، میری فیملی کے تمام افراد کو فرداً فرداً سلام اور دنیا بھر کے محب مسلمانوں کو میراسلام، اس وصیت نامے کے آغاز میں قذافی نے لکھا کہ میں اللہ تعالیٰ کے ایک ہونے اور محمد ﷺ کے اللہ کا رسول ہونے کی گواہی دیتا ہوں اور میں عقیدہ اہل سنت والجماعت پر جان دے رہا ہوں۔ اس وصیت میں قذافی نے یہ بھی لکھا کہ ہم اپنے وطن کی حفاظت کے لیے جو کچھ کر سکتے تھے وہ ہم نے کیا، ہم نے کسی سے وطن کا سودا نہیں کیا، وطن کی حفاظت ہمارا شرعی فریضہ تھا جب کہ وطن فروشی یہ بڑی خیانت ہے۔

اس وصیت کے علاوہ کرنل معمر القذافی کے سرت میں موجود خاندان نے عبوری کونسل سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ انہیں ان کے بہادر بیٹے اور قائد کی لاش حوالے کر دیں تاکہ وہ اسلامی، شرعی اور انسانی اقدار کے مطابق ان کی آخری رسوم ادا کر سکیں اور انہیں ان کے آبائی قبرستان میں دفن کر سکیں اور عبوری کونسل سے استدعاءکرتے ہیں کہ یہ مطالبہ ان کا شرعی حق ہے۔

شہید قذافی نے بڑی جرات رندانہ اور حریت فکر کے ساتھ اپنی زندگی گزاری ہے وہ سلطان ٹیپو کے اس قول کا مصداق تھے، ”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے“۔ واقعتاً انہوں نے اپنی زندگی ایسے ہی گزار دی، آخری وقت وہ خون میں لت پت تھے، سر سے خون بہہ رہا تھا، ہاتھوں پہ خون کی رنگینی تھی، لباس خون آلود تھا، چہرہ زخموں سے چور تھا، سارا بدن زخمی زخمی تھا، اس کے باوجود رعب و دبدبے کا عالم یہ تھا کہ دشمن لرزہ براندام تھے، اسی لیے تو اعلان کیا گیا کہ خفیہ طور پر قذافی کی تدفین کر دی گئی ہے، قتل کرنے والے کا نام صیغہ راز میں رکھ دیا گیا کہ کہیں واضح ہونے پر قبائلی جنگ کا آغاز نہ ہو جائے۔

لیبیائی ریڈیو، ٹی وی پر کرائے کے لوگوں کومن پسند تبصرے کرنے کے لئے بٹھا دیا گیا ہے، جو مختلف سوالات کے لرزہ خیز جوابات دے کر دوسروں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرنے میں مصروف ہیں، مگر جو لوگ یہاں یہ سوالات اٹھاتے ہیں کہ یہ انقلاب نہیں استعماری ایجنٹوں کا ایجنڈا ہے، یہ تیل اور مسلم ذخائر پر قبضے کی گہری سازش ہے تو اینکر پرسن ان سوال کرنے والوں کو اولاً یوں کہتا ہے کہ کوئی دوسرا سوال کرو، پھر کہتا ہے کہ میں آپ کے سوال کا مفہوم سمجھ رہا ہوں، کیا قیامت کی گھڑیاں ہیں، جس دیس میں کسی دور میں سامراج کے قدم نہیں جم سکے آج سامراج کے خلاف سوال بھی نہیں سنا جا سکتا۔

642ءمیں جب لیبیا پر رومی افواج نے قبضہ کر رکھا تھا تو حضرت عمرو بن العاصؓ کی قیادت میں حضرات صحابہ کرامؓ نے اس محکوم لیبیا کی دھول اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں سے اڑا کر دشمنوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں، علاقہ فتح ہوا تو رومی افواج تلملانے لگیں، قبضے کے ہزار جتن کے باوجود قبضہ نہ کر سکیں، حضرت عبداللہ بن سعدؓ کی قیادت میں 647ءمیں لیبیا اسلامی خلافت کا حصہ بن گیا، 663ءمیں حضرت عقبہ بن نافعؓ نے ہر قسم کی مزاحمت کی سلگتی آگ کو سرد کر دیا تھا۔

جنگ عظیم اوّل کے وقت دنیائے کفر یکجان ہو کر خلافت عثمانیہ کا چراغ گل کرنے کے درپے ہوئی، ایسے حالات میں آزاد منش لوگوں کی دھرتی لیبیا نے عمر المختار جیسا جرنیل جنم دیا، جس نے اٹلی کی افواج کے خلاف وہ معرکہ بپا کیا کہ دنیا ششدر رہ گئی بالآخر انہیں اٹلی افواج نے گرفتار کیا اور تختہ دار پہ کھینچ ڈالا۔ اس زمانہ میں لیبیاکو اٹلی کا افریقہ کہا جاتا تھا، جنگ عظیم روم کے بعد برطانیہ نے یہاں اپنے علم لہرائے، 1943ءسے 1951تک لیبیا پر برطانیہ کا قبضہ رہا، 1951ءمیں برطانیہ کو شاہ ادریس کی شکل میں اپنا ایک غلام مل گیا، جس نے آزادی کا اعلان کیا، ایسے عالم میں شیخ احمد سنوسی کے پیروکار پورے لیبیا میں اسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے کوشاں تھے۔

یکم ستمبر1969ءکو شاہ ادریس کا تختہ الٹ دیا گیا، ایک قطرہ خون بہائے بغیر کرنل معمر القذافی نے لیبیا کا تخت و تاج سنبھالا، شاہ ادریس کے مظالم عروج پہ تھے، رشوت ستانی عام تھی، بے راہ روی کا شکار لیبیائی نوجوان قحبہ خانوں اور نائٹ کلبوں کا دلدادہ بن چکا تھا، برطانوی غلام شاہ ادریس نے اپنے دیس کو مغربی رنگ میں رنگ دیا تھا، اہل دل اس کے سیاہ کارناموں پہ دل گرفتہ تھے، قذافی نے اقتدار سنبھال کر شکستہ دلوں کی ڈھارس بندھائی، آتے ہی امریکہ نواز پالیسیوں کو جوتے کی نوک سے اڑا دیا، اسلام دشمن پالیسیوں کا قلع قمع کیا، اسلام کے منافی قوانین کے تا رپود بکھیر دیئے، شراب نوشی کے اڈے بند کر دیئے، قحبہ خانے ویران ہو گئے۔ نائٹ کلبوں پہ تاریکی چھا گئی، انقلابی راہنما نے 1970ءمیں وزیراعظم کا منصب سنبھالا، اس کے بعد امریکی اڈے ختم کرنے کا اعلان کیا، اطالویوں کی جائدادیں ضبط کرنے کا حکم دیا، ملکی اور غیر ملکی بینک قوم کی تحویل میں دے دیئے، انگریزی زبان پہ پابندی لگا دی، عربی زبان کو سرکاری زبان قرار دیا۔

تخت شاہی پہ براجمان ہونے کے بعد انہوں نے عالم اسلام سے مراسم بڑھانے شروع کیئے، سعودیہ کے شاہ فیصل، پاکستان کے ذوالفقار علی بھٹو کے قریب ہوئے، ان تینوں نے مل کر امریکہ اور مغرب کے خلاف حکمت عملی اختیار کرنے کی سوچ اپنائی، مغرب کا تیل بند کرنے اور مسلم اقوام متحدہ بنانے کی سوچ اپنائی، امریکہ کو یہ پالیسی ذرا نہ بھائی تو اس نے بھتیجے کے ہاتھوں شاہ فیصل ضیاءالحق کے ہاتھوں بھٹواور کرائے کے قاتلوں کے ہاتھوں قذافی کو مروا دیا۔

کرنل معمر القذافی نے لیبیاکو ہر طرح کے استعماری ہتھکنڈوں سے بیالیس سال تک بچائے رکھا، وہ اپنی پالیسیاں خود بناتے اور خود تبدیل کرتے تھے، وہ مغربی طرز جمہوریت کو لعنت سمجھتے تھے، انہوں نے اقتدار پوری لیبیائی اقوام میں تقسیم کر دیا تھا، ہر شہر اور قصبہ میں کمیٹیاں قائم کر رکھی تھیں جن کی سر پرستی خود کرتے اور ان کی تمام ضروریات کو اصول و ضابطے کے تحت پورا کرتے تھے، تیل کی مد میں حاصل ہونے والی بے پناہ دولت وہ لیبیا کے لوگوں پر ہی خرچ کرتے تھے، کوئی شخص لیبیا میں غریب نہیں تھا، پابندیوں، معاشی بائیکاٹ، بیرونی دباﺅ کے باوجود لیبین ریال میں قوت تھی، وہ اپنے اندرونی معاملات میں کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تھے، امریکہ سمیت تمام دنیا کو اس دربار میں سوچ سمجھ کر زبان کھولنا پڑتی تھی، لیبیا کے لوگ ان کی قیادت پر بہت خوش تھے، ان کی طرز حکمرانی سے کچھ شریر دماغ پریشان تھے،ا نہیں ذراکھل کھیلنے کا موقع دیا جاتا تو وہ استعماری ہاتھوں میں کودنے لگتے جیسے فروری 2011ءمیں بن غازی سے باغی اٹھے اور امریکی دولت، آشیرباد، مشاورت اور نیٹو کے فضائی حملوں کی مدد سے پورے لیبیا پہ چھا گئے۔ قذافی لیبیا کا وہ محسن حکمران تھا جس نے خانہ بدوشوں، جھونپڑیوں میں رہائش پذیر لوگوں کے لیے فلک بوس فلیٹ تعمیر کروا کر چابیاں ان کے ہاتھ میں تھما دی تھیں، صحرائی بدو اور جھونپڑیوں کے مکین اپنے اونٹوں سمیت ان عالی شان فلیٹوں میں رہائش کے خواہش مند تھے مگر اونٹ بلند و بالا عمارات پہ کہاں بسیرا کر سکتا ہے اس کی رسائی وہاں تک ناممکن تھی۔

کرنل قذافی واشنگٹن کی پالیسیوں کو اپنانے کی بجائے اپنی سیاسی پالیسیاں خود بناتے تھے، تیل کی تمام کمپنیاں قومی ملکیت میں لے لی تھیںِ غیر ملکیوں کے زیر قبضہ تمام زمین لے کر غریب کسانوں میں مفت تقسیم کر دی تھی، لیبیا میں رہنے والے ہر شخص کو تعلیم، علاج اور رہائش کی سہولیات حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی گئی تھیں، لیبیا میں رہنے والے ہر شخص کو تعلیم، علاج اور رہائش کی سہولیات حکومت کی طرف سے مفت فراہم کی گئی تھیں، پورے لیبیا میں اسلامی اقدار کی حوصلہ افزائی کی گئی، پورے ملک پر ان کا مکمل کنٹرول تھا، شروع شروع میں اکڑی گردنوں کو ضرور ناپا گیا، شریر ذہنوں کو ضرور تسکین دی گئی، بیمار طبیعتوں کا درماں کیا گیا، مگر مغربی ذرائع ابلاغ جس طرح کی کہانیاں گھڑتے، افسانہ طرازیاں کرتے اور قذافی کو ہلاکو اور چنگیز کا جدید روپ بتاتے ہیں ایسی قطعاً و یقیناً کوئی بات نہیں تھی، اگر ایسا ہوتا تو 42سال تک لیبیا کے لوگ کبھی برداشت نہ کرتے، اب جب تو نسیا میں بو علی زین العابدین اور مصر میں حسنی مبارک کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو یہاں بغاوت امریکہ نے کروائی، مال و دولت امریکہ نے بارش کی طرح برسائی، اسلحہ بن غازی کے راستے تقسیم کیا گیا، سمندری حدود سے نیٹو افواج نے بارش کی طرح بمباری کرکے لیبیا کو کھنڈرات میں تبدیل کیا، بغاوت کرنے والے نوجوان کرائے کے قاتل تھے جن کی مجموعی تعداد بیس ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ یہ بن غازی سے اٹھے، وہیں اچھلتے کودتے رہے، طرابلس کے لاکھوں لوگوں نے قذافی کے حق میں سڑکوں پہ مظاہرے کر کے ثابت کر دیا تھا کہ آج بھی لیبیائی عوام قذافی کے ساتھ ہیں۔

قذافی نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی تو سب سے پہلے بکھرے لیبیا کے منتشر قبائل پر توجہ دی، انہیں امن و شانتی سے رہنے کا درس دیا، پھر عربوں کی طرف متوجہ ہوئے اور انہیں بتلایا کہ تمہارے آباﺅ اجداد کس شان کے مالک تھے تم کیوں اغیار کے غلام ہو، انہوں نے پوری کوشش کی کہ عرب دنیا متحد ہو جائے، کم از کم عربی بولنے والے ایک ہو جائیں، مگر عربوں نے ان کی باتوں کو مزاحیہ انداز میں ٹال دیا وہ بہت غیرت مند انسان تھے ایک دفعہ عرب سربراہوں کی کانفرنس میں سعودی فرماں روا شہزادہ عبداللہ کو دستانے پہن کر ہاتھ ملایا، انہوں نے کہا کہ یہ کیا ہے؟ قذافی نے کہا کہ تمہارا یہ ہاتھ یہودونصاریٰ کے ہاتھ کو مس ہوا ہے مناسب نہیں کہ میں کھلے ہاتھ آپ سے مصافحہ کروں، اس پر دونوں سربراہان کے درمیان نوک جھونک ہو گئی تھی۔ قذافی کی زندگی اس طرح کے بہت سے لطائف سے عبارت ہے، دو سال بعد پھر ایک اجلاس میں صلح ہوئی تو دونوں فرماں رواﺅں نے ایک دوسرے کو اپنے ہاں آنے کی دعوت دی۔

جہاں کہیں وہ امریکی مخالفت کا موقع دیکھتے تو کوشش کرتے تھے کہ کوئی نہ کوئی بات وہ کہہ دیں، وہ امریکہ کے سخت مخالف رہے، مگر پاکستانی جرنیل صدر پرویز مشرف نے جب 2001ءمیں امریکی دھمکی پہ سب کچھ سپرد بہ امریکہ کرنے کا فیصلہ کیا تو قذافی کی ہمت جواب دے گئی، انہوں نے ایٹمی پروگرام ختم کر دیا، امریکی سفارت خانہ کھولنے کی پھر سے اجازت دے دی۔ 2003کے بعد مغرب کی طرف سے ان پر عائد کی گئی پابندیاں ہٹنا شروع ہوئیں تو انہوں نے کئی ممالک کا دورہ کیا، اسی دوران امریکہ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ڈیڑھ گھنٹہ خطاب کیا، جس میں اس نے اقوام متحدہ کے راز فاش کیے۔ اس کی بے انصافیوں اور جانب داریوں کو طشت از بام کیا، اس کے منشور کی کاپی اٹھا کر پھینک دی، مسلم امّہ کی کھل کر ترجمانی کی، یہ تقریر نہیں تھی بلکہ قذافی اپنے پروانہ موت پر دستخط کر رہے تھے، یہ تقریر ان کی جان لینے کا نقطہ آغاز تھا، پھر اس کے بعد انہوں نے متحدہ افریقہ کا نعرہ لگایا، اس کے سربراہ منتخب ہوئے، افریقہ کے بیشتر ممالک میں دولت پانی کی طرح بہائی، فرانسیسی استعمار کے دور میں ہونے والے مظالم کا تذکرہ کر کے لوگوں کی ذہن سازی کرتے تھے، یہ دوسرا نقطہ تھا جس پر انہیں راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا، یہی وجہ ہے کہ لیبیا پر حملے میں فرانس نے بڑی کاوش کی، نیٹو کے جس جہاز نے قذافی کے قافلے پہ حملہ کیا وہ بھی فرانس ہی کا تھا، اس کے ساتھ دنیا بھر میں کہیں بھی مسلمان یا مسلم شعائر کے خلاف شرارت ہوتی تو قذافی کھل کھلا کر اس کی مذمت کرتے تھے، ان میں ڈنمارک کی طرف سے رسول اللہﷺ کے خاکے ہوں یا سویٹزر لینڈ کی طرف سے مسجد کے میناروں پر پابندی، قذافی کھل کر ان کا معاشی بائیکاٹ کرنے کا اعلان کرتے تھے، اسی لیے یہ ممالک اب زیادہ متحرک ہیں۔

قذافی کو پاکستان سے بڑی محبت تھی، انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر لاہور کی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شرکت کی اور ایمان افروز تقریر سے اہل پاکستان کے دلوں کو گرمایا، ان کی اسی یاد میں قذافی اسٹیڈیم تعمیر کیا گیا، پاکستان کے سینکڑوں والدین نے اپنے بچوں کے نام قذافی رکھے، پاکستان کے شہروں میں کاروباری مارکیٹوں کے نام قذافی رکھے گئے، ایٹم بم بنانے کے لیے انہوں نے مالی تعاون کیا، جب امریکی ایماءپر بھٹو کو پھانسی ہونے لگی تو قذافی نے ضیاءالحق کی منت سماجت کی کہ انہیں چھوڑ دیا جائے مگر ضیاءالحق کو ذرا ترس نہ آیا، قذافی نے سپیشل جہاز بھیجا جو پانچ دن تک ہوائی اڈے پہ کھڑا رہا، مگر اُسے خالی جانا پڑا، قذافی نے کشمیر کی حمایت اور آزادی کے لیے پاکستان کو امداد دینے کا فیصلہ کیا، کشمیر اور پاکستان میں زلزلہ آیا تو ایسے لگ رہا تھا جیسے سارا لیبیا یہاں تعمیر و آباد کاری میں مصروف ہے، قذافی فاﺅنڈیشن نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ لوگوں کو سر چھپانے کے لیے مکان تعمیر کر کے دیئے، کھانے کے لیے خوراک و غذا مہیا کی گئی، پہننے کے لیے لباس، غرضیکہ انہیں اشیائے ضرورت مہیا کرنے میں ذرا دریغ نہیں کیا گیا۔

قذافی نے اسرائیل کے مقابلے میں فلسطینی مسلمانوں کا ساتھ دیا، انہیں مال کی ضرورت تھی قذافی نے مال دیا، انہیں اسلحہ کی ضرورت تھی قذافی نے اسلحہ دیا، انہیں افرادی قوت کی ضرورت تھی قذافی نے لیبیا سے مجاہدین روانہ کیے، یہی ان کے کچھ کارنامے تھے جن کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی آنکھ کا تارہ تھے، مگر افسوس کہ اردو اخبار نویسوں، انگریزی اور عربی اخباری کالم نگاروں کو یہ کارنامے کچھ نہیں دکھائی دے رہے، بس سب نے ایک ہی رٹ لگا رکھی ہے کہ وہ ظلم ڈھاتا تھا، مگر انصاف سے ترازو تولا جائے، دنیا کے کون سے مسلم ملک کے حکمران اپنے مخالفین کو صفحہ ہستی سے نہیں مٹاتے رہے۔

میں کئی بار خود لیبیا گیا ہوں، وہاں کی کانفرنسوں میں شرکت کی ہے، لیبیائی لوگوں سے ملاقاتیں کی ہیں، ان کے حال احوال دریافت کیے ہیں، ہر شخص خوشحال تھا، مالی مسائل کا شکار نہیں تھا، مہنگائی کے بوجھ تلے دبا ہوا نہیں تھا، رشوت ستانی، چوری، ڈکیتی، غصب اور دیگر جرائم کا نام و نشان نہیں تھا، ہر طرف امن و شانتی کی خوشگوار ہواﺅں کے جھونکے چل رہے تھے، تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع ہو چکا تھا، بیرونی ممالک کے لوگ کام کاج کے لیے یہاں آنا شروع ہو گئے تھے، نہ صرف اندرون لیبیا بلکہ بیرون میں بھی قذافی نے بے شمار رفاہی ادارقائم کر رکھے تھے، افریقہ کے تپتے صحراﺅں اور ریگزاروں پہ قرآنی مکاتب قائم کیے، معلمین کی تنخواہیں جاری کیں، دنیا بھر میں پیغام اسلام عام کرنے کے لیے ایک تنظیم قائم کی جس کے ساتھ ہزاروں لوگ وابستہ تھے، قرآن حکیم دنیا کی ہر زبان میں ترجمہ کر کے تقسیم کیے، اسلامی کتب کی اشاعت کے لیے ادارے بنائے، عربی زبان کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوشش کی۔

فروری2011ءمیں مطلق العنان حکمرانوں کے خلاف آندھیاں اور طوفان تونس سے اٹھے، زین العابدین کی حکومت کا دھڑن تختہ کیا اور یہ خوفناک آندھی مصر پہنچی، سترہ دن کے خون آشام مظاہروں کے بعد حسنی مبارک کی حکومت کی چولیں ہل گئیں، پھر اس آندھی نے لیبیا کا رخ کیا، بار بار ایک آواز آتی تھی کہ قذافی اقتدار چھوڑ دیں، قذافی نے اعلان کیا کہ میں انقلابی لیڈر ہوں، حکمران نہیں ہوں، امریکہ، فرانس، جرمنی، اٹلی نے بھی اس شر انگیز آواز میں آواز ملانا شروع کر دی، اسلامی ممالک میں قطر اور متحدہ عرب امارات نے کھل کر اس شیطانی قافلے میں شمولیت اختیار کر لی، مغربی دنیا نے بن غاز ی کے لوگوں کو اکسانا، بھڑکانا اور اٹھانا شروع کیا، قذافی نے انہیں سمجھایا کہ مغربی لوگوں کے جال میں آکر اپنے ملک کو آگ میں دھکیلنے کی کوشش نہ کی جائے، مذاکرات کا راستہ اختیار کیا جائے، شاید یہ پہلا موقع تھا کہ قذافی نے ان لوگوں کو مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کو کہا، مگر باغی اور ان کے راہنما کٹھ پتلی، امریکی مہرے اب اس کو اپنی انا کا مسئلہ سمجھنے لگے، انہوں نے اعلان کیا کہ ہم قذافی سے مذاکرات نہیں کریں گے، ہمیں قذافی کی بے دخلی چاہیے۔ مگر قذافی ان امریکی مہروں کے سامنے کب اقتدار چھوڑ سکتے تھے، جب امریکہ کے تمام داﺅ پیچ خطا گئے تو اس نے اپنی لونڈی اور خادمہ اقوام متحدہ سے فضائی حملے کرنے اور قذافی افواج کے فضائی حملے روکنے کی قرارداد منظور کروالی، جس کی مسلم دشمن ادارے نے فوری منظوری دے دی، یہ قرارداد منظور ہوتے ہی نیٹو افواج نے لیبیا پر بمباری شروع کر دی، لیبیائی افواج کی چھاﺅنیاں، اسلحہ خانے تباہ کر دیئے گئے، ذرائع مواصلات کوتہس نہس کر دیا گیا، باب العزیز پہ بمباری کی گئی جہاں قذافی کے بیٹے اور پوتے پوتیاں شہید ہو گئے، ان انسانیت سوز کارروائیوں پر قذافی نے پالیسی بیان جاری کیا کہ میں ملک دشمنوں کا مقابلہ کروں گا، وطن چھوڑ کر کہیں نہیں جاﺅں گا، شہادت کی موت مروں گا، میرے آباﺅ اجداد نے ملک کی خاطر جانیں دیں میں بھی ملک کی خاطر جان دوں گا، چنانچہ عہدوپیمان کو نبھاتے ہوئے قذافی، اس کی افواج اور وفاداروںنے 19مارچ سے لے کر 20اکتوبر 2011 تک مسلسل سات ماہ تک ان حملوں کا مقابلہ کیا، اگست کے اواخر میں باغی سمندری راستے سے طرابلس پہ قابض ہو گئے تھے، یوں سقوط طرابلس ہوا، اس کے بعد دو ماہ تک قذافی اور ان کے وفادار مختلف محاذوں پہ جوابی کارروائی کرتے رہے، بالآخر سرت کے محاذ پہ وہ کئی باغیوں کو اپنے ہاتھوں موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد لیلائے شہادت کو گلے لگانے میں کامیاب ہو گئے۔
تیرے لہو سے بڑھ گئی صحرا کی آبرو
ذہنوں میں نقش ہو گیا ہے تیرا سُرخ رُو
دنیا میں تیرا عزم ہے موضوع گفتگو

خاک وطن سے عہد نبھا کر گیا ہے تو،قذافی اس شعر کے حقیقی مصداق بن گئے:
جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی،
کٹی ہے برسر میدان مگر جھکی تو نہیں

قذافی کی شہادت پر استعمار کے نمک خوار باغیوں نے جشن منایا، مٹھائیاں تقسیم کیں، بھنگڑے ڈالے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا، مغربی ممالک میں امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور اٹلی سمیت دیگر ممالک نے مسرّت کا اظہار کیا، عبوری کونسل کے راہنماﺅں کو اس فتح عظیم پر مبارکبادیں دیں، 30لاکھ بیرل تیل روزانہ نکالنے کی بات بھی کی، قذافی کا نام لے کر مغربی حکمران عرب ممالک کو خبردار کر رہے ہیں کہ اب ان کی شاہی کے تار پود بھی بکھرنے والے ہیں، ایک طرف دنیائے کفر میں شادیانے دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمران کتنے انجانے بنے ہوئے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ہے، کچھ سمجھائی اور سُجھائی ہی نہیں دے رہا کہ ان دس سالوں میں امارت اسلامیہ افغانستان کو ملیا میٹ کیا گیا، صدام حسین کے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، قربانی کی عید والے دن مسلم ملک کے سربراہ کو پھانسی دے دی گئی، ۲ مئی ۱۱۰۲ءکو مسلم امہ کے ہیرو مجاہد اسامہ بن لادن کو شہید کر کے اس کی لاش غائب کر دی گئی، سب سے بڑے مسلم ملک انڈونیشیا میں عیسائی ملک جنم دیا گیا، اسلامی ملک سوڈان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے ایک ٹکڑا عیسائیوں کے حوالے کر دیا گیا....کوئی مسلم حکمران، سربراہ مملکت، تاجدار تخت شاہی کی زبان حرکت نہیں کرتی، اس ظلم پہ احتجاج نہیںکرتی، یہاں نصرت بھٹو کے مرنے پہ دس دن کا سوگ منایا جا رہاہے مگر امت مسلمہ کی آبرو و عظمت لٹنے پر کوئی سوگ، کوئی افسوس، کوئی دکھ، کوئی تعزیت کرنے والا نہیں ہے۔
M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308101 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More